ماہ ربیع الاول اور اسوۂ نبوی ﷺ کا تقاضا
از____ محمد توقیر رحمانی
ربیع الاول کا یہ مہینہ صرف وقت کا ایک ٹکڑا نہیں، یہ تاریخ کا وہ لمحہ ہے جس میں ایک ایسی ہستی دنیا میں تشریف لائی جنہیں آسمان نے رحمت للعالمین کہا۔ ایسی رحمت جو صرف انسانوں کے لئے نہیں بلکہ پرندوں کے پروں میں، جانوروں کی معصوم آنکھوں میں، اور فضا کے جھونکوں میں بھی اپنا فیض بانٹتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس مہینے کو کیسے گزاریں؟ کیا صرف رسمی خوشیاں مناکر یا پھر اس رحمت کو اپنی زندگیوں میں اتار کر؟
رسولِ اکرم ﷺ کی سیرت بتاتی ہے کہ بھوک برداشت کی جاسکتی ہے لیکن کسی ضرورت مند کو خالی ہاتھ لوٹانا ہرگز گوارا نہیں۔ پیٹ پر پتھر باندھنے کی مشقت قبول کی مگر کسی غریب کے دل پر بوجھ نہ ڈالا۔ آج اگر ہم ان کے پیروکار ہیں تو کیا ہماری ذمہ داری نہیں کہ اپنے اردگرد بھوک اور غربت سے لڑتے انسانوں کے لئے دسترخوان بچھائیں؟ کیا یہ انصاف ہے کہ ہمارے گھروں میں نعمتوں کے انبار ہوں اور پڑوس کے بچے بھوکے سوئیں؟
آپ ﷺ نے اعلان فرمایا کہ "اگر کوئی شخص قرض کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا قرض میں ادا کروں گا۔” یہ الفاظ محض تسلی نہیں بلکہ معاشرتی عدل کا وہ اعلان تھے جس نے غلاموں کو انسانیت کا مقام دیا اور محتاجوں کو عزت دی۔ سوچئے! اگر آج ہم اپنے بھائیوں کے قرض معاف کریں، ان کے بوجھ ہلکے کریں تو کتنی ہی زندگیاں سکون کا سانس لے سکیں گی۔
رحمت للعالمین ﷺ کی زندگی معافی اور درگزر کی ایسی روشن مثال ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ طائف کی گلیوں میں پتھروں سے لہولہان وجود نے بددعا نہیں کی، دعا کی۔ فتحِ مکہ پر دشمن سامنے کھڑے تھے، طاقت ہاتھ میں تھی، مگر زبان سے صرف یہ نکلا: "لا تثریب علیکم الیوم”—آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ کیا ہم اپنے معمولی اختلافات پر برسوں کی دشمنیاں پالنے کے بعد خود کو ان کے پیروکار کہہ سکتے ہیں؟ یہ مہینہ ہمیں پکار رہا ہے: دل کو وسیع کرو، کینہ چھوڑو، اور امن و محبت کو اپنا شعار بناؤ۔

پڑوسی کی بھوک، بچے کی مسکراہٹ، بوڑھے کی عزت—یہ سب وہ پیمانے ہیں جن پر ہماری نسبت نبوی پرکھی جائے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ نسبت کاغذی نہ رہے بلکہ حقیقت بنے تو لازم ہے کہ اس مہینے کو سیرت کی تعلیم کا مہینہ بنایا جائے۔ اپنے گھروں میں، محفلوں میں، کتابوں اور نصابوں میں، اسوۂ نبوی کو زندہ کیا جائے۔ گھروں میں بطورِ خاص سیرتِ نبوی کی تعلیم و مذاکرے کا اہتمام ہو جس میں تمام افراد خانہ کی شرکت لازم ہو۔ اور اس سے بڑھ کر خود اپنی ذات کو ایک عملی مثال بنایا جائے، کیونکہ تعلیم وہی اثر رکھتی ہے جس کے ساتھ کردار کی روشنی ہو۔
