انسان کی تخلیق محض وجود کیلئےنہیں ، خلافتِ ارضی کی عظیم ذمہ داری کیلئے ہے
ازــــــ محمد توقیر رحمانی
سوچیے، اگر کسی بڑے میچ کے انتخابی مرحلے میں کھلاڑیوں کے بجائے ایک شخص یونہی سڑک سے راہ گیر کو پکڑ لائے اور بغیر کسی تیاری و مشق کے میدان میں اتار دے، تو کیا وہ عقل مند کہلائے گا یا دیوانہ؟ بلاشبہ وہ نادان اور بےوقوف قرار پائے گا، کیونکہ یہ اقدام حکمتِ انتخاب اور تجربۂ ماہرین کے خلاف ہے۔ یہ مثال اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب کوئی عظیم مقصد سامنے ہو تو اس کے لیے مرحلہ وار تیاری ناگزیر ہوتی ہے۔
بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو محض یوں ہی دنیا میں نہیں اتارا۔ سب سے پہلے حضرت آدمؑ کو وجود بخشا، پھر اماں حواؑ کو ان سے پیدا فرمایا اور انسانی نسل کا آغاز ہوا۔ لیکن غور کیجیے! آدمؑ کو تخلیق کرتے ہی براہِ راست دنیا میں کیوں نہ بھیجا گیا؟ انہیں پہلے جنت میں کیوں رکھا گیا؟ یہی سوال دراصل حکمتِ تخلیق اور فلسفۂ ابتلا کا دروازہ کھولتا ہے۔
خلافتِ ارضی کا منشور
قرآن نے صاف اعلان کیا:
"إني جاعل في الأرض خليفة” (البقرہ: 30)
یعنی "میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں۔”
یہ اعلان اس بات کا اعلانِ عام تھا کہ انسان کی تخلیق محض وجود کے لیے نہیں، بلکہ ایک عظیم ذمہ داری—خلافتِ ارضی—کے لیے ہے۔ لیکن خلافت کی باریکیاں سمجھے بغیر انسان کو زمین پر بھیج دینا ایسا ہی ہوتا جیسے بغیر تیاری کے کسی کو میدانِ کارزار میں دھکیل دینا۔ اس لیے آدمؑ کو پہلے جنت میں رکھا گیا تاکہ وہ دیکھیں کہ اصل سکون، اصل نعمت اور حقیقی وطن کہاں ہے۔
امتحان کی تمثیل اور انسانی کمزوری
جنت میں آدمؑ کے لیے ہر شے مہیا تھی، صرف ایک درخت کے قریب جانے سے منع کیا گیا۔ یہ ممانعت گویا پہلا امتحان تھا—امتحانِ اطاعت۔ نتیجہ کیا ہوا؟ لغزش ہوگئی، کیونکہ انسان کی ساخت ہی میں بھول اور کمزوری ہے۔ لیکن اسی لغزش نے ایک عظیم حقیقت واضح کی: انسان گرتا ہے مگر اٹھ بھی سکتا ہے؛ بھٹکتا ہے مگر پلٹ بھی سکتا ہے۔ اور یہی انسان کی سب سے بڑی عظمت ہے۔

حضرت آدمؑ نے جب لغزش کی تو فوراً رجوع کیا اور پکار اٹھے: "ربنا ظلمنا أنفسنا وإن لم تغفر لنا وترحمنا لنكونن من الخاسرين” (الاعراف: 23)
یعنی "اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے۔”
یہ واقعہ انسانی زندگی کا پہلا اور سب سے بڑا درس ہے: کامیابی معصومیت میں نہیں، بلکہ خطا کے بعد توبہ اور ہدایت پر استقامت میں ہے۔
اصل وطن کا شعور
اگر آدمؑ کو براہِ راست دنیا میں بھیج دیا جاتا تو انسان کبھی نہ جان پاتا کہ اس کا اصل وطن جنت ہے اور دنیا محض ایک امتحان گاہ۔ جنت میں ابتدائی قیام نے یہ شعور رگ وپے میں اتار دیا کہ دنیا عارضی ہے اور منزلِ مقصود صرف جنت ہے۔ یہی احساس انسان کو اپنی اصل کھوئی ہوئی میراث کی تلاش پر آمادہ کرتا ہے۔
آدمؑ کی فضیلت اور کائناتی اعلان
جنت میں قیام کے ایک اور پہلو پر بھی غور کیجیے: فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدمؑ کے سامنے سجدۂ تعظیم بجا لائیں، اور آدمؑ کو علمِ اسماء عطا ہوا۔ یہ گویا کائنات کے سامنے اعلان تھا کہ انسان محض مٹی کا پتلا نہیں بلکہ علم، ارادہ اور اختیار کا حامل ایک مخلوق ہے جس کی صلاحیتیں فرشتوں سے بھی بڑھ سکتی ہیں۔
فلسفۂ نبوت اور انسان کی تربیت
