بہار اسمبلی انتخابات میں مسلم نمائندگی — اعداد و شمار کے آئینے میں ایک تلخ حقیقت
بہار کی سیاست میں مسلمانوں کو “انتخابی ریاضی” کا حصہ تو ضرور بنایا جاتا ہے، مگر “اقتدار کی مساوات” میں ان کے لیے جگہ محدود کر دی جاتی ہے۔
ازــــ مدثر احمد قاسمی
جمہوریت کی خوبصورتی توازن پر مبنی نمائندگی میں مضمر ہے، لیکن جب توازن کو بگاڑ کر کسی خاص طبقے کو منظم انداز میں سیاسی منظرنامے سے غائب کر نے کی کوشش کی جائے تو یہ نہ صرف جمہوریت کے لیے خطرہ ہوتا ہے بلکہ سماجی انصاف کے بنیادی اصولوں پر بھی سوال کھڑا کرتا ہے۔ بہار اسمبلی انتخابات 2025 کی تصویر بھی کچھ اسی تلخ حقیقت کو عیاں کر رہی ہے — جہاں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی ایک بار پھر سوالیہ نشان بن کر ابھری ہے۔
بہار کی کل اسمبلی نشستیں 243 ہیں، اور مسلمانوں کی آبادی تقریباً 18 فیصد۔ اس تناسب سے کم از کم 44 مسلم اراکین اسمبلی کا ایوان میں ہونا انصاف کا تقاضا ہے، لیکن افسوس کہ زمینی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
سب سے پہلے بات کی جائے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تو اس نے اپنے حصے کے 101 نشستوں میں ایک بھی مسلم چہرہ ٹکٹ کے لائق نہیں سمجھا — گویا مسلمانوں کی سیاسی حیثیت اس جماعت کے نزدیک مکمل طور پر غیر ضروری ہے۔ جنتا دل (یونائیٹڈ) نے بھی اپنے 101 امیدواروں میں محض چار مسلم کو شامل کر کے نمائندگی کا فرض رسمی طور پر ادا کر دیا۔ ایل جے پی (چراغ پاسوان گروپ) نے بھی اپنے حصے کی سیٹوں میں صرف ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دے کر مساوات کے بجائے “علامتی نمائندگی” پر اکتفا کیا ہے۔

دوسری جانب، جنہیں مسلمانوں کا خیرخواہ اور مسیحا مانا جاتا ہے، یعنی آر جے ڈی، ان کے رویے میں بھی کوئی انقلابی فرق نظر نہیں آتا۔ اپنے 143 امیدواروں میں صرف 18 مسلم چہروں کو جگہ دے کر انہوں نے یہ ثابت کیا کہ “سیاسی محبت” کا جو نعرہ وہ لگاتے ہیں، وہ صرف انتخابی مفاد تک محدود ہے۔
البتہ کانگریس نے کچھ بہتر تاثر چھوڑا ہے۔ اپنی 60 نشستوں میں سے 10 مسلمانوں کو ٹکٹ دے کر اس نے آبادی کے تناسب کے لحاظ سے نسبتاً متوازن رویہ اپنایا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاست کے نئے چہرے جن سوراج نے 34 مسلم امیدواروں کو میدان میں اتار کر یہ پیغام دیا ہے کہ سیاسی دروازے سب کے لیے کھلے ہونے چاہئیں، اور نمائندگی کا معیار مذہب نہیں بلکہ صلاحیت ہونی چاہیے۔
جہاں تک اے آئی ایم آئی ایم کا تعلق ہے، انہوں نے 25 نشستوں پر امیدوار اتارے ہیں جن میں 23 مسلمان ہیں۔ بظاہر یہ بڑی نمائندگی دکھائی دیتی ہے، لیکن یہ زیادہ تر وہ علاقے ہیں جہاں مسلم ووٹر خود فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی جیتتا بھی ہے، تو ایک مسلم ہی دوسرے مسلم کو شکست دے کر جیتتا ہے — یعنی نقصان بہرحال اسی طبقے کا مقدر بنتا ہے۔
ان تمام اعداد و شمار کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بہار کی سیاست میں مسلمانوں کو “انتخابی ریاضی” کا حصہ تو ضرور بنایا جاتا ہے، مگر “اقتدار کی مساوات” میں ان کے لیے جگہ محدود کر دی جاتی ہے۔

یہ المیہ صرف سیاسی نہیں بلکہ فکری بھی ہے۔ جب کسی قوم کی نمائندگی اس کے حق کے مطابق نہیں ہوتی ہے تو اس کی آواز کمزور پڑ جاتی ہے اوراس کی ترجیحات دب جاتی ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ بہار کے باشعور مسلمان اپنی سیاسی بیداری کو ووٹ کے ذریعے ایک مضبوط پیغام میں بدلیں — ایسا پیغام جو صرف کسی جماعت کے مفاد کا ترجمان نہ ہو، بلکہ اپنی قوم کے وجود، عزت، اور مساوی حقِ نمائندگی کا گواہ بنے؛کیونکہ سیاست میں عزت صرف اسی کو ملتی ہے جو اپنی حیثیت پہچانتا ہے، اپنے ووٹ کی قدر جانتا ہے، اور اپنے نمائندے کا انتخاب شعور کے ساتھ کرتا ہے۔
