مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence): رحمت ہے یا زحمت؟
تحریر: محمد برہان الدین قاسمی
مدیر: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی
ہمیں معلوم ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) کے تمام خالق (انجینئرز) انسان ہیں اور انسان کے ذہن کا خالق اللہ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى ہے — وہی اللہ جو اس پوری کائنات کا خالق ہے، اس کے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام پیچیدہ پہلوؤں کے ساتھ۔
آج AI انسانی اذہان میں ایک گہرا تضاد پیدا کرتا ہے — ایک طرف اس کی صلاحیتوں پر حیرت، اور دوسری طرف اس کے ممکنہ نتائج پر تشویش۔ یہ لمحوں میں ترجمہ کرنے، بایومیڈیکل تحقیق میں مدد دینے اور خلائی مشن چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ پرائیویسی، اختیار اور کنٹرول جیسے بنیادی سوالات کھڑا کرتا ہے۔ یہ پیش رفت اور خطرات کے درمیان کشمکش ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم AI کو حکمت الٰہی کی روشنی میں دیکھیں کہ انسان کی اصل حیثیت بطور اشرف المخلوقات اور رب کائنات کا بندہ ہونے کے طور پر کیا ہے؟ اور ہم کیسے یقینی بنائیں کہ ہمارے پیدا کردہ آلات مفید، انصاف اور سچائی جیسی الٰہی اقدار کی عکاسی کریں؟
قرآن کریم میں ارشاد ہے: "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ…” (بنی اسرائیل: 70) — "یقیناً ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی”، یہ یاد دلاتا ہے کہ انسانی عقل ایک مقدس امانت ہے۔ اللہ نے فرمایا: "وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا…” (البقرہ: 31) — "اور اللہ نے آدم علیہ السلام کو سب کے سب نام سکھا دیے” — علما کے نزدیک یہ علم، چیزوں کے نام دینے اور مختلف اشیاء کو پہچاننے کا پہلا مرحلہ تھا۔ آج الگوردمز اور مصنوعی نیورل نیٹ ورکس تخلیق کرنے کی صلاحیت بھی اسی اللہ کے عطا کا مظہر ہے، اس کے خلاف کوئی بغاوت نہیں۔ اور جب ہم AI کی تیز رفتاری پر حیران ہوتے ہیں تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے: "وَاللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ” (النحل: 78) — "وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے نکالا اور تم کچھ نہ جانتے تھے، اس نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل دیے تاکہ تم شکر کرو”۔

آخری نبی ہمارے آقا ﷺ نے بھی فنی مہارت کو اہمیت دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "أَنتُمْ أَعْلَمُ بِأُمُورِ دُنْيَاكُمْ” (مسلم) — "تم اپنے دنیوی معاملات کو بہتر جانتے ہو”. البتہ آپ ﷺ نے تَوَكُّل کو سست روی کے بجائے فعال ذمہ داری کے طور پر ترجیح فرمایا: "اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ” (ترمذی) — "اونٹنی کو باندھ دو، پھر اللہ پر بھروسہ کرو”۔ یعنی کام پوری محنت سے کرو، دیانت سے پرکھو، اور پھر نتیجہ اللہ کے سپرد کرو۔ آج AI کی ترقی بھی اسی اصول پر کامیاب ہو سکتی ہے: اصل کامیابی صرف صلاحیت میں نہیں، بلکہ خدمت خلق، دور اندیشی اور اخلاقی اقدار میں ہے۔
دنیا میں AI کی حیثیت کو سمجھنے کے لیے حالیہ چند اعداد و شمار پر نظر ڈالیں: اوپن AI کا چیٹ جی پی ٹی اگست 2025 تک ہفتہ وار 800 ملین سے زائد اور روزانہ 180 ملین صارفین رکھتا ہے۔ گوگل کا جیمِنی 400 ملین ماہانہ فعال صارفین کے ساتھ کئی سروسز میں ضم ہے۔ مائیکروسافٹ کا کوپائلٹ، جو ونڈوز اور آفس ایپس میں شامل ہے، 33 ملین صارفین کو سروس دیتا ہے۔ میٹا AI، جو واٹس ایپ، انسٹاگرام اور فیس بک میں ضم ہے، تقریباً 1 ارب ماہانہ صارفین تک پہنچ چکا ہے۔ اینتھروپک کا کلاؤڈ 30 ملین سے زائد صارفین کو سنبھالتا ہے، جب کہ پرپلیکسیٹی — ایک AI پر مبنی سرچ انجن — کے ماہانہ صارفین کی تعداد تقریباً 22 ملین ہے۔ مِڈجرنی، ڈالی اور اسٹیبل ڈیفیوشن تصویری تخلیق میں سب سے آگے ہیں، ہر ایک کے صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اسی طرح کریکٹر AI اور ریپلیکا جیسے پلیٹ فارم ماہانہ 20 ملین سے زائد صارفین سے بات چیت کرتے ہیں۔ چین کا "ڈیپ سیِک” اور دیگر کئی پلیٹ فارمز بھی اپنے میدان میں شاندار کارکردگی دکھا رہے ہیں، اگرچہ ان کے صارفین کے درست اعداد دستیاب نہیں۔
یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ AI کوئی محدود دائرے کی چیز نہیں — یہ ہماری ای میلز، تعلیمی کام، تخلیقی منصوبے، اور یہاں تک کہ دینی سوالات میں بھی داخل ہو چکا ہے۔ لیکن جیسا کہ قرآن میں ہے: "الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا” (الملک: 2) — "(اللہ) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے”۔ AI تعلیم، صحت اور ماحولیاتی پیش گوئی میں حیرت انگیز ترقی لا سکتا ہے، لیکن اگر اس پر کوئی ضابطہ نہ ہو تو یہ پوری انسانیت کے لئے ناانصافی، بےجا مداخلت اور دھوکے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
اسلامی اخلاقیات واضح معیار فراہم کرتی ہیں: "لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ” (ابن ماجہ) — "نہ نقصان پہنچاؤ، نہ نقصان کا بدلہ دو”۔ یہ حدیث AI کے صحیح استعمال، غلط استعمال سے بچاؤ اور خودکار نظام کی اخلاقیات پر روشنی ڈالتی ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: "مَن غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا” (مسلم) — "جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں”۔ قرآن میں حکم ہے: "وَلَا تَجَسَّسُوا” (الحجرات: 12) — "ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو”، اور "كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ” (النساء: 135) — "عدل پر مضبوطی سے قائم رہو، اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوئے، چاہے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو”۔
ان دونوں پہلوؤں سے دیکھا جائے تو AI نہ خالص رحمت ہے، نہ لازمی زحمت۔ یہ انسان ہی کا بنایا ہواایک طاقتور آلہ ہے جیسے آگ، بجلی یا ایٹم بم وغیرہ۔ اس کی اصل نوعیت نیت، ضابطے اور بنانے اور استعمال کرنے والوں کے اخلاق پر منحصر ہے۔ جب اسے احسان، امانت اور عدل کے ساتھ بنایا اور چلایا جائے تو یہ رحمت بن جائے گا جو علم اور مخلوق کے لئے بھلائی میں اضافہ کرنے والا ہوگا۔ لیکن جب اسے لالچ، غرور اور طاقت کے اظہار کے طور پر بغیر اخلاقی ضابطہ کے بنایا اور استعمال کیا جائے گو تو یہ محض دولت کمانے اور انسانیت کے استحصال کا ذریعہ بن کر رہ جائے گا جو آگے چل کر بہت خطرناک اور بالآخر تباہ کن ہوسکتا ہے۔

پھر بھی خوف کو ایمان اور اللہ کے نظام پر غالب نہیں آنا چاہیے۔ قرآن ہمیں گہرے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے: "إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ… لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ” (آل عمران: 190) — "یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں… عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں”۔ خلا کی تحقیق، معلوماتی نظام اور مشین لرننگ بغاوت کی نشانیاں نہیں، بلکہ تدبر کی دعوت ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "مَن سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ” (مسلم) — "جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے کوئی راستہ اختیار کرتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے”۔ اسی جذبے سے ہمیں سیکھنا، زمانے کے ساتھ ڈھلنا اور تیاری کرنا ہوگی۔
مجھے لگتا ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں، جیسے جیسے حفاظتی اقدامات پختہ ہوں گے اور اصول مستحکم ہوں گے، AI کا یہ انتشار پیدا کرنے والا مرحلہ ایک تعمیری توازن کی طرف جا سکتا ہے۔ یہ کوئی ضمانت نہیں بلکہ انسانیت کے لئے ایک ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور انسانی اخلاص کے ساتھ ہم AI کو اپنے اوپر حاوی کرنے کے بجائے، اللہ کی تمام مخلوقات کی خدمت و تکریم کا ذریعہ بنا سکتے ہیں – ان شاءاللہ!