آدمؑ کا جنتی تجربہ دراصل فلسفۂ نبوت کی تمہید ہے۔ عقل خالق کے وجود تک تو پہنچا سکتی ہے، لیکن مکمل نظامِ حیات نہیں دے سکتی۔ انسان جب بھولتا ہے، شیطان بہکاتا ہے، تو پھر اسے ایک رہنما چاہیے جو وحی کے نور سے اس کی اصلاح کرے۔ یہی نبوت کا مقصد ہے: انسان کو اس کے رب کی طرف لوٹنے کی راہ دکھانا۔
الغرض، انسان اگر الٰہی احکام کے ساتھ جڑ جائے تو اس کی رفعت اس مقام تک پہنچ سکتی ہے جہاں فرشتوں کی پرواز بھی نہیں پہنچتی؛ لیکن اگر وہ ربانی ہدایات سے منہ موڑ لے تو ذلت و مسکنت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہی جنت کے قیام کا راز تھا—انسان کو وہاں زندگی گزارنے کا عملی طریقہ سکھایا گیا۔ جب حضرت آدمؑ نے اس ضابطۂ الٰہی پر عمل کر کے زندگی کا سلیقہ سیکھ لیا اور زمین کی زندگی کے لیے تیار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کی طرف بھیجا، تاکہ وہ اپنی اولاد کے لیے ایک عملی نمونہ بن جائیں۔ یہی "نمونہ” دراصل نبوت ہے۔
دراصل، ایک انسان اس وقت تک اتباع اور پیروی کے لائق نہیں ہوتا جب تک اس کی زندگی تمام تر پہلوؤں سے سامنے نہ آجائے۔ حضرت آدمؑ کی حیات اپنی اولاد کے لیے ایک زندہ نصاب تھی جس میں اطاعت، لغزش، توبہ اور پھر ہدایت کے سفر کا عملی خاکہ موجود تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبوت دراصل "عملی تعلیم” ہے، جو انسان کی فطری کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اسے بار بار یاد دہانی کراتی ہے۔
انسان کی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ وہ غفلت میں پڑ جاتا ہے، وقتی لذتوں میں بہک جاتا ہے، اور شیطان کے نازک وسوسوں کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ وہ احکامِ الٰہی کو بھلا بیٹھتا ہے اور نظامِ حیات سے کٹ کر گمراہی کی راہوں پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت کی ضرورت پڑی۔ نبوت وہ نسخہ ہے جو انسان کی اس کمزوری کا علاج کرتی ہے؛ وہ چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی بکھیر دیتا ہے؛ وہ انتباہ ہے جو بھٹکے ہوئے کو جگا دیتا ہے۔
آدمؑ کے تجربے کو دیکھیے: ایک مختصر لمحے کی لغزش ہوئی، شیطان نے چھلاوا دکھایا، قدم پھسل گئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ انسان کو "چھوڑ دینے کے لیے” نہیں بنایا گیا۔ وہ فوراً متوجہ ہوا، نادم ہوا، اور اعترافِ تقصیر کے ساتھ رب کی طرف رجوع کیا۔ یہی انسانیت کا اصل سرمایہ ہے، لغزش کے بعد رجوع۔ اور یہی نبوت کا مقصد ہے، انسان کو اس کے بھول جانے پر یاد دلانا، اس کے گرنے پر اٹھا دینا، اور اس کی غفلت کو بیداری میں بدل دینا۔
نبوت کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان کو اس کی کمزوری کے باوجود راستے پر قائم رکھا جائے۔ اگر عقل کافی ہوتی تو آدمؑ کی لغزش نہ ہوتی، اگر تجربہ کافی ہوتا تو انسان بار بار گمراہ نہ ہوتا۔ اس لیے وحی اور نبوت ناگزیر ہیں۔ وہی انسان کو اس کا حقیقی مقام بتاتی ہیں، وہی اس کی سرکشی کو اطاعت میں بدلتی ہیں، اور وہی اسے اس انجام کی طرف لے جاتی ہیں جہاں وہ فرشتوں سے بھی بلند ہو کر جنت کا وارث بن جاتا ہے۔
سیرتِ محمدی ﷺ: انسانی ہدایت کا کامل و آخری ماڈل
انسانی تاریخ میں ہزاروں انبیاء آئے، ہر ایک چراغ تھا جو اپنی قوم کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ مگر صدیاں بیت گئیں اور وقت کے طوفان نے ان چراغوں کے بہت سے آثار مٹا دیے۔ کچھ کے نام محفوظ نہیں، کچھ کے حالات نامکمل ہیں، اور کچھ کی کتابیں یا تو ضائع ہوگئیں یا تحریف و تغیر کی نذر ہوکر اپنی اصل شکل کھو بیٹھیں۔ اس لیے ہم ان پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر اتباع کے باب میں ہاتھ بندھے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ اتباع اسی کی کی جاسکتی ہے جس کی زندگی مکمل، محفوظ اور بے داغ گواہی کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہو۔
