اولڈ ایج ہوم کا بڑھتا رجحان اور معتدل موقف

Eastern
9 Min Read
14 Views
9 Min Read

اولڈ ایج ہوم کا بڑھتا رجحان اور معتدل موقف

ازـــــ ڈاکٹر مفتی عبید اللہ قاسمی
ذاکر حسین دہلی کالج

اولڈ ایج ہوم مشرقی ممالک اور بالخصوص برِ صغیر میں بہت معیوب اور مذموم گردانا جاتا ہے اور اس کا نام سنتے ہی بہتوں کی بھویں تن جاتی ہیں مگر اس کے باوجود مغربی ممالک کے اولڈ ایج ہوم کی روایت اور طریقہ اب مشرقی ممالک میں بھی رفتہ رفتہ داخل ہورہا ہے اور نتیجۃً مشرق کے متعدد بڑے شہروں میں اولڈ ایج ہوم یعنی بزرگ خانے وجود میں آچکے ہیں. میں نے امریکہ میں متعدد old age home کئی برس قبل دیکھے ہیں اور ان میں رہائش پذیر متعدد بوڑھوں سے ملاقات کی ہے. ایک ہی جگہ بڑی تعداد میں بوڑھوں کی وجہ سے ان میں آپس میں دوستی ہوجاتی ہے اور بات چیت قصے کہانیاں اور قہقہے چلتے رہتے ہیں اور خدام ہمہ وقت موجود رہتے ہیں. ہر چیز کا معیاری انتظام ہے۔

مغربی ممالک میں اولڈ ایج ہوم کی روایت ان کی معاشرتی ضرورت کے طور پر وجود میں آئی تھی اور اب مغرب کے طرزِ رہائش کو اختیار کرنے والے مشرقی باشندگان کے سامنے بھی وہ ضرورت ابھر کر آچکی ہے جس کی وجہ سے ان کے یہاں بھی ایسے "بزرگ خانے” تیار ہونے لگے ہیں۔

ہم اگر مشرقی ومغربی روایت سے ہٹ کر خالص اسلامی ہدایات اور نصوصِ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس موضوع پر غور کریں تو یہ بات بہت واضح نظر آتی ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور بڑھاپے میں حتی الوسع ان کی خدمت اولاد کے لئے باعثِ سعادت ہے، ان پر واجب اور ضروری ہے مگر اولاد (مذکر) کی بیوی پر یہ خدمت واجب نہیں ہے بلکہ اس سے اور آگے بڑھ کر یہ بات (میرے علم کے مطابق) کہی جاسکتی ہے کہ عہدِ صحابہ یا عہدِ تابعین میں کسی ایسے گھر کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے جس میں کسی کی بیوی اور اس کے والدین دونوں ایک گھر میں رہائش پذیر ہوں. واضح رہے کہ اولاد میں بیٹے کے ساتھ بیٹی بھی شامل ہوتی ہے لہذا بوڑھے والدین کی خدمت بیٹوں کی طرح بیٹیوں پر بھی ضروری ہوتی ہے. مگر برِ صغیر ہندوپاک کا معاشرہ جو ہندو معاشرے کے ساتھ صدیوں کی مصاحبت کی وجہ سے شدید متأثر رہا ہے اس میں بوڑھے والدین کی خدمت اولاد کی بجائے بیٹے کی بیوی یعنی بوڑھے والدین کی بہو پر عملا واجب کردی گئی ہے. بہو اگر خدمت کے لئے تیار نہ ہو تو بہت ساری جگہوں پر طلاق تک دے دی جاتی ہے. ظاہر ہے کہ یہ طریقہ اور روایت اسلام کی ہدایت کے سراسر خلاف ہے اور بیوی کو ساس سسر کی خدمت کے لئے مجبور کرنا ظلم وزیادتی کی بات ہے. کچھ زمانہ قبل تو بہو کے ذمے اس کے کنوارے دیوروں کی خدمت اور ان کے کپڑے لتے دھونا اور کھانا پکاکر ان کے سامنے پیش کرنا بھی شامل ہوتا تھا۔

اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ بہو اپنے ساس سسر کی خدمت اور کیئر کرے تو یہ اعلی درجے کی بات ہے اور اس کے لئے باعثِ اجر ہے مگر شرعاً یہ خدمت اس کے ذمے واجب نہیں ہے. اگر بیوی اس کے لئے دل سے تیار نہ ہو تو شوہر کے ذمے لازم ہے کہ وہ خود ضعیف وضرورت مند والدین کی خدمت کرے یا کسی خادم وخادمہ کو اجرت دیکر ان کی خدمت کروائے۔

Advertisement
Advertisement

موجودہ زمانے میں خاندانوں میں پہلے کے برعکس کئی تبدیلیاں رو نما ہوچکی اور ہورہی ہیں:

1. شوہر بہتر سے بہتر معاش کے لئے دور دراز شہروں بلکہ ملکوں میں جارہے ہیں جہاں وہ متعدد وجوہات سے اپنے والدین اور بیوی بچوں کو ساتھ لیکر نہیں جاسکتے ہیں.
2. بچوں کو پیدا ہونے کے چند سالوں کے بعد تعلیم کے لئے ہوسٹل میں داخل کرکے ان کو گھر سے باہر رکھا جارہا ہے.
3. بیویاں working بن رہی ہیں یعنی ملازمت کر رہی ہیں جس کی وجہ سے پورے دن انہیں گھر سے باہر اسکول وغیرہ میں رہنا ہوتا ہے.
4. تعلیم، مکان اور دیگر چیزیں مہنگی ہونے کی وجہ سے زیادہ پیسے کمانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

