تعلیم: انقلاب اور عظمتِ رفتہ کی بحالی کا واحد راستہ

Eastern
8 Min Read
45 Views
8 Min Read

تعلیم: انقلاب اور عظمتِ رفتہ کی بحالی کا واحد راستہ

از: محمد توقیر رحمانی

تعلیم انسانی زندگی کا جزوِ لاینفک ہے۔ جس طرح جسم کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح دنیا میں باعزت اور بامقصد زندگی بسر کرنے کے لیے تعلیم ناگزیر ہے۔ تعلیمی شعور ایک زندہ قوم کی شناخت اور میراث ہوتا ہے، اور جو قوم اس میراث سے محروم ہو جائے، اس کا شمار زندہ قوموں میں نہیں کیا جا سکتا۔ ملی اور سیاسی بیداری بھی تعلیم ہی کے ذریعے ممکن ہے؛ اس کے بغیر یہ محض بےمعنی تصورات بن کر رہ جاتے ہیں۔ جو قوم تعلیم سے جُڑی رہے گی، ترقی اسی کا مقدر بنے گی اور کامیابیاں اس کے قدم چومیں گی۔

تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے انسان اپنے حقوق کا شعور حاصل کرتا اور انہیں حاصل کرنے کے قابل بنتا ہے۔ یہی تعلیم ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہے اور انسان کو اپنے فرائض اور حقوق سے واقف کراتی ہے۔ بغیر علم کے انسان نہ اپنے حقوق سے آگاہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی انہیں حاصل کر سکتا ہے۔ تعلیم ہی طے کرتی ہے کہ کون سے حقوق ضروری ہیں اور کن کے حصول کی جدوجہد لازم ہے۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: "میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں” اور "علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے، جہاں کہیں ملے اسے حاصل کرو”۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: "علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین تک جانا پڑے” اور "مہد سے لحد تک علم حاصل کرو”۔ افسوس کہ آج اسی نبی کی امت، جو علم و حکمت کی وارث تھی، علم سے محروم ہو چکی ہے۔

آج مسلمانوں کی تعلیمی حالت تشویشناک حد تک ناگفتہ بہ ہے، حالانکہ یہ وہی قوم ہے جس نے تاریخ میں علم و حکمت کے چراغ روشن کیے، دنیا کو ترقی اور ٹیکنالوجی کی نئی راہوں سے روشناس کرایا، اور سائنسی علوم و ایجادات کے ذریعے انسانی فکر کو نئی جہات عطا کیں۔ مسلمانوں نے نہ صرف تحقیق و جستجو کا ذوق پیدا کیا بلکہ دنیا کو چیزوں کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور پرکھنے کا شعور بھی بخشا۔

قوموں کے عروج و زوال کا انحصار بھی تعلیم پر ہے۔ کوئی قوم تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی، اور اگر بظاہر کچھ کامیابی حاصل ہو بھی جائے تو وہ دیرپا نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے محض طاقت کے بل پر حکومت قائم کی، ان کی حکومتیں زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکیں۔ منگولوں کی فتوحات اور اڈولف ہٹلر کا عروج و زوال اس کی واضح مثالیں ہیں۔

جاپان اور جرمنی کی تعلیمی ترقی دنیا کے لیے روشن مثالیں ہیں، جو یہ دکھاتی ہیں کہ تعلیم کے ذریعے قومیں نہ صرف اپنی معیشت بلکہ اپنی ثقافت اور عالمی اثر و رسوخ کو بھی بحال کر سکتی ہیں۔ دونوں ممالک جنگ کے بعد بدترین حالات سے نکل کر تعلیم کے بل بوتے پر ترقی کی بلندیوں تک پہنچے۔

جاپان اور جرمنی کی مثالیں یہ واضح کرتی ہیں کہ تعلیم نہ صرف افراد کی صلاحیتوں کو نکھارتی ہے بلکہ قوموں کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ جاپان نے ٹیکنالوجی اور اخلاقیات کو اپنی تعلیمی بنیاد بنایا، جب کہ جرمنی نے عملی تربیت اور تحقیق کو فروغ دے کر دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں جگہ بنائی۔ اگر ان تعلیمی ماڈلز سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور معیاری تعلیم کو ترجیح دی جائے، تو اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اگر ہم اپنے اندر حقیقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ تعلیم ہے۔ دینی و دنیاوی شعور اور بیداری صرف تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ تعلیم سے محرومی ہمیں ایک مظلوم اور محکوم قوم بنا دے گی، جو اپنے حقوق کے حصول اور ترقی کے میدان میں ہمیشہ پیچھے رہے گی۔تعلیم ہی معاشی نظام، سیاسی حکمتِ عملی، اور سماجی انصاف جیسے دیگر عوامل پر توجہ کی فکری دعوت دیتی ہے۔ چنانچہ، اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کے لیے ہمیں لازماً تعلیم سے آراستہ ہونا پڑے گا۔ اگر ہم نے تعلیم کو نظرانداز کیا تو ہم زوال کے ان گہرے کھائیوں میں جا گریں گے، جنہیں تاریخ بھی ایک فراموش شدہ باب کے طور پر یاد کرے گی۔

