نئے سال کا آغاز محاسبہ نفس اور منشور حیات کیساتھ کریں

Eastern
9 Min Read
55 Views
9 Min Read

نئے سال کا آغاز محاسبہ نفس اور منشور حیات کیساتھ کریں

محمد توقیر رحمانی

وقت محض گزرنے کا نام نہیں، یہ ایک مسلسل پکار ہے ضمیر کی، بصیرت کی، اور تعمیرِ ذات کی۔ اسلامی کیلنڈر کے آخری مہینے، ذوالحجہ کی رخصتی اور محرم الحرام کی آمد صرف ایک تقویمی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک معنوی لمحۂ مکاشفہ ہے جہاں ماضی کا احتساب اور مستقبل کی تعمیر، دونوں ہمارے ضمیر کے در پر دستک دیتے ہیں۔ یہ وقت، جو نہ تھمتا ہے، نہ رکتا ہے، ہمارے لیے ہر نئے لمحے کے ساتھ ایک سوال لے کر آتا ہے: "تو نے خود کو کتنا جانا؟”

یہ سالِ نو فقط کیلنڈر کی ورق گردانی نہیں، بلکہ روح کی بیداری کا لمحہ ہے، ایک فکری انقلاب کی تمہید ہے۔ وقت اپنی خاموشی میں بڑی شدت سے سوال کرتا ہے: تم نے پچھلے سال کیا سیکھا؟ کیا کھویا، کیا پایا؟ کس خواب کو حقیقت میں ڈھالا اور کون سا خواب مٹی میں دفن ہو گیا؟

ہم ایک ایسے سیّال وقت کے مسافر ہیں جو کسی پڑاؤ پر نہیں رکتا، نہ کسی کو پیچھے مڑ کر دیکھنے دیتا ہے۔ مگر ان لمحوں میں، جب نیا سال ہماری روح کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، ہمیں لازم ہے کہ ہم رکیں، جھکیں، اور جھانکیں اپنے باطن میں، اپنی ترجیحات میں، اپنے تعلقات میں، اپنے خوابوں اور اپنے گناہوں میں۔ وقت نہ بولتا ہے، نہ ٹھہرتا ہے؛ لیکن یہ سب سے بڑا معلم ہے۔ یہ خاموشی سے ہماری سانسوں کو گنتا رہتا ہے، اور ہم کبھی بے خبر، کبھی بے پروا زندگی کو گزارنے کے وہم میں خود کو گزار رہے ہوتے ہیں۔ وقت کا یہ بے رحم بہاؤ انسان کو ماضی کی یادوں، حال کی مصروفیات، اور مستقبل کے اندیشوں کے درمیان اس طرح الجھا دیتا ہے کہ وہ اصل سوال یعنی ’’میں کون ہوں اور کہاں جا رہا ہوں؟‘‘—سے غافل ہو جاتا ہے۔

خود کو وقت کے اس دھارے میں یوں چھوڑ دینا کہ نہ منزل کا پتہ ہو، نہ راستے کا شعور، سراسر خسارے کا سودا ہے۔ کیا ہم نے وقت کے دریا میں محض تیرنا سیکھا یا سمتِ نجات کی طرف کوئی پیش قدمی بھی کی؟ یہ سوال آج کے دن ہر انسان کے ضمیر پر بجلی بن کر گرتا ہے۔ ہماری زندگی کا ہر لمحہ دراصل ایک بیج ہے، جو یا تو ضیاع کی زمین میں گم ہو جاتا ہے، یا فکر و اخلاص کی زمین میں تناور درخت بن کر اگتا ہے۔ اگر ہم آج بھی اپنی سمت کا تعین نہ کریں، تو اگلا سال بھی گم گشتہ لمحوں کا قبرستان بن جائے گا جہاں دفن خواب اور ماندہ عزم، صرف ایک افسوسناک نوحہ چھوڑ جاتے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

سالِ نو کا آغاز ہمیں اس عظیم موقع کی یاددہانی کراتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کا زینہ لمحہ لمحہ چڑھتے ہوئے کہاں پہنچے ہیں؟ کیا ہم نے اس دنیا میں کچھ ایسا کیا ہے جو ہمارے بعد باقی رہے؟ کیا ہم نے کسی یتیم کے آنسو پونچھے؟ کیا ہم نے کسی مظلوم کے حق میں آواز بلند کی؟ کیا ہم نے اپنے نفس کی اصلاح کی راہ پر ایک قدم بھی اٹھایا؟ یہ سوالات فقط احساس کی چنگاریاں نہیں؛ یہ ہماری حیات کی سمت طے کرنے والے مینارے ہیں۔ ہر شعور یافتہ انسان کو لازماً اپنے وجود کی غایت پر غور کرنا چاہیے، ورنہ وہ ایک چلتی پھرتی جسمانی مشین بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کا مقصد طے نہ کرے، تو وہ خود اپنی روح کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔

