ترجیحات کے بحران میں امتِ مسلمہ کے مسائل
ڈاکٹر عادل عفان
مضمون نگار معروف تجزیہ نگار اور معلم ہیں۔
"ہماری محنت پر ہمارے تقدسات غالب ہیں.” یا پھر”ہم نے مینار بلند کیے، انہوں نے فکر بلند کی۔ ہم نے ماضی سنوارا، انہوں نے مستقبل بنایا۔” یا پھر” ہم صرف مستقبل کی فکر میں ڈوبے رہتے ہیں، وہ حال اور مستقبل کو ساتھ لیے چلتے رہیں”
یہ سطریں صرف ایک شکایت نہیں، بلکہ وہ تلخ حقیقت ہے جو امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت کا عکاس ہے۔ آج جب دنیا چاند، مریخ اور مصنوعی ذہانت کے میدان میں نئی راہیں بنا رہی ہے، ہم اپنی شکستہ دعاؤں اور فخر کے نمائشی مجسموں میں الجھے بیٹھے ہیں۔ یہی وہ بحران ہے جو نہ صرف ہمیں پیچھے رکھے ہوئے ہے بلکہ ہماری اجتماعی سوچ کو بھی زنگ آلود کر رہا ہے۔ راقم کا مقصود اسی فکری اور عملی زوال کی وجوہات پر روشنی ڈالنا ہے، اور اس سوال پر غور کرنا ہے کہ کیا واقعی ہماری ترجیحات درست ہیں؟
امریکہ کے ایک B-2 اسپرٹ بمبار طیارے کی قیمت 2.1 بلین ڈالر ہے، جب کہ برج خلیفہ، جو دنیا کی سب سے بلند عمارت ہے، 1.5 بلین ڈالر میں تعمیر ہوا۔ یہ موازنہ صرف ایک مالیاتی حقیقت نہیں، بلکہ دو قوموں کی ذہنی ساخت کا فرق بھی واضح کرتا ہے۔ ایک طرف ہم شیشے، سیمنٹ اور اسٹیل میں عظمت تلاش کرتے ہیں، اور دوسری طرف وہ اپنی عظمت کو ٹیکنالوجی، تحقیق، اور دفاعی تیاریوں میں تلاش کرتے ہیں۔ یہی فرق ترقی اور زوال کی لکیر کھینچتا ہے۔ گویا ہمارے پاس بھی دولت کم نہیں، مگر استعمالات الگ الگ ہیں۔

امریکہ ہر سال 900 بلین ڈالر سے زیادہ دفاع پر خرچ کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ طاقت صرف اسلحے میں نہیں، بلکہ اسلحہ بنانے کی صلاحیت میں بھی ہے۔ اس کے برعکس، امتِ مسلمہ کی اکثریت آج بھی قدرتی وسائل، خاص طور پر تیل، پر فخر کرتی ہے، گویا وہ عقل، علم اور مہارت کا نعم البدل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تیل دولت دے سکتا ہے، مگر ترقی نہیں۔ عقل خریدی نہیں جا سکتی، صرف پروان چڑھائی جا سکتی ہے۔ گویا وسائل کے استعمال سے مسائل ختم کیے جاسکتے ہیں۔
ہمیں بچپن سے سکھایا گیا کہ دعا مانگو، اللہ دے گا۔ اور یقیناً دعا کی طاقت مسلم ہے۔ لیکن دعا کے ساتھ عمل نہ ہو تو وہ صرف ایک تمنّا رہ جاتی ہے۔ ہم خواب بناتے ہیں، وہ منصوبے۔ ہم تقریریں کرتے ہیں، وہ تحقیق۔ ہم گفتار کے غازی بن جاتے ہیں، کردار کے مثالی نہیں بن پاتے۔ ہم جذباتی نعرے لگاتے ہیں، وہ عملی اقدامات کرتے ہیں۔ یہی تضاد ہمیں دعاؤں میں الجھا کر رکھتا ہے، اور وہ دنیا کو فتح کرتے ہیں۔ دعا ضروری ہے مگر تحرک وعمل کے ساتھ،اس پس منظر میں ایک شعر:
دعا گدائے اثر ہے دعا پر تکیہ نہ کر
کہ اعتماد اثر ملاملا یا نہ ملا
کبھی امتِ مسلمہ سائنس، طب، فلکیات اور فلسفے میں رہنما تھی۔ بغداد، قرطبہ، بخارا اور سمرقند کے کتب خانے علم کا سمندر تھے۔ آج وہی امت دینی مدارس اور مساجد کے بعد کسی اور ادارے کو "مقدس” نہیں سمجھتی۔ جب کہ دنیا کی ترقی کا انحصار سائنس، ٹیکنالوجی، اور تحقیقی اداروں پر ہے۔ ہمیں صرف مسجدیں نہیں، لیبارٹریاں بھی درکار ہیں۔ صرف منبر نہیں، مائیکروسکوپ بھی۔ صرف عالم نہیں، سائنس دان بھی، بلکہ ایسے عالم چاہیے جو سائنس اور اسلامیات سے لیس ہوں۔
