انصاف کا قتل: حوالات میں ضائع ہوتی زندگیاں
ازــــــ ڈاکٹر عادل عفان
ایک مفکر کا قول ہے کہ انصاف میں تاخیر، ناانصافی کے برابرہے۔ ہمارے ملک میں بہت سے ایسے مقدمات ہوتے ہیں جن میں انصاف ملتا ہے اور نہ ہی معاوضہ ۔دنیا کے بیشتر جمہوری آئین اور انسانی حقوق میں یہ بات درج ہے کہ کسی بھی شخص کو الزام ثابت ہونے تک بے گناہ تصور کیا جائے گا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں آج ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں لوگ پانچ پانچ برس تک جیلوں میں بے یارو مددگار رہتے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمے کا آغاز تک نہیں ہوتا۔ یہی حال عمر خالد اور شرجیل امام کا ہے۔ دونوں کو 2020 میں شہریت قانون کے تناظر میں حوالات کے حوالے کردیا گیا۔ الزام یہ ہے کہ وہ دہلی کے فسادات کے "کلیدی سازشی” ہیں، لیکن پانچ برس گزرنے کے باوجود عدالت میں ان کا ٹرائل تک شروع نہیں ہوا۔ ظاہر ہے انصافی نقطہ نظر سے یہ انتہائی بدنما داغ ہے. میران حیدر، خالد سیف اور گلفشاں وغیرہ کے ساتھ ہورہی ناانصافی پر بولنے والاکون ہے!
بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اصول یہ ہے کہ ہر ملزم کو بروقت مقدمہ چلانے اور اپنی صفائی پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ (1948) اور International Covenant on Civil and Political Rights (ICCPR) دونوں میں صاف لکھا ہے کہ ہر شخص کو منصفانہ اور تیز رفتار سماعت کا حق حاصل ہے۔ ہندوستان بھی ICCPR کا دستخط کنندہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ عمر خالد اور شرجیل امام جیسے افراد کو سالہا سال جیل میں ڈال کر رکھا گیا ہے. حالانکہ عدالتوں میں ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ ان پر یواے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت مقدمے قائم کیے گئے ہیں. یہی وجہ ہے کہ انھیں ضمانت نہیں مل پارہی ہے۔
عمر خالد، جو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (JNU) کے سابق اسکالر اور ایک معروف سماجی کارکن ہیں، کو ستمبر 2020 میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق، انہوں نے "انقلابی تقریریں” کیں، مگر کوئی براہِ راست ثبوت پیش نہ کیا جا سکا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں خالد کی ضمانت کی درخواستیں بار بار رد کی گئیں۔ سپریم کورٹ تک نے ان کی درخواست کو درجنوں مرتبہ مسترد کردیا۔ یہ رویہ صرف عدالتی تاخیر نہیں بلکہ انصاف کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔

اسی طرح شرجیل امام کو بھی 2020 میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ ان کی تقاریر اشتعال انگیز تھیں۔ لیکن پانچ برس گزرنے کے باوجود ان کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ بارہا ضمانت کی اپیلیں کی گئیں۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر مقدمہ واقعی مضبوط ہوتا تو عدالتیں کب کا فیصلہ سنادیتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مقدمہ محض تاخیری حربوں کا شکار ہے۔
یہ کوئی ایک یا دو مثالیں نہیں ہیں۔ ہندوستانی جیلوں میں ہزاروں قیدی ایسے ہیں جو سالہا سال ٹرائل کے بغیر قید ہیں۔ اکثر یہ قیدی بالآخر باعزت بری ہو جاتے ہیں، لیکن تب تک ان کی زندگی کے قیمتی سال برباد ہو چکے ہوتے ہیں۔ کئی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ ایسے قیدی 10، 12 اور 15 سال تک جیلوں میں رہنے کے بعد رہا ہوتے ہیں، اور ان پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کھوئے ہوئے برسوں کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا حکومت یا عدلیہ ان کو ان کے وقت اور زندگی کے ضائع ہونے کا کوئی معاوضہ دیتی ہے؟ جواب ہے: نہیں۔
