"زبان کا تعلق مذہب سے نہیں؛ زمین سے ہے۔”  (پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی) اسلام جمخانہ میں سعدی شیرازی اور فارسی زبان و ادب پر ایک ادبی نشست کا انعقاد

Eastern
10 Min Read
103 Views
10 Min Read

"زبان کا تعلق مذہب سے نہیں؛ زمین سے ہے۔”  (پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی)
اسلام جمخانہ میں سعدی شیرازی اور فارسی زبان و ادب پر ایک ادبی نشست کا انعقاد

ای سی نیوز ڈیسک
ممبئی 22 اپریل 2025
(محمد اسعد)21 اپریل 2025ء بروزپیر کو کانفرنس ہال اسلام جمخانہ، مرین لائن (ویسٹ) ممبئی میں "اردو کارواں” اور "خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران” کے اشتراک سے فارسی کے مایہ ناز شاعر شیخ سعدی شیرازی پر ایک ادبی نشست منعقد ہوئی، جس میں ہند و ایران کے متعدد ادباء و مفکرین اور شعراء و اہلِ قلم نے زینت بخشی۔ مسندِ صدارت پر ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی انتہائی نستعلیقی ہیئت میں جلوہ افروز تھیں۔

افتتاحی کلمات میں "اردو کارواں” کے صدر فرید احمد خان نے شیخ سعدی کے مشہورِ زمانہ شعر "بلغ العلیٰ بکمالہ… کا پسِ منظر بتلاتے ہوئے فرمایا کہ: قافیہ پیمائی کا بادشاہ سعدی شیرازی جب یہ شعر کہتا ہے تو تین مصرعوں کے بعد چوتھے مصرع کا توارد رک جاتا ہے، ہرچند وہ عروض و قافیہ کی جولان گاہ میں اپنا فکری گھوڑا دوڑاتا ہے، لیکن نتیجہ ندارد، سرگرداں و ازخود رفتہ ہوکر بالآخر خواب میں رسالت مآب ﷺ کے ساتھ ہم کلامی سے شرف یاب ہوتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے، ممدوح خود ہی نعت گو کو مصرع بخشتا ہے اور طوطیِ شیراز کا شعر یوں مکمل ہوتا ہے:
بلغ العلى بكماله
كشف الدجى بجماله
حسنت جميع خصاله
صلو عليه وآله”

ایران کلچر ہاؤس ممبئی کے ڈائریکٹر محمد رضا فاضل نے شیخ سعدی کی اس حمد سے اپنی گفتگو کا آغاز فرمایا:
کریما ببخشاي بر حالِ ما
كہ ہستم اسيرِ كمندِ ہوا

دورانِ گفتگو انھوں نے بتایا کہ ان کے کلام میں انسانی اقدار اور معاشرتی حساسیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شیخ سعدی نے محض کتابی زندگی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ مشاہدات و تجربات کے لئے پہلے شہروں اور ملکوں کی خاک چھانی، اور پھر گلستان وبوستان وغیرہ کی شکل میں اخلاق وفلسفہ اور حکمت کی ایسی دستاویز پیش کی کہ آج بھی مغربی دانش گاہیں اس سے بےنیاز نہیں ہیں۔

مقررِ خصوصی ڈاکٹر مفتی محمد علاؤ الدین قادری نے شیخ شیرازی کے تصوف والے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ ہر عالم صوفی نہیں ہوتا؛ لیکن ہر صوفی عالم ہوتا ہے۔ نیز صوفی کبھی ظاہرا منتشر اور باطنا پرسکون ہوتا تھا، لیکن اب معاملہ برعکس ہے، اب صوفی بظاہر پرتعیش ہے لیکن دل بےچین۔ انھوں نے فرمایا کہ ہر شخص کو تزکیہ واحسان کے لیے گلستان و بوستان کو حرزِ جاں بنانا چاہئے۔ کیوں کہ شیخ سعدی کے فلسفے، حکمت اور دانائی کا یہ عالم ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ان کا یہ شعر کندہ ہے:
بنی‌آدم اعضای یک دیگرند
کہ در آفرینش ز یک گوہرند
جس کا معنی یہ ہے کہ تمام انسان ایک ہی جسم کے اعضا کی مانند ہیں، کیونکہ وہ سب ایک ہی جوہر سے پیدا ہوئے ہیں۔

