خورشید عالم داؤد قاسمی
مضمون نگار مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں
برطانیہ اور امریکہ جیسی وقت کی کچھ بڑی طاقتوں نے مشرق وسطی میں، فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے، زبردستی ایک صہیونی ریاست بنام اسرائیل قائم کروائی۔ مگر اسی موقع پر، فلسطین نام کی کوئی ریاست قائم نہیں کی گئی۔ دو ریاستی حل اب تک صرف ایک جملہ رہا جس کا زمین پر کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر دو ریاستی حل کوئی حقیقی منصوبہ تھا؛ تو اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی، فلسطین نام کی ریاست، اسی وقت قائم کی جانی چاہیے تھی۔مگر ایسا نہیں ہوا۔ در اصل کچھ طاقتوں نے عرب کے قلب میں، ایک صہیونی ریاست اپنے مفاد کے لیے قائم کیا۔ وہ طاقتیں آج تک مشرق وسطی میں امن قائم نہیں کرواسکی۔ فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق نہیں ملے۔ فلسطینی عوام کے بنیادی مفادات کا آج تک کوئی خیال نہیں رکھا۔ امریکہ نے اس اہم تنازع کو حل کرنے کے بجائے، اس خطے کا ہیرو بن کر، پورے خطے پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ وہ آج تک کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں کراسکا، جو فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ فلسطین کے حوالے سےامریکہ اور عالمی برادری کی یہ ایک بڑی ناکامی ہے۔
اس حالیہ جنگ میں ہی غور کیا جائے، جو سات اکتوبر کو شروع ہوئی؛ تو یہ سمجھ میں آجائے گا کہ امریکہ مشرق وسطی میں، صرف اپنے مفاد کے لیے اسرائیل کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ وہ آنکھ بند کرکے، صہیونی ریاست کی حمایت کررہا ہے۔ یہ جنگ ایک ہفتے سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، اس مدت میں،اسرائیلی بمباری میں، 1300سے زیادہ عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔ مزید 7503 مکانات کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ وہ قابل رہائش نہیں رہے۔ تقریبا 89 اسکولوں پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔ یہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ اب تک امریکہ اور عالمی برادری نے واضح لفظوں میں اسرائیل سے یہ نہیں پوچھا یہ سب اسرائیل کیوں کررہا ہے؟ جب کہ قابض ریاست کا ان رہائشی عمارتوں اور اسکولوں پر حملہ کرنا، عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
غاصب ریاست نے ایسے بھیانک حملے کرکے، ہزاروں مکینوں کو بے گھر کرنے کے بعد، اب شمالی غزہ پٹی کے شہریوں کو باضابطہ نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو خالی کرکے، جنوبی غزہ ہجرت کرجائیں۔ اسرائیل کی ڈیفینس فورس نے بروز: جمعہ، 13/ اکتوبر 2023 کو ایک بیان جاری کیا۔ اس میں غزہ کے باشندوں کو مخاطب کرکے وارننگ دی گئی ہے کہ "لوگ اپنی اور اپنے کنبہ کی حفاظت کے لیے غزہ شہر کے جنوبی حصے میں منتقل ہوجائیں اور اپنے کنبوں کو حماس کے دہشت گردوں سے دور رکھیں، جو آپ کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ آپ شہر میں تب ہی واپس آئیں گے، جب اگلا بیان جاری کرکے، آپ کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔” جن اہالیان غزہ کو اپنے علاقے سے منتقل ہونے کا حکم صادر کیا گیا ہے، ان کی تعداد گیارہ لاکھ کے قریب ہے۔ انھیں چوبیس گھنٹے میں اپنے گھروں کو چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔ یہ بیان صرف قابض فوجی کی ہی طرف سے نہیں آیا ہے؛ بلکہ اسرائیلی وزیراعظم نے بھی غزہ پر حملے کی دھمکی دیتے ہوئے وارننگ دی تھی کہ فلسطینی غزہ کو خالی کردیں۔ قابض ریاست کی اس حرکت پر بڑی طاقتوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ غزہ کے شہریوں کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر، دوسری جگہ جانے کا حکم صادر کرنے والی غاصب اسرائیلی ریاست کے باشندے خود اپنے اس وطن اصلی کی طرف کیوں نہیں واپس چلے جاتے ہیں، جہاں سے وہ آکر، زبردستی فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے بسے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اپنے ملکوں کو واپس چلے جاتے ہیں؛ تو جس مسئلے سے مشرق وسطی کا پورا خطہ دوچار ہے، وہ ختم ہوجائے گا اور مشرق وسطی مامون ہوجائے گا۔