سچائی کو عام کرنا اور جھوٹ کو دفن کرنا، غیبت اور چغلی سے بچنا، وقت کو فضول باتوں میں ضائع کرنے کے بجائے تعمیرِ انسانیت میں لگانا—یہ سب وہ اعمال ہیں جو ہمیں نبی کریم ﷺ کے قریب کرتے ہیں۔ ذات پات کے امتیاز کو مٹا دینا، ہر ضرورت مند تک رسائی حاصل کرنا اور دکھوں سے کراہتی انسانیت کو سہارا دینا—یہی وہ مشن ہے جسے آگے بڑھانا ہمارا فرض ہے۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ اس مہینے میں کس صف میں کھڑا ہیں؟ خاموش تماشائیوں کی صف میں یا ان عاشقوں کی قطار میں جو اپنی زندگیوں کو سیرتِ محمدی کے آئینے میں ڈھالنے کی جستجو رکھتے ہیں؟ اگر ہمارے دل میں ذرا سا بھی دردِ انسانیت ہے، تو اٹھیں اور کچھ کر گزریں۔ اپنے عمل سے وہ پیغام عام کریں جو زبانی دعوؤں سے نہیں بلکہ کردار کی روشنی سے پھیلتا ہے۔
محبت صرف الفاظ کی حد تک نہیں ہوتی، عشق صرف نعرے لگانے کا نام نہیں۔ اگر کوئی حقیقی معنوں میں عاشقِ مصطفیٰ ﷺ ہے، اگر وہ دل سے کہتا ہے کہ وہ جانثارِ محمد ﷺ ہے، تو اس کا پہلا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کی سنتوں کو زندہ کرے۔ اس لیے کہ محبوب کبریا ﷺ نے خود اعلان فرمایا: "جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔”
سوچئے! کیا عشق کا تقاضا یہ ہے کہ زبان پر نعتوں کا ترانہ ہو مگر عمل میں غفلت اور زندگی میں خرافات ہوں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ عشق کا سچا رنگ یہ ہے کہ آدمی خرافات اور گناہوں سے توبہ کرے، اپنی زندگی کو اس اسوہ نبوی کے مطابق ڈھالے جو انسانیت کی معراج ہے۔ اگر دل میں واقعی محمد ﷺ کی محبت ہے تو اس کا عکس کردار میں نظر آنا چاہیے، زبان میں نرمی ہونی چاہیے، دل میں دردمندی ہونی چاہیے اور عمل میں صداقت ہونی چاہیے۔
اے امتِ محمدی! اس محسنِ انسانیت نے تجھ پر ایسے احسانات کیے ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ اس نے تجھے جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی دی۔ اس نے غلاموں کو آزادی کا احساس دیا، عورتوں کو عزت کا مقام دیا، یتیموں کو سہارا دیا، اور انسان کو انسانیت کا تاج پہنایا۔ کیا ان احسانات کا تقاضا یہ نہیں کہ ہم اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لیے اس کے پیغام پر عمل کریں؟

یہ صرف نعرے اور دعوے سے پورا نہیں ہوگا۔ اس کے لیے دعائیں کرنی ہوں گی، قرآن کی تلاوت کرنی ہوگی، ایصالِ ثواب کا اہتمام کرنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر اپنی زبان کو درود و سلام سے ہمیشہ تر رکھنا ہوگا۔ کیونکہ درود و سلام محض ذکر نہیں بلکہ قربِ مصطفیٰ ﷺ کا زینہ ہے۔ اور خود قرآن کہتا ہے:
"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا"
اے عشاقان نبی! ذرا سوچئے! کیا آپ کا دل یہ گوارا کرے گا کہ ساری دنیا رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے اور آپ غافل رہیں؟ کیا آپ کا دل یہ گوارا کرے گا کہ وہ ہستی جس پر فرشتے درود بھیجتے ہیں حتیٰ کہ خود خالقِ کائنات درود بھیجے، اور اس کی امت میں ہو کر بھی آپکی زبان خاموش رہے؟ نہیں! اگر آپکے دل میں عشق مصطفیٰ ﷺ کی آگ ہے تو ابھی، اسی لمحے، اپنی زبان کو درود و سلام کا چراغ بنائیں اور اپنی زندگی کو اس سیرت کی تصویر بنائیں۔
یاد رکھیں! یہی سچا عشق ہے، یہی حقیقی جانثاری ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو دنیا کو سکون، دل کو چین اور آخرت کو نجات دیتا ہے۔