منطق صاف ہے: اگر راہ نما ہی کی زندگی پردۂ گمان میں لپٹی ہو، اس کے اقوال و افعال دھندلے نقوش میں گم ہوجائیں، یا اس کی تعلیمات مشکوک سند کے ساتھ آئیں، تو اس کی پیروی حقیقت میں اندھی تقلید کے سوا کچھ نہ ہوگی۔ مگر جب ایک ایسی شخصیت سامنے آجائے جس کی زندگی پیدائش سے لے کر وصال تک روشن آئینے کی طرح شفاف ہو، جس کا ہر قول، ہر فعل، ہر سکوت اور ہر تاثر زمانے کی شہادت سے گزرا ہو، جسے دوست بھی صدق و امانت کا پیکر مانیں اور دشمن بھی اس کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکیں—تو پھر عقل و انصاف یہی کہتا ہے کہ ایسی شخصیت کی پیروی ہی حقیقی ہدایت ہے۔
یہ شخصیت کون ہے؟ وہی جو "خاتم النبیین” ہیں، وہی جنہیں تاریخ نے "محمد عربی ﷺ” کے نام سے محفوظ کیا۔ ان کی زندگی صرف صفحات پر نہیں، بلکہ انسانی شعور پر کندہ ہے۔ ان کی سیرت صرف چند قصے کہانیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک کامل نصابِ حیات ہے۔ بچپن کی معصومیت سے لے کر جوانی کی شرافت تک، تجارت کے میدان سے لے کر سیاست و حکومت کے نظام تک، عبادت کے محراب سے لے کر خانگی زندگی کی باریکیوں تک—سب کچھ کھول کر رکھا گیا ہے۔
یہاں سوال اٹھتا ہے:
کیا دنیا میں کوئی ایسا رہنما ہے جس کی خانگی زندگی تک امت کے سامنے عیاں ہو؟ کوئی ایسا جس نے اپنی بیویوں کے ساتھ تعلقات، گھریلو عادات و اطوار، حتیٰ کہ نجی رویے تک امت کو بتانے کی اجازت دی ہو؟ کوئی ایسا جس کی دیانت کے قائل اس کے بدترین دشمن بھی ہوں اور جسے "الصادق” اور "الامین” کہنے پر وہ مجبور ہوں جنہوں نے کبھی اس کی دعوت قبول نہ کی ہو؟
جواب تاریخ دیتی ہے نہ: نہیں! ایسی مثال کہیں نہیں۔ یہ اعزاز صرف محمد مصطفیٰ ﷺ کو ہے۔
اگر کوئی انسان اپنے بچپن کی اخلاقی پاکیزگی چاہتا ہے تو اسے سیرتِ محمدی میں نمونہ ملے گا۔ اگر جوانی کی بے داغ عظمت درکار ہے تو وہاں بھی محمد مصطفیٰ ﷺ کا دامن موجود ہے۔ اگر کوئی تاجر ہے تو دیانت دار تجارت کا مکمل ماڈل انہیں میں ہے۔ اگر معیشت و معاشرت کی تنظیم مقصود ہے تو قانونِ محمدی اس کا ضابطہ ہے۔ اگر حکومت و سیاست کا نظام چاہیے تو "ریاستِ مدینہ” کی مثال ابدی مشعل ہے۔

الغرض، جس زاویے سے دیکھو—اخلاق، کردار، معاشرت، سیاست، تجارت، عبادت یا خانگی زندگی، ہر گوشے میں محمد ﷺ کا اسوہ ایک زندہ مینارۂ نور ہے۔ اور پھر سوال یہ ہے کہ اگر ایسی ہستی کی اتباع نہ کی جائے، تو پھر کس کی جائے؟ کیا ان شخصیات کی جن کے بارے میں ہمیں کچھ پتا ہی نہیں؟ یا ان فرضی کرداروں کی جو تاریخ کے تخیل نے تراشے اور قوموں نے اپنی محرومی کے علاج کے طور پر انہیں معبود یا رہنما بنا لیا؟
عقل کہتی ہے: اگر رہنمائی چاہیے تو اسی ہستی سے لی جائے جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ گواہوں کے جھرمٹ میں محفوظ ہے، جس کا کلام اور کردار تحریف کے کانٹوں سے بچا رہا، اور جس نے خود فرمایا: "لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة” (الاحزاب: 21)۔
پس محمد ﷺ وہ یکتائے روزگار ہستی ہیں جن کے بغیر انسانیت اندھیروں میں ہے۔ ان کی اتباع محض عقیدت نہیں، بلکہ عقل و منطق کا بھی تقاضا ہے، ایمان و فطرت کا بھی حکم ہے، اور حقیقتِ تاریخ کا بھی فیصلہ ہے۔

Vv good