Eastern
9 Min Read
93 Views
9 Min Read

یومِ آزادی، مسلمانوں کی قربانی اور حالیہ مسائل

ازــــــ ڈاکٹر عادل عفان

ہندوستانی تاریخ میں 15 اگست 1947 ایک عظیم سنگِ میل ہے۔کیوں کہ اس دن نہ صرف ہندوستانیوں کو آزادی ملی،بلکہ ان کی متحدہ کوششوں کی تاریخ بھی انمٹ ہوگئی۔ بلاشبہ یہ دن برصغیر کے عوام کی صدیوں پر محیط قربانیوں اور جدوجہد کا حاصل ہے۔ آزادی کی اس نعمت کے پیچھے بے شمار جانوں کی قربانیاں، مالی نقصانات اور طویل سیاسی جدوجہد پوشیدہ ہے۔ جنگ آزادی میں برصغیر کے مسلمانوں کا کردار شان دار اور فیصلہ کن رہا، مگر بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان قربانیوں کو فراموش کرنا ایک فیشن سا بن گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج مسلمان کئی نئے مسائل و چیلنجز سے دوچار ہیں۔

یومِ آزادی کی اہمیت صرف جشن منانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ دن ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتا ہے، ماضی کی قربانیوں کو یاد رکھنے کا پیغام دیتا ہے اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کی ترغیب دیتا ہے۔یومِ آزادی صرف ایک قومی تہوار نہیں بلکہ ایک عہدِ وفا کی یاد دہانی ہے۔ یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ غلامی کا طوق توڑ کر آزادی حاصل کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔ غلامی کے زمانے میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب نے مل کر برطانوی سامراج کے خلاف آواز بلند کی۔ اس تحریک میں دو بڑے پہلو ہیں: ایک سیاسی جدوجہد، جس میں بڑے بڑے لیڈروں اور سیاسی جماعتوں نے محاذ آرائی کی۔ کانگریس اور مسلم لیگ جیسی جماعتوں نے اپنا ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ دوسرا عوامی بیداری، جو گلی کوچوں، مدارس، مساجد اور تعلیمی اداروں میں پیدا ہوئی۔ یومِ آزادی ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ آزادی کی حفاظت صرف جشن منانے سے نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں کو نبھانے سے ہوتی ہے، اور یہ دن ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق لینے اور آنے والے کل کو بہتر بنانے کی ترغیب دیتا ہے۔

Advertisement
Advertisement

1857 کی پہلی جنگِ آزادی کو اکثر جدید ہندوستان کی قومی بیداری کا نقطہ آغاز کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے سب سے نمایاں کردار ادا کیا۔ بہادر شاہ ظفر کو بغاوت کا علامتی بادشاہ بنایا گیا، جبکہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولوی احمد اللہ شاہ اور دیگر شخصیات نے عملی قیادت فراہم کی۔ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں کو گرمایا۔ اس بغاوت کی ناکامی کے بعد ہزاروں مسلمانوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا یا کالا پانی بھیج دیا گیا، ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں، اور انہیں تعلیمی و سیاسی میدان سے بے دخل کردیا گیا۔ بعد کے دور میں سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے علی گڑھ تحریک شروع کی۔ کانگریس میں بھی متعدد مسلمان رہنما شامل رہے، جیسے مولانا ابوالکلام آزاد، جنہوں نے ہندو مسلم اتحاد پر کام کیا ہے۔ اپنی دانش مندی سے ہندوستان کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ خلافت تحریک، عدم تعاون تحریک اور 1942 کی ”بھارت چھوڑو“ تحریک میں بھی مسلمانوں نے بھرپور شرکت کی۔ بہت سے علماء نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بے شمار علمائے دین اس جدوجہد کا حصہ بنے رہے۔ ان کی قربانیاں صرف سیاسی آزادی تک محدود نہ تھیں بلکہ یہ ایک تہذیبی بقا کی جدوجہد بھی تھی۔

آزادی کے بعد تقسیمِ ہند کے المیے نے مسلمانوں کو دوہری آزمائش میں ڈال دیا۔ ایک بڑی تعداد پاکستان ہجرت کر گئی، لیکن جو ہندوستان میں رہے، وہ نئے سیاسی اور سماجی حالات میں اپنی شناخت اور حقوق کے لیے کوشاں رہے۔ ابتدا میں یہ امید تھی کہ سیکولر آئین کے تحت سب شہری برابر ہوں گے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مسلم معاشرہ کئی محاذوں پر کمزور ہوتا گیا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ آزادی ملتے ہی ہندوستان دو ٹکروں میں بٹ گیا، اس تقسیم کا نقصان سب سے زیادہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ہوا۔ حالاں کہ ان کے پاس پاکستان ہجرت کرنے کا موقع تھا مگر انھوں نے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دیا۔ اس لیے ایسے مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا، دانش مندی کی بات نہیں ہے۔