جب کوئی شخص برسوں جیل میں گزارنے کے بعد بے گناہ ثابت ہو کر باہر آتا ہے تو اس کی برباد شدہ زندگی، بکھرا ہوا خاندان، کھویا ہوا کیریئر اور ذہنی اذیت کا کوئی مداوا نہیں کیا جاتا۔ حکومت یہ کہہ کر دامن جھاڑ لیتی ہے کہ "قانونی عمل” کے مطابق کارروائی ہوئی۔ لیکن دنیا کے کئی ممالک میں ایسے کیسوں میں متاثرہ کو معاوضہ دیا جاتا ہے، جبکہ ہندوستان میں اس طرح کی کوئی مضبوط پالیسی موجود نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عام لوگ ریاستی جبر اور عدالتی تاخیر کا شکار ہو کر اپنی پوری زندگی برباد کر بیٹھتے ہیں. واضح رہے کہ یواے پی اے کو دراصل دہشت گردی کے خلاف سخت قانون کے طور پر بنایا گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے اکثر سیاسی مخالفین، صحافیوں، طلبہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت ضمانت تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ اگر مقدمے کے "ابتدائی شواہد” موجود ہوں تو ضمانت نہیں دی جائے گی۔ اس شق کو بنیاد بنا کر سینکڑوں لوگ برسوں جیل میں قید رہتے ہیں، چاہے ان کے خلاف حتمی ثبوت موجود نہ ہوں۔ عمر خالد اور شرجیل امام اسی قانون کے شکار ہیں۔
یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ عمر خالد اور شرجیل امام جیسے طلبہ اور کارکنوں کو صرف اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کھڑے ہوئے۔ شہریت قانون کے خلاف ان کی تقاریر اور احتجاجات کو "ملک دشمنی” کا نام دے کر ان کے خلاف سخت دفعات لگا دی گئیں۔ یہ رویہ جمہوریت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ جمہوریت میں احتجاج اور اختلاف کو دشمنی نہیں بلکہ صحت مند بحث کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں اختلاف کرنے والوں کو برسوں تک جیلوں میں ڈال کر مثال قائم کی جا رہی ہے تاکہ کوئی اور حکومت کے خلاف بولنے کی ہمت نہ کرے۔
Amnesty International، Human Rights Watch اور دیگر عالمی ادارے بارہا یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ عمر خالد جیسے قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کا عدالتی نظام بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ یہ بات محض عالمی دباؤ کی نہیں ہے بلکہ خود ہندوستانی سماج میں بھی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ایسے مقدمات انصاف کا قتل ہیں۔اگر ہندوستان کو واقعی جمہوریت کا علمبردار بننا ہے تو سب سے پہلے عدالتی نظام کو درست کرنا ہوگا۔ ٹرائل میں تیزی، یواے پی اے کی نظرثانی، معاوضہ پالیسی اور عدالتی احتساب وہ اصلاحات ہیں جو فوری طور پر ضروری ہیں۔ بصورت دیگر، انصاف کا یہ المیہ اور گہرا ہوتا جائے گا۔

عمر خالد اور شرجیل امام کی قید کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ ایک بڑے المیے کی علامت ہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہندوستانی عدالتی نظام اور حکومت کس طرح انصاف کے بنیادی اصولوں کو پامال کر رہے ہیں۔ پانچ برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کے خلاف ٹرائل شروع نہ ہونا صرف ان کے ساتھ نہیں بلکہ پورے ملک کے انصاف کے نظام کے ساتھ ظلم ہے۔ اگر بروقت ٹرائل نہ ہو تو مقدمے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ یہ سوال آج ہر ہندوستانی کو خود سے پوچھنا ہوگا: کیا ہم واقعی ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں قانون سب کے لیے برابر ہے، یا پھر یہ اصول صرف کتابوں میں رہ گئے ہیں؟ راقم کا خیال ہے کہ اگر معاوضہ دینے کا قانون بن جائے تو بہت سے معاملات کو چٹکیوں میں حل کردیا جائے گا. بے گناہ سلاخوں کے پیچھے نہیں رہیں گے، اسی کسی کی زندگی کا اہم حصہ ضائع نہیں ہوگا، ساتھ ہی پولس، عدلیہ اور ادارے بھی پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے، تا کہ حکومت معاوضے سے بچی رہے۔
(مضمون نگار کے آراء سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں)