ہم بچوں کو بدر، احد اور فتحِ مکہ کے قصے سناتے ہیں۔ اور سنانے بھی چاہئیں، کیونکہ وہ ہماری تاریخ کے روشن ابواب ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم انہیں صرف "قصے” کی حد تک رکھتے ہیں، ان سے سبق نہیں نکالتے۔ دوسری طرف، وہ قومیں اپنے بچوں کو کوڈنگ، روبوٹکس، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، اور خلائی تحقیق سکھاتی ہیں۔ نتیجہ؟ ہم ماضی میں زندہ ہیں، وہ مستقبل میں آگے نکل چکے ہیں۔
زوال پذیر قومیں صرف ظاہری غلامی کا شکار نہیں ہوتیں، بلکہ فکری غلامی ان کی روح کو مفلوج کر دیتی ہے۔ جب ہم نئی سوچ، نئے سوال، اور نیا زاویہ برداشت نہیں کر پاتے، تو ہم خود کو بند کر لیتے ہیں۔ ترقی یافتہ قومیں سوال کرتی ہیں، تجربہ کرتی ہیں، اور غلطیوں سے سیکھتی ہیں۔ ہم خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کہیں سوال عقیدے پر حملہ نہ بن جائے، جب کہ وہ جانتے ہیں کہ سوال ہی تحقیق کی بنیاد ہے۔ بلاشبہ سوالات عقل و ایجاد کی خوراک ہیں۔
ہمیں اپنی سوچ کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ سوچ جو ابنِ سینا، الرازی، البیرونی، اور ابنِ رشد جیسے عظیم مفکرین نے پروان چڑھائی۔ وہ فکر جو دین اور دنیا کے بیچ دیوار نہیں کھڑی کرتی، بلکہ دونوں کو ہم آہنگی سے جوڑتی ہے۔ ہمیں صرف "مولوی” نہیں، "مفکر” بھی پیدا کرنے ہوں گے۔ ہم مفکر کیا آج مصلح بھی پیدا نہیں کرپارہے ہیں۔ مفکر چیزوں اور خیالات کو توڑ مروڑ کر نئے سرے سے کام کرتا ہے، مگر مصلح پرانی چیزوں میں معمولی ردوبدل کرتا ہے، گویا ہم نہ صرف مفکروں سے محروم ہیں بلکہ مصلحتوں سے بھی۔
ہماری تعلیم اور تربیت کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہم یکساں سوچ کی تربیت کرتے ہیں۔ ایک جیسا لباس، ایک جیسا خیال، ایک جیسا طرزِ عمل۔ ترقی انہی معاشروں میں ہوتی ہے جو تنوع کو خوش آمدید کہتے ہیں، جہاں مختلف خیالات کو سننے اور سمجھنے کی گنجائش ہو۔ جب تک ہم سوالوں سے ڈریں گے، جواب کبھی نہیں پائیں گے۔
اس سب کے باوجود، ابھی دیر نہیں ہوئی۔ اگر ایک طیارہ دنیا کی سب سے بڑی عمارت سے مہنگا ہو سکتا ہے، تو ہماری سوچ کی پرواز بھی بلند ہو سکتی ہے۔ ہمیں صرف اپنی ترجیحات بدلنی ہیں۔ مسجد کے برابر ایک سائنس سینٹر ہو، مدرسے کے ساتھ ایک تحقیقی ادارہ، اور ماضی کی شان کے ساتھ مستقبل کی تیاری بھی۔

ترقی صرف بلند عمارتیں بنانے کا نام نہیں، بلکہ بلند فکر اور گہری تحقیق سے حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں، اپنی ترجیحات پر نظرِ ثانی کریں، اور یہ طے کریں کہ ہم آئندہ نسلوں کو کیا دینا چاہتے ہیں:ایک ماضی کے قصے؟
یا ایک روشن مستقبل کی چابی؟ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم صرف "دعا گو” بننا چاہتے ہیں یا "عملی خواب ساز”؟
صرف "ماضی کے وکیل” یا "مستقبل کے معمار”؟کیونکہ اگر ہم نے اب بھی اپنی سوچ نہ بدلی، تو وقت ہمیں تاریخ کے کچرے دان میں ڈال دے گا اور شاید وہ پہلے ہی ڈال چکا ہے۔ اسلامیات کی برکت سے بھی ہم سائنسی دنیا میں نام کرسکتے ہیں، کام کرسکتے ہیں، ضرورت ہے کہ ہم آگے بڑھیں، راستہ نکالیں۔ ہمارے پاس قدرتی وسائل کا ذخیرہ ہے، ان ذخیروں سے ہم حال میں ہی اپنا بھلا نہ کریں، بلکہ آئندہ کی دنیا کے لیے ہم تیار ہوں، کیونکہ یہی وقت کا تقاضا ہے، عقل کی پکار ہے اور مستقبل سازہے۔