آج مسلمانوں کو کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ سب سے پہلے تعلیمی پسماندگی ہے، جہاں شرحِ خواندگی قومی اوسط سے کم ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی شمولیت محدود ہے، اور معیاری اسکولوں تک رسائی مشکل ہے۔ دوسرا مسئلہ معاشی کمزوری ہے، کیونکہ مسلمان زیادہ تر غیر منظم شعبوں میں کام کرتے ہیں، جہاں آمدنی کم اور روزگار غیر محفوظ ہے۔ صنعت و تجارت میں ان کا حصہ کم ہے اور سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی ناکافی ہے۔ تیسرا چیلنج سماجی امتیاز اور عدم تحفظ ہے، جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی، فسادات اور ہجومی تشدد نے خوف کا ماحول پیدا کیا ہے۔ سیاسی میدان میں بھی نمائندگی کم ہو رہی ہے، اور اکثر سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو محض ووٹ بینک سمجھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور شناختی دباؤ بھی ہے، جہاں زبان، لباس اور مذہبی رسومات پر غیر ضروری تنازع کھڑا کر دیا جاتا ہے، جیسے مدارس کی منفی تصویر کشی یا حجاب کے مسئلے کو سیاسی رنگ دینا۔

مسلمانوں کے موجودہ مسائل کا حل شکایت یا احتجاج میں نہیں بلکہ مثبت اور عملی اقدامات میں ہے۔ سب سے اہم تعلیم پر بھرپور توجہ ہے، جس میں دینی کے ساتھ عصری اور سائنسی تعلیم کا فروغ شامل ہو۔ معیاری تعلیمی اداروں کا قیام، اسکالرشپ پروگرام اور آن لائن تعلیم کا استعمال اس میں مددگار ہو سکتا ہے۔ معاشی ترقی کے لیے چھوٹے کاروباروں کو مالی سہولتیں، ہنر مندی کے کورسز اور اسٹارٹ اپ کلچر کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ سماجی ہم آہنگی کے لیے بین المذاہب مکالمے اور مشترکہ فلاحی منصوبوں میں شرکت کی ضرورت ہے۔ سیاسی بیداری کے ذریعے مؤثر نمائندگی کا حصول اور مقامی سطح پر قیادت تیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ اپنی تہذیبی شناخت اور زبان و ادب کے تحفظ پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔

Advertisement
Advertisement

یومِ آزادی ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ آزادی کسی قوم کو تحفے میں نہیں ملتی بلکہ قربانیوں اور جدوجہد کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی جان، مال، وقت اور صلاحیتیں قربان کر کے اس ملک کی آزادی میں اپنا کردار ادا کیا۔ آج ہمارا فرض ہے کہ ہم اس آزادی کی قدر کریں، اس کی حفاظت کریں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے تعمیری راستے اختیار کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم مایوسی کے بجائے امید اور محنت کا راستہ اپنائیں تاکہ آنے والی نسلیں ایک محفوظ، تعلیم یافتہ اور باوقار زندگی گزار سکیں۔ مسلمانوں کی قربانیوں کا اصل حق اسی وقت ادا ہوگا جب وہ اپنے موجودہ چیلنجز کو پار کر کے ملک کی ترقی میں بھرپور حصہ ڈالیں، اور یومِ آزادی صرف ایک یادگار دن نہیں بلکہ ایک مسلسل تحریک بن جائے۔ جس طرح ایک باغ کو لگا نے کے بعد اسے چھوڑ نہیں دیا جاتا ہے بلکہ اس کی کٹنگ یعنی اس کی تہذیب کی جاتی ہے، اسی طرح ہمیں جو آزادی ملی ہے اسی پر قناعت کرنا مناسب نہیں،بلکہ مالی جس طرح باغ کی تہذیب کرتا ہے، اسی طرح ہم ہندوستانیوں کو باغِ ہند کی تہذیب کرنی چاہیے، اگر ہم تہذیب کرنے میں کامیاب ہوں گے تو ملک ہندوستان ہمیشہ دل کش رہے گا۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم از____ محمد توقیر رحمانی…

Eastern

ماہ ربیع الاول اور اسوۂ نبوی ﷺ کا تقاضا

ماہ ربیع الاول اور اسوۂ نبوی ﷺ کا تقاضا از____ محمد توقیر…

Eastern

انسان کی تخلیق محض وجود کیلئےنہیں ، خلافتِ ارضی کی عظیم ذمہ داری کیلئے ہے

انسان کی تخلیق محض وجود کیلئےنہیں ، خلافتِ ارضی کی عظیم ذمہ…

Eastern

نئے زمانے کے نئے بت

نئے زمانے کے نئے بت ازــــــ محمد توقیر رحمانی زمانے کی گردِش…

Eastern

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور کا کڑا امتحان ہے

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور…

Eastern

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی…

Eastern

Quick LInks

کم ووٹ شیئر کے باوجود بی جے پی نے بہار میں 93٪ جیت درج کی ہے

کم ووٹ شیئر کے باوجود بی جے پی نے بہار میں 93٪…

Eastern

قرآنِ مجید بغیرِ اصل عربی متن کے، قرآن ہی نہیں

قرآنِ مجید بغیرِ اصل عربی متن کے، قرآن ہی نہیں از:  محمد…

Eastern

اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔۔۔۔۔بہار کے مسلمانوں کے لیے ایک فکری پیغام

اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔۔۔۔۔بہار کے مسلمانوں کے لیے ایک فکری…

Eastern