جناب آقائی حسن محسنی فرد نے دورانِ خطاب فارسی کے حوالے سے ہند و ایران کے قدیم تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سعدی کا زمانہ بہت پرآشوب تھا کیوں کہ اس وقت منگولوں نے عالمِ اسلام پر وہ کاری ضرب لگائی تھی کہ لگتا تھا اب اسلام کا چراغ گل ہوجائے گا۔ لیکن اس دور میں بھی سعدی نے انسانیت، محبت، اخلاق، فلسفہ، حکمت اور تصوف پر مشتمل ایسی شاعری کو پیش کیا جو رہتی دنیا تک لوگوں کے لئے نشانِ راہ بن گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ صرف روحانیت و اخلاق کے علم بردار نہ تھے بلکہ وہ ایک بہت عظیم مفکر اور فلسفی بھی تھے۔

Moral Inculcating Summer Camp 2025 - Click the link for registration.
Moral Inculcating Summer Camp 2025 – Click the link for registration. https://forms.gle/BPPsU8Q5hJUcLY9s6

آخر میں انھوں نے کہا کہ ہندوستان کے اندر سعدی کے افکار کو مغل شہنشاہ اکبر اور دارا شکوہ وغیرہ نے نہ صرف بڑی اہمیت دی بلکہ ان کی گلستاں وبوستاں کو گلے سے لگایا۔ علاوہ ازیں بنگالی زبان کے مشہورِ زمانہ شاعر رابندرناتھ ٹیگور نے بھی سعدی کے افکار کو سراہا ہے۔ سعدی کے سفرِ ہند کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہند وایران کے تعلقات قدیم تہذیبوں پر مبنی ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کی تاریخ، فلسفہ اور شاعری نے سعدی کو متاثر کیا ہے۔ ایران ان کو فروغ دینے کیلئے پیش رفت کررہا ہے تاکہ ہند و ایران کے درمیان یہ ایک پل کا کام کرے، اگرچہ آج کل سیاسی اتھل پتھل بہت زیادہ ہے۔

آخر میں پروگرام کی صدر پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی صاحبہ نے ایک بہت ہی نپی تلی، نفاست سے لبریز اور ظرافت سے پُر گفتگو فرمائی، جس نے دلوں کو موہ لیا۔ انھوں نے اپنی گفتگو کے پہلے حصے میں زبانوں پہ ہونے والی موجودہ زعفرانی سیاست کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ "زبان کا تعلق مذہب، مسلک یا عقیدے سے نہیں؛ بلکہ زمین سے ہوتا ہے”۔ مثلا فرانسیسی زبان فرانس سے اور جرمن زبان جرمنی سے تعلق رکھتی ہے وغیرہ۔ اسی طرح ملکِ فارس یعنی ایران سے جو زبان نکلی ہے وہ فارسی کہلائی۔ انھوں نے مزید کہا کہ علم و ادب کا شعور زبان کے دوش پر سفر کرتا ہے۔ اردو کا فارسی سے کس نوعیت کا تعلق ہے، اسے واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اردو اور ہندی جس طرح آپس میں بہنیں ہیں، اسی طرح فارسی بھی اردو کی بہن ہے؛ لیکن وہ دور بیاہ دی گئی ہے۔ لیکن اب بھی اردو داں طبقے کو فارسی سے بے نیازی نہیں ہے، کیوں کہ فارسی کے الفاظ اگر نہ ہوتے تو اردو بے رس اور بے مزہ ہوتی، نیز وہ دلکشی، حسن اور شیرینی نہ ہوتی جس پر آج اردو کو ناز ہے۔مثلاً میر تقی میر کا یہ شعر؂
میر! ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

اسی طرح غالب کا شعر؂
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے

اسی طرح غالب کا یہ دوسرا شعر؂
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