اقوام متحدہ نے قابض اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ سے شہریوں کے انخلا کا الٹی میٹم واپس لے؛ کیوں کہ اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ خبر رساں ادارے "العربیہ” کے مطابق، سعودی دفتر خارجہ نے بروز: جمعہ، 13/ اکتوبر کو بیان میں کہا ہے کہ”غزہ کے باشندوں کو پر وقار زندگی کے بنیادی تقاضوں سے محروم کرنا، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے غزہ کو درپیش المیہ اور بحران زیادہ گہرا اور دھماکہ خیز ہوجائے گا۔” بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ "سعودی عرب کا مطالبہ ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کی جائے، زخمی شہریوں کو وہاں سے نکالا جائے۔ بین الاقوامی انسانی قانون، عالمی روایات اور ضوابط کی پابندی کی جائے۔” اردن کے شاہ عبداللہ نے بروز: بدھ، 12/ اکتوبرکو اپنی نئی پارلیمان کے افتتاحی اجلاس میں کہا: ” اس خطے میں استحکام، سلامتی اور امن صرف اس صورت میں ممکن ہوگا، اگر اس سر زمین پر ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے، جہاں 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے کنٹرول سنبھال لیا تھا۔” قابض ریاست کی اس غیر قانونی وارننگ پر، روسی صدر مسٹر ولادیمیر پوتین نے اپنے سخت ردّ عمل کا اظہار کیا ہے۔ پوتین نے کہا ہے: "یہ فلسطینیوں کی زمین ہے جہاں انھیں رہنا ہے۔ غزہ فلسطین کی تاریخی سرزمین کا حصہ ہے۔ غزہ سمیت آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنی ہوگی۔ فلسطینیوں کوغزہ پٹی سے نکل کر مصر کے علاقہ سنیائی جانے کا کہنے سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔”
جس طرح اسرائیلی فوج وارننگ دے کر، غزہ کے شہریوں کو جنوبی غزہ میں پناہ لینے کو کہہ رہی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل چاہ رہا ہے کہ وہ کسی طرح غزہ کو خالی کروالے اور وہ شہری مجبور ہوکر، کسی طرح مصر میں پناہ لینے پر مجبور ہوں۔ پھر 1948 کی ہجرت والی صورت حال پیش آئے اور غزہ، اسرائیل کے لیے خالی میدان بن جائے۔ پھر طاقت کے زور پر، وہ اپنے آبادکاروں کو وہاں بسانا شروع کردے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شمالی غزہ میں تقریبا گيارہ لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد، کہاں جاسکتی ہے؟وہاں کے اسپتال زخمی مریضوں سے بھرے ہیں۔ ان مریضوں کا کیا ہوگا؟ اسرائیلی ریاست کی اس وارننگ کے بعد، بہت سےبہادر لوگوں نے اپنی رہائش گاہوں کو چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔ انھوں نے ہر صورت میں شمالی غزہ میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔ شمالی غزہ کے کچھ شہری اسرائیلی فوج کی اس وارننگ اور دہشت گردی سے عاجز آکر، با دل ناخواستہ اپنی جان بچانے کے لیے جنوبی غزہ کے لیے نقل مکانی کر رہے تھے۔ ان کے تین قافلوں پر اسرائیلی لڑاکا طیارے نے بمباری شروع کردی۔ اس بمباری کے نتیجے میں، ستّر شہریوں کے شہید ہونے اور تقریبا دوسو لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ جب انھوں نے نقل مکانی شروع کی ہوگی، اس وقت ان کو یہ کہاں معلوم رہا ہوگا کہ اپنے گھر کو چھوڑ کر، امن کے متلاشی مسافر کو، کسی مامون جگہ پر پہنچنے سے پہلے ہی، اسرائیل اپنی بمباری میں ختم کردے گا۔
ابھی صورت حال یہ ہے کہ غزہ کی پٹی ، فلسطینیوں کے خون سے سیراب ہوچکی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔ بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ اس کا ذمہ دار، قابض ریاست اسرائیل، اس کا بے لگام حکمراں اور ظلم وتعدی ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کچھ بڑی بڑی تنظیمیں اور بہت سے ممالک "انسانی حقوق”، "بچوں کے حقوق” جیسے لفظوں کا استعمال کرکے، عام لوگوں کو حقوق کا درس دیتے ہیں۔ مگر آج ان میں یہ ہمت نہیں ہے کہ اسرائیل کو بتائے کہ وہ حقوق انسانی کی پامالی کررہا ہے۔ وہ معصوم لوگوں کا خون بہا رہا ہے۔ وہ جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ اس کے برخلاف یہ مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ لوگ اسرائیل پہنچ کر، اس کی حوصلہ افزائی کرکے، انسانیت کے قتل میں برابر کے شریک ہو رہے ہیں۔ برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی اسرائیل سے اظہار ہمدردی کے لیے بروز: جمعرات، 12/ اکتوبر 2023 اسرائیل پہنچ کر، اپنے ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اظہار یک جہتی کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ وہ 12/ اکتوبر 2023 کو اسرائیل پہنچا۔ وزیر خارجہ نے کہا: "میں اپنے ساتھ جو پیغام لایا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ خود اپنے دفاع کے لیے کافی مضبوط ہوسکتے ہیں؛ لیکن جب تک امریکہ موجود ہے، آپ کو کبھی اپنا دفاع نہیں کرنا پڑے گا۔ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے شانہ بشانہ رہے گا اور سکیورٹی مدد فراہم کرے گا۔” اس دورے میں امریکی وزیر خارجہ نے فخریہ طور پر یہ بھی کہا: "میں یہاں بطور امریکی اسٹیٹ سکریٹری ہی نہیں؛ ایک یہودی کے طور پر بھی آیا ہوں۔” اگر کسی مسلم ملک کے لیڈر کی طرف سے اس طرح کا بیان دیا جاتا؛ تو پوری دنیا میں طوفان مچا ہوتا، مگر اس صہیونیت زدہ وزیر کے اس جملے پر کسی نے گرفت نہیں کی۔ جرمن چانسلر اولاف شولس نے بروز: جمعرات، 12/ اکتوبر کو ایک بیان میں کہا: "جرمنی کے لیے اب واحد جگہ یہی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔ اس وقت جرمنی کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ وہ اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہو۔”
اس وحشیانہ بمباری میں، بہت سے نہتے بچے بھی شہید ہو رہے ہیں۔ سیکڑوں فلسطینی مغربی غزہ میں، تباہ شدہ رہائشی عمارتوں کے ملبے میں، اپنے رشتے داروں کی باقیات اور لاشیں تلاش رہے ہیں۔ غزہ شہر لاشوں سے پٹ گیا ہے۔ غزہ پٹی کے "الشفاء” اسپتال کے مردہ خانے میں، شہید ہونے والے فلسطینیوں کی لاشیں رکھنے کی اب گنجائش نہیں ہے۔ اسپتال کے باہر لاشوں کا ڈھیر ہے۔ اب تک تقریبا 724 بچے شہید ہوچکے ہیں۔ قابض اسرائیلی فوج فلسطینیوں کی نسل کشی پر اتر آئی ہے؛ مگر کسی کی زبان نہیں کھل رہی ہے۔ مگر مشرق وسطی میں اپنے ناجائز مفاد کی حفاظت اور قابض اسرائیل کے دفاع کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن بھی جھوٹی خبر کا سہارا لیتے ہیں۔ بائیڈن نے حماس کی جانب سے 40 کے قریب بچوں کو قتل کرنے کی غلط خبر کو دہراتے ہوئے کہا کہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ دہشت گردوں کی جانب سے بچوں کے سر قلم کرنے کی تصاویر دیکھنے اور ان کی تصدیق کرنا پڑے گی۔ جب کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔ چناں چہ وائٹ ہاؤس نے امریکی صدر کے بیان کی تردید کی۔ مگر بائیڈن کے اس بیان سے حماس اور فلسطین کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔ یہ جھوٹی خبر، "سی این این” کی نمائندہ، سارہ سدنیر نے 11/ اکتوبر کو، اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کے حوالے پھیلائی تھی۔پھر 13/ اکتوبر کو اس حوالے سے وہ معافی مانگ چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس والے نے جن کو یرغمال بنایا ہے، ان کو اب تک کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچایا ہے۔مگر غزہ میں جن معصوم بچوں کا اسرائیل قتل کر رہا ہے، اس پر بائیڈن کی زبان پر تالا لگا ہوا ہے۔
فلسطین وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق، اس اسرائیلی وحشیانہ بمباری میں، 14/ اکتوبر تک، 2215 معصوم شہری،قتل کیے جاچکے ہیں جن میں 724 بچے بھی شامل ہیں؛ جب کہ زخمیوں کی تعداد 8714 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ تیرہ سو اسرائیلی شہریوں کی بھی جانیں گئی ہیں۔اسرائیلی حملے میں، اب تک نو صحافی کی جانیں بھی جاچکی ہیں۔ ان حالات کے باوجود، مسئلہ فلسطین کا حل نکالنے کے بجائے، کچھ عالمی طاقتیں کھلے طور پر، دفاع کے خوبصورت لفظ میں چھپ کر، قابض اسرائیل کی حمایت اور "حماس” کی مذمت کر رہی ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بار بار”حماس” کو ختم کرنے کی بات کر رہا ہے۔ مگر راقم الحروف کا خیال ہے کہ اس طرح سے مسئلہ فلسطین حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، نہ مشرق وسطی میں امن ہوسکتا ہے اور نہیں”حماس” کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ ظلم و ناانصافی کے ساتھ امن وسلامتی ایک خواب ہے۔ جب ظلم وناانصافی ہوگا؛ تو حماس جیسی مزاحمت پسند جماعتیں وجود میں آتی رہیں گی اور ہر کسی کو جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالی فلسطینیوں کا حامی و ناصر ہو!