عہد بشار کا اختتام: رازہائے سر بستہ؟؟؟؟
طہ جون پوری
08-12-24
محض 12 دن میں کسی حکمراں کے عہد کا خاتمہ، یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں. یہ اب تاریخ کا حصہ ہوچکا ہے. اس لیے اس کے پیچھے راز کیا ہے، تجزیہ کار، صحافی، جیو پولیٹکس اور عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے، اس پر تبصرہ اور تجزیہ ضرور پیش کریں گے۔
لیکن فی الحال اتنا سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے، ایسا کیوں ہوگیا؟ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ اسرائیل – حماس جنگ پچھلے تقریباً چودہ مہینوں سے مسلسل جاری ہے. اس جنگ میں اسرائیل نے اپنی فضائی طاقت کے بل بوتے، دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل، غزہ (بالخصوص شمالی غزہ) کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کردیا ہے. اس درمیان حماس کی حمایت میں کبھی کچھ ایران آیا اور کبھی حزب اللہ سامنے آیا. جس کے نتیجے میں اسرائیل کو کئی طرف جنگ کے لیے توجہ دینی پڑی. حزب اللہ سے جنگ کے نتیجے میں، اسرائیلی فضائیہ نے نقصان تو ضرور پہونچایا لیکن زمینی جنگ میں اسے بھاری نقصان پڑا، بالآخر اس نے حزب اللہ سے جنگ بندی کرہی لی۔
لیکن چوں کہ حزب اللہ کے تعلقات شامی حکومت سے بہت مضبوط رہے ہیں اور کیوں نہیں، وہاں کی بشار حکومت بھی شیعہ ہے، اس لیے حزب اللہ کو پورا تعاون ملتا رہا ہے. اور ایران بھی دم قدم چلتا رہا ہے. اس لیے اسرائیل نے کئی بار شام کو یہ دھمکی دی کی، حزب اللہ کی مدد نا کی جائے اور آخر میں 26/27 نومبر کو، اسرائیل نے، نا صرف یہ دھمکی دی کہ، اسلحوں کی فراہمی پر ہم حملے کریں گے، بلکہ بشار کا عہد حکومت بھی، حزب اللہ کے تعاون کے لیے بھاری قیمت چکائے گا۔
حوالے کے لیے اسرائیلی اخبار The Times of Israel پر یہ خبر دیکھی جاسکتی ہے. جس کا ایک اقتباس پیش ہے.
a senior military official said that the IDF would not just strike the weapon shipments, but Syrian President Bashar Assad’s regime would pay for aiding Hezbollah.
لہذا بہت ممکن ہے کہ ان سب کی وجہ سے ایسا کھیل شروع ہوا ہو۔
سوال سنی گروپ کیوں آگے؟
شام کے حوالے سے چوں کہ یہ بات رہی ہے، کہ وہاں سنیوں کا قتل عام ہوا ہے، اس لیے شیعہ – سنی کا رنگ دے کر، سنیوں کے ایک گروپ کو جو پہلے سے بھی اس کا بہر حال منتظر تھا، اور کیوں نہیں، جس پر بارہ سال سے ظلم و ستم کا ہر پہاڑ توڑ دیا گیا تھا، سامنے کردیا گیا. ورنہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کو تو پہلے غزہ کی مدد کرنا تھا، جو سال بھر سے جل رہا ہے، کہاں سے اس طرف یکایک صورت حال بدل گئی. مزید یہ کہا جا رہا ہے، کہ اس میں امریکہ و اسرائیل کے کرائے کے ٹٹو بھی شامل ہیں، جو انھیں کے ہمنوا و ہم خیال ہیں۔
کردش پھر کیوں عہد کے زوال میں شریک کار رہے؟
ترکی سرحد سے متصل، شام کا ایک خطہ کردوں کا رہا ہے. جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے، کہ یہ ترکی کو پسند نہیں کرتے. اور یہ ہمیشہ اپنے لیے الگ سے ایک علاقے کی مانگ کرتے ہیں، اس لیے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ان کو بھی کھڑا کیا گیا تاکہ، یہ اپنے علاقے کے لیے مانگ رکھیں. اس کا ایک فائدہ امریکہ بہادر اینڈ ٹیم کو یہ ہوگا، کہ ترکی (جو روس بلاک کا حصہ ہے) ، ہمیشہ اسی میں الجھا رہے گا، اور دشمن کو پھنسائے رکھنا یہ بھی جنگ کا حربہ ہے۔
امریکہ و اسرائیل کیوں خوش؟
ادھر یہ بات سب کو معلوم ہے کہ، اس وقت دنیا دو حصوں میں منقسم ہے. ایک روس بلاک ہے، دوسرا امریکہ و اسرائیل بلاک ہے. شام، روس بلاک کا حصہ رہا ہے. اس لیے بہت ممکن ہے، کہ یہ سارا کھیل کھیل کر مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی صورت پیدا کردی جائے اور امریکہ بہادر ساحل پر کھڑے تماشہ دیکھتے رہیں۔
ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے، کہ غزہ کو حاشیہ پر لا دیا جائے تاکہ اس کے حوالے سے ہنگامہ فرو تر ہوجائے. ویسے بھی حزب اللہ کے سابق مقتول رہنما حسن نصر اللہ نے: 25/ مئی 2013 کو کہا تھا: کہ إذا سقطت سوريا ضاعت فلسطين، کہیں، وفاقی ایسا نا ہو، لیکن بہر حال ہم پر امید ہیں، کہ و ما اللہ بغافل عما یعمل الظالمون۔
نتیجہ کیا ہوسکتا ہے؟
غزہ – اسرائیل کے نتیجے میں، عالمی سیاست میں، شیعہ – سنی کچھ قرب ہوا تھا، وہ ایک بار پھر، تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکا ہے اور مزید بکھرے گا. کیوں کہ شام اب سنیوں کے قبضے میں جا چکا ہے۔
حکومت کے حوالے سے، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن اگر کردوں نے ایک علاقے کی مانگ کی اور وہ پوری ہوئی تو، شام کا ایک ٹکڑا ہوگا. ادھر اسرائیل، ہمیشہ گریٹر اسرائیل یعنی اسرائیل عظمیٰ کا خواب دیکھتا ہے، تو ممکن ہے، کہ وہ بھی گولان ہائٹس سے آگے جنوبی شام میں کچھ آگے بڑھے، تو یہ دوسرا ٹکڑا ہوگا. اور پھر موجودہ حکومت، ایک حصہ لازمی لے گی، تو یہ تیسرا ٹکڑا ہوگا. اس لیے خطرات بڑھ رہے ہیں، لیکن بہر حال یہ اتنا آسان نہیں۔
خیر بحیثیت مؤمن ہم اللہ سے خیر کی دعا مانگتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کہ اس کے فیصلے میں حکمت ہوا کرتی ہے. اور ان شاء اللہ خیر ہی ہوگا.
خدا سب خیر کرے.اور سب کو بہ عافیت رکھے۔