ان اشعار کے اندر "نیم باز آنکھیں”، "طوافِ کوئے ملامت” اور دلِ ناداں وغیرہ فارسی کی وہ پرکشش تراکیب ہیں جنھوں نے ان اشعار کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچادیا۔ استشہاد کے لئے انھوں نے ولی محمد دکنی سے لے کر میر تقی میر سے ہوتے ہوئے غالب و اقبال تک کے کئی اور چیدہ اشعار کو پیش کیا اور آخر میں فرمایا کہ اپنے دامن میں اردو نے جتنی موتیوں کو ٹانکا ہے، وہ سب فارسی زبان کی مرہونِ منت ہیں۔

گفتگو کے دوسرے حصہ میں ڈاکٹر صاحبہ نے شیخ سعدی شیرازی پر بہت شاندار گفتگو فرمائی، انھیں امامِ غزل، نمک دانِ شعراء اور غزل کا پیغمبر جیسے القاب سے یاد کرتے ہوئے ان کے متعدد دلکش اشعار کو پیش کیا۔ اور آخر میں ایک بہت ہی اہم بات ارشاد فرمائی کہ سعدی نے اپنے کلام میں جہاں بھی نصیحت یا نکیر فرمائی ہے تو بالواسطہ یا واقعات و قصص  کا سہارا لے کر سمجھایا ہے، آج کی طرح براہِ راست اور دوٹوک انداز میں نصیحت یا نکیر نہیں کی، جس کی بناپر آج بھی سعدی کا پوری دنیا میں غلغلہ ہے۔ آخر میں انھوں نے یہ فرمایا کہ مولانا حالی نے شیخ سعدی کو شیسکپیئر کا ہم پایہ قرار دیا ہے۔ لیکن محترمہ نے اس پر استدراک کرتے ہوئے فرمایا کہ سعدی کا مرتبہ شیکسپیئر سے کہیں بلند ہے۔ لیکن درحقیقت مولانا حالی خود اردو کے سعدی شیرازی ہیں، کیونکہ حکمت و فلسفہ، تصوف و مشاہدہ اور اخلاق و سیاست پر مشتمل جس طرح فارسی میں سعدی شیرازی نے کلام کیا ہے بعینہٖ مولانا حالی نے اردو میں کیا ہے۔

اور آخر میں شال پوشی، تقسیمِ اسناد اور تہنیت و تبریک کے مراحل سے گزرتے ہوئی یہ بیش قیمت نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔ صدر اردو کارواں فرید احمد خان نے مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا فارسی زبان وادب کے حوالے سے اس طرح مل کر بیٹھنا اس بات کا غماز ہے کہ فارسی کی مہک اور تاثیر انشاءاللہ دور اور دیر تک برقرار رہے گی۔

Share This Article
2 تبصرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم از____ محمد توقیر رحمانی…

Eastern

ماہ ربیع الاول اور اسوۂ نبوی ﷺ کا تقاضا

ماہ ربیع الاول اور اسوۂ نبوی ﷺ کا تقاضا از____ محمد توقیر…

Eastern

انسان کی تخلیق محض وجود کیلئےنہیں ، خلافتِ ارضی کی عظیم ذمہ داری کیلئے ہے

انسان کی تخلیق محض وجود کیلئےنہیں ، خلافتِ ارضی کی عظیم ذمہ…

Eastern

نئے زمانے کے نئے بت

نئے زمانے کے نئے بت ازــــــ محمد توقیر رحمانی زمانے کی گردِش…

Eastern

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور کا کڑا امتحان ہے

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور…

Eastern

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی…

Eastern

Quick LInks

بہار کے مسلمان ووٹرز کو پچھلی غلطی دہرانے سے گریز کرنا چاہیے

بہار کے مسلمان ووٹرز کو پچھلی غلطی دہرانے سے گریز کرنا چاہیے…

Eastern

ملت ٹائمز کے بانی چیف ایڈیٹر جناب شمس تبریز قاسمی کو ملت پرائیڈ ایوارڈ

ملت ٹائمز کے بانی چیف ایڈیٹر جناب شمس تبریز قاسمی کو ملت…

Eastern

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم از____ محمد توقیر رحمانی…

Eastern