جمہوری سیاست میں پارٹیاں انتخابات سے قبل منشور تیار کرتی ہیں۔ یہ منشور نہ صرف عوام کو متوجہ کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے، بلکہ ان کے عزم اور اہداف کا اعلان بھی۔ اگر ایک سیاسی جماعت بغیر کسی منشور کے میدان میں اترے، تو عوام اسے سنجیدہ نہیں لیتے۔ تو پھر ہم، جو اپنی زندگی کے انتخاب میں آزاد ہیں، کیوں نہ ایک منشورِ حیات ترتیب دیں؟ کیوں نہ ہم یہ طے کریں کہ: ہمیں کن عادتوں سے نجات پانی ہے؟ کن اخلاقی صفات کو اپنانا ہے؟ کس علمی سفر کا آغاز کرنا ہے؟ کن افراد کی صحبت سے جڑنا ہے؟ کس مقصد کیلئے زندہ رہنا ہے؟

منصوبہ بندی، درحقیقت، زندگی کو زندگی بنانے کا ہنر ہے۔ جس طرح کوئی سیاسی جماعت بغیر منشور کے عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکتی، ویسے ہی انسان بھی بغیر نصب العین کے، اپنی ذات کا راہی نہیں بن سکتا۔ قومیں منشور کے ساتھ اٹھتی ہیں، اور فرد محاسبے سے سنورتے ہیں۔ چنانچہ، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دل کی عدالت میں پچھلے سال کے اعمال کو پیش کریں۔ ہم نے کتنی بار رب کو پکارا، اور کتنی بار دنیا کی آواز پر لبیک کہا؟ کتنی بار ہم نفس کے فریب میں آئے، اور کتنی بار دل نے تقویٰ کی راہ پر قدم بڑھایا؟

مگر ماضی صرف ماتم کا نام نہیں۔ یہ ایک معلم بھی ہے، جو ہمیں سبق سکھاتا ہے کہ زخم بھی نعمت ہیں اگر ان سے ہم شعور کی آنکھ کھول سکیں۔ وہ تلخ یادیں، وہ گم کردہ راہیں، وہ کھوئے ہوئے لمحے، سب ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم اب بھی نئے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اس سال کو ہم ایک روحانی بعثت کا آغاز بنائیں۔ اپنے اندر کے بتوں کو توڑیں—غرور، حسد، غفلت، حرص—اور اپنے دل کو ایک عبادت گاہ میں تبدیل کر دیں۔ ہم ان لوگوں سے قریب ہوں جو روشنی بانٹتے ہیں، جن کے وجود سے ہمیں اللہ یاد آتا ہے، جن کے ساتھ بیٹھ کر انسان خود کو بہتر بنانے پر آمادہ ہوتا ہے۔

یہ سال ہماری روح کی تجدید، عقل کی تطہیر، اور دل کی تعمیر کا سال بنے۔ علم ہماری رَہ ہو، عبادت ہمارا زادِ راہ، خدمتِ خلق ہماری منزل، اور نیک صحبت ہمارا ہمسفر۔ زندگی ایک نعمت ہے، مگر بغیر شعور کے یہ نعمت ایک آزمائش بن جاتی ہے۔ یہ سوال ہر شعور رکھنے والے انسان کو خود سے پوچھنا چاہیے: "اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو کیا میں وہی رہوں گا؟ یا میری آنکھ میں وہ روشنی ہوگی جو توبہ کی ہے؟ میرے ہاتھ میں وہ طاقت ہوگی جو خدمت کی ہے؟ اور میرے دل میں وہ یقین ہوگا جو معرفت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے؟” کیونکہ محض وقت کا گزر جانا زندگی نہیں، بلکہ وقت میں جینا، بامقصد جینا، اور فکر کے ساتھ جینا ہی حقیقی زندگی ہے۔

آئیے! ہم اس سال کی پہلی ساعت کو ایک عہد بنائیں۔ وہ عہد جو صرف الفاظ میں نہ ہو، بلکہ اعمال میں نظر آئے؛ جو صرف دعا نہ ہو، بلکہ نیت، کوشش اور قربانی سے مزین ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلے سال، اسی دن، ہم پھر یہی سوال کریں: "کیا ہم نے واقعی کچھ بدلا؟ یا ہم وقت کے تیز بہاؤ میں اپنے آپ کو ایک بار پھر کھو بیٹھے؟”

Share This Article
1 تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

نئے زمانے کے نئے بت

نئے زمانے کے نئے بت ازــــــ محمد توقیر رحمانی زمانے کی گردِش…

Eastern

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور کا کڑا امتحان ہے

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور…

Eastern

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی…

Eastern

بہار! آپ کا شکریہ!

بہار! آپ کا شکریہ! از: محمد برھان الدین قاسمی ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ،…

Eastern

مرکز المعارف ممبئی میں انگریزی تقریری مقابلے کا انعقاد

مرکز المعارف ممبئی میں انگریزی تقریری مقابلے کا انعقاد حالات کے حساب…

Eastern

نئے سال کا آغاز محاسبہ نفس اور منشور حیات کیساتھ کریں

نئے سال کا آغاز محاسبہ نفس اور منشور حیات کیساتھ کریں محمد…

Eastern

Quick LInks

تبلیغی جماعت کے نادان دوست

تبلیغی جماعت کے نادان دوست ازـــــ مدثر احمد قاسمی تبلیغی جماعت ایک…

Eastern

جمعرات 20 صفر 1447هـ 14-8-2025م

یومِ آزادی، مسلمانوں کی قربانی اور حالیہ مسائل ازــــــ ڈاکٹر عادل عفان…

Eastern

جناب محمد راوت صاحبؒ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا

جناب محمد راوت صاحبؒ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی…

Eastern