مذکورہ بالا چیزیں وہ ہیں جو اب معاشرے میں بڑھنے لگی ہیں اور طرزِ معاشرہ ورہائش تبدیل ہونے لگی ہے. ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بوڑھے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کیسے ہو؟ اس بارے میں تین آپشنز بنتے ہیں:

1. یا تو والدین کی خدمت کے پیشِ نظر اولاد دور دراز جاکر اس کسبِ معاش سے محروم رہے اور ظاہر ہے کہ یہ معاشرے میں قابلِ عمل نہیں اور ممکن نہیں ہے. تنگیِ معاش سے پریشان ہوکر اسے خود والدین بھی پسند نہیں کرینگے اور یہی وجہ ہے کہ بہتیرے بوڑھے والدین اپنی اولاد کو بیرون ملک معاش کے لئے بھیجتے رہتے ہیں. سخت مہنگائی کی دنیا میں ذریعہِ معاش کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے. اسی سے بوڑھے والدین اور بیوی بچوں کی زندگی مربوط ہے۔
2. اولاد اپنے والدین اور بیوی بچوں کو اپنے وطن کے گھر میں رکھ کر باہر کسبِ معاش کے لئے جائے اور اس کی بیوی خوشی خوشی ساس سسر کی خدمت کے لئے تیار ہوجائے اور اس طرح یہ مسئلہ حل ہوجائے. ظاہر ہے کہ یہ سب سے بہتر حل ہے کیونکہ خدمت اپنی بہو خوشی خوشی کر رہی ہے اور والدین کو کہیں اور جانے کی ضرورت باقی نہیں رہی.
3. خدمت کے لئے بیوی راضی نہیں ہے خواہ وجہ کچھ بھی ہو اور ساس بہو میں 36 کا آنکڑا ہے، بہو چڑیل اور ساس ڈائن نظر آتی ہے لہذا اولاد اپنے والدین کو ان کی رضامندی سے عمدہ اولڈ ایج ہوم میں داخل کردے جہاں اجرت پر خادم خادمائیں ہوں اور والدین اپنی چڑیل اور ظالم بہو سے نجات یافتہ ہوکر راحت اور آرام محسوس کریں اور اولاد اخراجات برداشت کرے۔

ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں بلاشبہ یہ بھی حسنِ سلوک میں داخل ہے. اِس تیسری شکل میں کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جو غیر اسلامی ہو کیونکہ اولڈ ایج ہوم اجرت پر ایک خدمت خانہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

Advertisement
Advertisement

لہذا اس بارے میں معتدل موقف یہی ہوسکتا ہے کہ اولاد حتی الامکان والدین کو اپنے وطنی گھر میں رکھنے کی کوشش کرے، خود دور رہنے کی صورت میں بیوی کو اپنے والدین کی خدمت کے لئے راضی کرے اور اس کے عوض میں اسے کچھ ہدیہ دیتا رہے اور اگر بیوی بطیبِ خاطر آمادہ نہ ہو یا کسی مجبوری کی وجہ سے خدمت پر قادر نہ ہو اور عمدہ اولڈ ایج ہوم موجود ہو تو ان کی مرضی سے انہیں وہاں شِفٹ کردے اور دور رہ کر بھی ان کی خدمت کی نگرانی سے غافل نہ رہے. اولڈ ایج ہوم میں داخلے کی یہ صورت اُس صورت سے یقیناً بدرجہا بہتر ہے جہاں بوڑھے والدین زبردستی بہو کے حوالے کردیئے جاتے ہیں اور والدین کی زندگی عذاب بن جاتی ہے اور گھر جہنم کا ٹکڑا نظر آنے لگتا ہے. آج ہر شخص اپنے گاؤں محلے پر نظر ڈال کر انتہائی اذیت میں مبتلا بہتیرے ایسے بوڑھے والدین کا استحضار کرکے بخوبی اندازہ کرسکتا ہے. ظاہر ہے کہ یہ رویہ اسلامی تعلیم کے سخت خلاف، اذیت ناک، والدین کے ساتھ بہت بڑی بدسلوکی اور ان پر ظلمِ عظیم ہے۔

جو لوگ ہر حال میں اولڈ ایج ہوم کی مخالفت کی طرف مائل ہیں اور جو بلا سخت ضرورت اولڈ ایج ہوم کے قائل ہیں یہ دونوں دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم از____ محمد توقیر رحمانی…

Eastern

ماہ ربیع الاول اور اسوۂ نبوی ﷺ کا تقاضا

ماہ ربیع الاول اور اسوۂ نبوی ﷺ کا تقاضا از____ محمد توقیر…

Eastern

انسان کی تخلیق محض وجود کیلئےنہیں ، خلافتِ ارضی کی عظیم ذمہ داری کیلئے ہے

انسان کی تخلیق محض وجود کیلئےنہیں ، خلافتِ ارضی کی عظیم ذمہ…

Eastern

نئے زمانے کے نئے بت

نئے زمانے کے نئے بت ازــــــ محمد توقیر رحمانی زمانے کی گردِش…

Eastern

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور کا کڑا امتحان ہے

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور…

Eastern

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی…

Eastern

Quick LInks

کم ووٹ شیئر کے باوجود بی جے پی نے بہار میں 93٪ جیت درج کی ہے

کم ووٹ شیئر کے باوجود بی جے پی نے بہار میں 93٪…

Eastern

قرآنِ مجید بغیرِ اصل عربی متن کے، قرآن ہی نہیں

قرآنِ مجید بغیرِ اصل عربی متن کے، قرآن ہی نہیں از:  محمد…

Eastern

اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔۔۔۔۔بہار کے مسلمانوں کے لیے ایک فکری پیغام

اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔۔۔۔۔بہار کے مسلمانوں کے لیے ایک فکری…

Eastern