کم ووٹ شیئر کے باوجود بی جے پی نے بہار میں 93٪ جیت درج کی ہے
از: محمد برہان الدین قاسمی
ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی
آر جے ڈی کا ووٹ شیئر 22.82 فیصد اور بی جے پی کا 20.61 فیصد ہے، لیکن بی جے پی کو 94 اور آر جے ڈی کو صرف 25 سیٹیں مل رہی ہیں۔ ایسا کیوں؟
(سیٹوں اور ووٹ شیئر میں حتمی نتیجہ تک کمی بیشی ممکن ہے۔ منسلک اسکرین شارٹس شام 4 بجے کی ہیں۔)
انتخابی جمہوریت کے اس حساب کتاب کو ووٹنگ سے پہلے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صرف نعرے لگانا اور مخالفین کو برا بھلا کہنا زمینی حقائق میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لاتا۔ جمہوریت میں حکومت بنانا اور قانون سازی کا حصہ بنے رہنا، سیاسی پارٹی اور ووٹر—دونوں—کا مقصد ہونا چاہیے۔
بہار میں آج این ڈی اے کی جیت غیر معمولی ہے اور اس کی اصل وجہ بی جے پی کی بہترین حکمتِ عملی رہی ہے۔ اس نے مذہب، ذات اور سماجی حقائق کو بخوبی سمجھا اور بغیر کسی شور شرابے کے ان کا مؤثر استعمال کیا۔ اس کے برعکس ایم جی بی والے بھیڑ بھاڑ کے ساتھ سڑکوں پر شور تو بہت کرتے رہے، مگر زمین سے دور ہو کر یہ سمجھ بیٹھے کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے چند جلسوں میں خالی کرسیاں انہیں جیت کی دہلیز تک لے آئی ہیں۔ وہ وقت سے پہلے ہی شاہانیاں بجانے لگے، جب کہ 2020 کے انتخابات میں لڑائی کانٹے کی تھی، اور اس مرتبہ آنکھ والوں کو دور سے ہی نظر آرہا تھا کہ معاملہ 2020 جیسا نہیں ہے۔
مسلمان—بہار میں جن کی آبادی تقریباً 17 فیصد ہے—پہلے مرحلے تک بہار کے نائب وزیر اعلیٰ ’’بن رہے تھے‘‘ اور 6 نومبر کی ووٹنگ کے بعد اس قدر پُرجوش تھے کہ ’’اب وزیر اعلیٰ کی کرسی بھی ہماری ہے‘‘ جیسے دل فریب نعرے گونجنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ بات مخصوص واٹس ایپ گروپس کے ذریعے ہر گھر تک پہنچ گئی۔ جنہیں یہ گوارا نہیں تھا کہ کوئی مسلمان یا مسلمان کا تائیدی لیڈر بہار کا وزیر اعلیٰ بنے، انہوں نے 11 تاریخ کو خاموشی سے اپنا فیصلہ ای وی ایم میں درج کروا دیا۔ نعرے لگانے والوں نے خود کیا حاصل کیا اور کسی اور کو کتنا فائدہ پہنچایا—اس بات کا اندازہ شاید آج انہیں بھی نہیں ہوگا۔
جیسے پہلے سے میرے جیسے بعض لوگوں نے اندازہ لگایا تھا کہ مسلمانوں سے جڑی ہوئی ایک خاص سیاسی پارٹی 5 سے 7 مسلمان ایم ایل اے جیت جائے گی اور اس پر خوشیاں منائی جائیں گی، وہیں دوسری طرف پٹنہ میں بی جے پی نتیش کمار کی جگہ اپنے وزیر اعلیٰ کو حلف دلوا رہی ہوگی۔ آج 14 نومبر 2025 کی شام چار بجے تک نتیجہ تقریباً ایسا ہی سامنے آرہا ہے۔ نتیش جی اگر فی الحال حلف لے بھی لیں تو انہیں جلد ہی کرسی خالی کرنی پڑے گی اور ان کی حکومت بھی پہلے جیسی نہیں رہے گی۔

ملک کی آزادی کے وقت اسلام اور مسلمانوں کے نام پر جذبات بھڑکا کر مسٹر جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچایا تھا، 2011 کے بعد سے کچھ سیاسی شعبدہ بازوں اور کچھ ناسمجھ مسلمانوں نے بھی ’’نام نہاد سیکولر پارٹیوں‘‘ کی مخالفت کرکے ملک اور مسلمانوں—دونوں—کو اسی نوعیت کے ایک بڑے نقصان سے دوچار کیا ہے۔ اب صورتِ حال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہندوستان کا سیکولرازم، جمہوریت، مسلمانوں کے ووٹنگ رائٹس اور مذہبی و شہری حقوق—سب—خطرے میں نظر آ رہے ہیں۔
یہ ملک اگر سیکولر اقدار، موجودہ دستور اور سب کے لیے برابر قانون کے اصول پر نہ چلا تو ممکن ہے کسی اور کو کچھ فرق نہ پڑے، مگر ’’مسٹر عبدل‘‘ کو ضرور پڑے گا۔ اس لیے اس ملک کے قانون، سیکولرازم اور شہریوں کے مساوی حقوق کی حفاظت کے بارے میں سب سے زیادہ فکرمند مسلمانوں کو ہونا چاہیے، کیونکہ اسی میں ان کی شناخت اور بقا وابستہ ہے۔
بی جے پی ہاری ہوئی بازی جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے—یہ اس کی جماعتی خوبی ہے۔ دوسری طرف کانگریس مذہبی یا نسلی جذبات کو ووٹ میں تبدیل کرنے کا کوئی مؤثر طریقہ نہیں رکھتی، اور عام مسلمان اب بھی اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں سنجیدگی اختیار کرتا دکھائی نہیں دیتا۔
آئندہ 15–20 سالوں میں—خدا نخواستہ—ہندوستانی مسلمانوں کا حال بھی برمی مسلمانوں جیسا نہ ہو جائے، اس بات پر یقین رکھنا مشکل ہے۔ یہ جملہ پڑھنے اور لکھنے میں دل کو بے چین ضرور کرتا ہے، مگر حالات کی عریاں حقیقت کو بغیر لگی لپٹی بیان کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اللہ کرے کہ ملک کے حالات جلد بدلیں، اور ہم سب ہندوستانی یکجا ہو کر اس کی ترقی اور تعمیر میں ہمیشہ کی طرح آگے بڑھتے رہیں۔
————————–