تعلیم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، اور موجودہ دور میں تعلیمی بیداری اور فروغ کے لیے ایسے مراکز کا قیام ناگزیر ہے جہاں طلباء قرآن و حدیث کے علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی میدان میں بھی مہارت حاصل کریں۔ ضروری ہے کہ ایسے ادارے وجود میں آئیں جو دینی و دنیاوی علوم کے مابین فرق کو ختم کر کے طلباء کو احادیث اور قرآنی علوم کے ساتھ جدید معاشیات اور ٹیکنالوجی میں بھی اعلیٰ قابلیت عطا کریں۔ تعلیم کو دینی اور دنیاوی حصوں میں تقسیم کرنے کے بجائے مدارس کے نصاب میں ایسے شعبے شامل کیے جائیں جو طلباء کو عصرِ حاضر کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بنائیں۔

مدارس، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے درمیان مفاہمت وقت کا تقاضا ہے تاکہ ہمارے تعلیمی نظام میں توازن قائم ہو سکے۔ موجودہ تعلیمی اداروں میں رائج بعض غیر اسلامی سرگرمیوں کی وجہ سے طلباء کے عقائد اور ایمان متاثر ہو رہے ہیں۔ مثالی مسلم اداروں کی عدم موجودگی کے باعث طلباء کو مجبوراً ایسے ماحول میں تعلیم حاصل کرنی پڑ رہی ہے، جہاں وہ غیر شعوری طور پر غلط نظریات کے زیرِ اثر آ جاتے ہیں۔

مسلم قائدین اور اہلِ ثروت کو چاہیے کہ ایسے ادارے قائم کریں جہاں طلباء کو آزادی اور اعتماد کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے، تاکہ وہ دین اور دنیا دونوں میدانوں میں مہارت حاصل کر کے ملک و ملت کی ترقی میں حصہ لے سکیں۔ اگر ہم نے فوری طور پر ایسے ادارے قائم نہ کیے تو اپنی قوم کے زوال کا ذمہ دار وہی افراد ہوں گے، جو وسائل اور قیادت کے مواقع رکھنے کے باوجود خاموش تماشائی بنے رہے۔

امتِ مسلمہ کو اپنی کھوئی ہوئی میراث یعنی علم و حکمت کو دوبارہ حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ صرف تعلیم ہی وہ راستہ ہے جو ہماری پسماندگی کو ختم کر کے ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ اسی کے ذریعے ہم نہ صرف اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کر سکتے ہیں بلکہ ملت اور ملک کی ترقی میں بھی گراں قدر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

نئے زمانے کے نئے بت

نئے زمانے کے نئے بت ازــــــ محمد توقیر رحمانی زمانے کی گردِش…

Eastern

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور کا کڑا امتحان ہے

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور…

Eastern

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی…

Eastern

بہار! آپ کا شکریہ!

بہار! آپ کا شکریہ! از: محمد برھان الدین قاسمی ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ،…

Eastern

مرکز المعارف ممبئی میں انگریزی تقریری مقابلے کا انعقاد

مرکز المعارف ممبئی میں انگریزی تقریری مقابلے کا انعقاد حالات کے حساب…

Eastern

نئے سال کا آغاز محاسبہ نفس اور منشور حیات کیساتھ کریں

نئے سال کا آغاز محاسبہ نفس اور منشور حیات کیساتھ کریں محمد…

Eastern

Quick LInks

تبلیغی جماعت کے نادان دوست

تبلیغی جماعت کے نادان دوست ازـــــ مدثر احمد قاسمی تبلیغی جماعت ایک…

Eastern

جمعرات 20 صفر 1447هـ 14-8-2025م

یومِ آزادی، مسلمانوں کی قربانی اور حالیہ مسائل ازــــــ ڈاکٹر عادل عفان…

Eastern

جناب محمد راوت صاحبؒ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا

جناب محمد راوت صاحبؒ، امیرِ تبلیغی جماعت، زامبیا بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی…

Eastern