تبلیغی جماعت کے نادان دوست
ازـــــ مدثر احمد قاسمی
تبلیغی جماعت ایک ایسی دینی تحریک ہے جس کی بنیاد اخلاص اور للہیت پر رکھی گئی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ دین کی بنیادی تعلیمات کو عام مسلمانوں تک پہنچایا جائے، انہیں نماز، اخلاق اور دینی مزاج سے قریب کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا میں لاکھوں لوگ اس جماعت کے ذریعے دین سے جڑے اور اپنی زندگیوں کو سنوارا۔
لیکن افسوس! کچھ برسوں سے یہ جماعت اختلافات کا شکار ہو کر دو گروپوں میں بٹ گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً ایسے تکلیف دہ واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جنہیں سن کر دل دکھتا ہے۔ اختلافات تو کسی بھی جماعت یا ادارے میں ہو سکتے ہیں، لیکن اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو دشمن بنا لینا عقل و دین دونوں کے خلاف ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ چاہے کوئی "شوری گروپ” سے تعلق رکھتا ہو یا "سعدی گروپ” سے، دونوں کا مقصد اصلاحی اور دینی ہونا چاہیے، نہ کہ اپنی جماعت کو بڑھانا اور دوسرے گروپ کو برا بھلا کہنا۔ لیکن افسوس کہ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جو نہ صرف شرمناک ہیں بلکہ دین کے کام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ حال ہی میں ارریہ کے فاربس گنج میں شوری جماعت کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اسی کی ایک مثال ہے۔
انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دین کے نام پر باہمی رشتوں میں بھی دراڑ ڈالی جارہی ہے۔ ایک جگہ ایسا واقعہ پیش آیا کہ ایک امیر صاحب سعدی جماعت میں ہیں جبکہ ان کے داماد شوری جماعت سے وابستہ ہیں۔ محض اس اختلاف کی وجہ سے لین دین اور برتاؤ میں سختی اور بے رخی اختیار کی جارہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے؟
یاد رکھیں! دین کا کوئی بھی شخص ٹھیکے دار نہیں ہے۔ دین نفرت، جھگڑے اور تشدد سے نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محبت اور حکمت کے ساتھ پھیلایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تشدد پر اترنے والے اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا دین سے تعلق سطحی ہوتا ہے اور جنہیں شریعت کی وسعت اور گہرائی کا علم نہیں ہوتا۔
یہ بڑا تعجب خیز ہے کہ ایک ایسی جماعت جس نے رواداری، نرمی اور دعوت کی تعلیم دی، اسی کے کچھ وابستگان سختی، تنگ نظری اور تشدد کا راستہ اختیار کر لیں۔ یہ رویہ جماعت کے مقصد اور اس کی تاریخ دونوں کے خلاف ہے۔
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہاں بحث یہ نہیں ہے کہ کون سا گروپ صحیح ہے اور کون سا غلط۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم دین کے اصل مقصد کے لیے کوشاں ہیں یا پھر صرف اپنے گروپ کی برتری ثابت کرنے میں لگے ہیں؟ اگر ہم نے تبلیغ کے بجائے صرف گروہی دعوؤں پر وقت ضائع کیا تو نہ دنیا ہاتھ آئے گی نہ آخرت۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سب لوگ اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر اخلاص اور للہیت کے ساتھ اصل مقصد یعنی دین کی دعوت اور اصلاحِ امت کی طرف متوجہ ہوں۔ یہی قرآن و سنت کا پیغام ہے اور یہی تبلیغی جماعت کی اصل روح ہے۔👆