تعلیمی بحران اور مسلم نوجوانوں کے وجودی سوالات
ایک تجزیاتی مطالعہ
ازـــ ابوحسان پوترک فلاحی (ماہر تعلیم و تربیت کار)
انسانی تاریخ میں تعلیم ہمیشہ سے فرد اور معاشرے کی تشکیل کا بنیادی ذریعہ رہی ہے۔ حقیقی تعلیم صرف معلومات کے حصول کا نام نہیں، بلکہ یہ انسان کے اندر شعور، فکر اور شخصیت کی تعمیر کا عمل ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم کا بنیادی مقصد انسان کو اپنے رب، اپنی ذات اور اپنے گردو پیش موجود کائنات سے آگاہی حاصل کرنا ہے۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو ہر انسان کے ذہن میں جنم لیتے ہیں: میں کون ہوں؟ یہ کائنات کیا ہے؟ خدا کون ہے؟ ان سوالات کے صحیح جوابات کے بغیر انسان اپنی زندگی کا مقصد متعین کرنے سے قاصر رہتا ہے۔وہ اپنے وجود کی معنویت کا تعین نہیں کرسکتا۔
انسانی فکر کی بنیاد پہلا سوال: میں کون ہوں؟ یہ سوال انسانی شناخت اور وجود سے متعلق ہے۔ انسان ہمیشہ سے اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: "ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی نفسانی خواہشات کو خوب جان لیا، اور اس کے رب سے ہم اس سے زیادہ قریب ہیں” (ق: 16)۔ اسلام انسان کو اللہ کا نائب اور خلیفہ قرار دیتا ہے، جو اسے باعزت مقام عطا کرتا ہے۔
دوسرا سوال: کائنات کیا ہے؟ کائنات اور اس کے اسرار سے آگاہی انسان کی فطری جبلت میں شامل ہے۔ قرآن بار بار انسانوں کو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے: "بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں” (آل عمران: 190)۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کائنات اللہ کی نشانیوں سے بھری پڑی ہے جو اس کی وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرتی ہے۔کائنات کے مطالعہ کا مقصد ان نشانیوں کا دارک ہے جو خدا کی معرفت میں اضافہ کا باعث بنے ۔
تیسرا سوال: خدا کون ہے؟ یہ سوال تمام مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے ساتھ تعلق کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے: "وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، نہایت پاک ہے، سلامتی دینے والا ہے، امن عطا فرمانے والا ہے، نگہبان ہے، سب پر غالب ہے، بڑائی والا ہے، بڑائی کا مالک ہے، وہ اللہ پاک ہے ان شرکاء سے جو یہ لوگ ٹھہراتے ہیں” (الحشر: 23)۔
مسلم معاشروں میں سب سے بڑا تعلیمی چیلنج دینی اور دنیوی تعلیم کے درمیان مصنوعی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم درحقیقت استعماری دور کی پیداوار ہے جب مسلم معاشروں کو کمزور کرنے کے لیے یکجہتی اور ہم آہنگی کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس تقسیم کے نتیجے میں شخصیت کا انتشارپیدا ہوگیا ، طالب علم دو مختلف دنیاؤں میں زندگی گزارتا ہے – ایک مسجد اور مدرسے کی دنیا، دوسری اسکول اور کالج کی۔یہ فکری تضاد اس کی شخصی وحدت کو تقسیم وتفریق شکار بنادیتا ہے،کیوں کہ دینی تعلیم میں وہ کچھ پڑھتا ہے اور دنیوی تعلیم میں اس کے برعکس۔اس کے نتیجے میں ایسے افراد پیدا ہونا لازمی ہے جو عبادت گاہوں میں تو مذہبی ہوتے ہیں لیکن معاشرتی زندگی میں سیکولر۔

دینی تعلیمی اداروں کی حد بندیاں مکاتب اور مدارس دینی تعلیم کے اہم مراکز ہیں لیکن ان میں درج ذیل خامیاں پائی جاتی ہیں:
• جدید ذہنی سوالات کا جواب دینے میں ناکامی
• تدریس کے جدید اسالیب کا فقدان
• سائنسی اور عقلی علوم سے دوری
• منظم اور مرتب جوابات کا فقدان
دوسری طرف اسکول اور کالج جو تعلیم فراہم کر رہے ہیں وہ مغربی سیکولر نظریہ حیات پر مبنی ہے جس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
• اس نظام تعلیم میں مادہ کو حقیقت کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
• انسان کو کائنات کا مرکز اور حتمی حاکم قرار دیا جاتا ہے۔
• مذہب کو صرف ذاتی زندگی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔
• تاریخ کی تشریح مادی اور سیکولر نقطہ نظر سے کی جاتی ہے۔
غیر رسمی تعلیم کے ذرائع اور ان کے اثرات:
میڈیا کا کردار غیر رسمی تعلیم کے سب سے طاقتور ذرائع میں میڈیا شامل ہے جو مسلسل مغربی نظریات اور اقدار کی تشہیر کر رہا ہے:ٹیلی ویژن اور فلمیں، یہ ذرائع مغربی طرز زندگی، لبرل اقدار اور سیکولر نقطہ نظر کو پرکشش طریقے سے پیش کرتے ہیں۔سوشل میڈیاکے پلیٹ فارمز نوجوانوں کے درمیان مغربی نظریات کو تیزی سے پھیلا رہے ہیں۔گیمز اور انٹرٹینمنٹ کے ذرائع جو بظاہر معصوم نظر آتے ہیں لیکن ان کے ذریعے بھی مغربی اقدار کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مغربی ثقافت کی یلغار نے مسلم نوجوانوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، انگریزی زبان کے ذریعے مغربی افکار اور اقدار کو فروغ ملا ہے۔ مغربی لباس اور فیشن نے نوجوانوں کی سوچ اور طرز زندگی کو متاثر کیا ہے۔ مغربی تہواروں کو منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ہمارے معاشروں میں لبرل خیالات رکھنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پیدا ہو رہی ہے جن کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
• یہ نوجوان مذہب کو قدیم اور دقیانوسی سمجھتے ہیں۔
• انھیں مغربی طرز زندگی زیادہ پرکشش لگتا ہے۔
• رویہ نوجوان روایتی اقدار اور رسم و رواج کو مسترد کرتے ہیں۔
• ان کا مذہبی رہنماؤں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو عملی زندگی میں منافقانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں ،یہ لوگ ظاہری طور پر مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں لیکن ان کا دل ایمان سے خالی ہوتا جارہا ہے۔ ان کے قول و فعل میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ موقع کے مطابق اپنا مذہبی رویہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ ان کا اولین مقصد ذاتی مفاد کا حصول ہوتا ہے۔
ایکس مسلم (Ex-Muslim) کا المیہ
سب سے خطرناک رجحان وہ ہے جس میں نوجوان کھلم کھلا اسلام کو چھوڑ رہے ہیں۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں ،ان نوجوانوں کو لگتا ہے کہ سائنس اور مذہب میں تضاد ہے۔ ان کے ذہن میں مذہبی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ انتہا پسند رویوں نے انہیں مذہب سے دور کر دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مذہب ان کی آزادی سلب کرتا ہے۔ان کی زندگی کو بے رنگ اور بے مزہ بنادیتا ہے۔
حل کے لیے تجاویز تعلیمی نظام میں اصلاحات یکساں تعلیمی نظام:
• دینی اور دنیوی تعلیم کے درمیان تقسیم ختم کر کے یکساں نظام تعلیم متعارف کرایا جائے۔
• تمام علوم کو اسلامی نقطہ نظر سے پڑھایا جائے۔
• طلبہ میں تنقیدی سوچ پیدا کی جائے تاکہ وہ مختلف نظریات کا تجزیہ کر سکیں۔
• سائنس اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے پر زور دیا جائے۔
• مدارس کے درسی نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔
• مدارس کے نصاب میں جدید علوم کو شامل کیا جائے۔
• مدرسے کے اساتذہ کو جدید تعلیمی طریقوں سے آراستہ کیا جائے۔
• مدارس میں علمی تحقیق کو فروغ دیا جائے۔
• ایسی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں جو جدید علوم کو اسلامی اقدار کے مطابق پڑھائیں۔
• اسلامی تعلیمات کو جدید انداز میں پیش کرنے والے آن لائن پلیٹ فارمز تیار کیے جائیں۔
• تعلیمی چینل: اسلامی تعلیم و تربیت کے لیے خصوصی ٹیلی ویژن چینل قائم کیے جائیں۔
• جدید ذہن کے سوالات کے جوابات پر مشتمل لٹریچر تیار کیا جائے۔
• گھروں میں اسلامی ماحول قائم کیا جائے۔
• والدین کو جدید چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جائے۔
• نوجوانوں کے لیے دلچسپ اسلامی پروگرامز ترتیب دیے جائیں۔
• نوجوانوں کے سامنے اسلامی اور جدید علوم میں ماہر شخصیات کے نمونے پیش کیے جائیں۔

موجودہ تعلیمی بحران درحقیقت مسلم امہ کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اگر اس پر فوری توجہ نہ دی گئی تو آنے والی نسلیں اسلام سے مزید دور ہوتی چلی جائیں گی۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:
• تعلیمی نظام میں اصلاحات کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
• تعلیمی اصلاحات کے لیے ہمہ جہت نقطہ نظر اپنایا جائے۔
• اس کام کے لیے تمام اسلامی مکاتب فکر مل کر کام کریں۔
• تعلیمی اصلاحات کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کی جائے۔
اسلامی تعلیمات میں وہ قوت موجود ہے جو انسان کے وجودی سوالات کے تسلی بخش جوابات دے سکتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تعلیمات کو جدید ذہن کے مطابق پیش کیا جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: "اے ایمان والو! تم خود اپنی حفاظت کرو، اگر تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا” (المائدہ: 105)۔
ہمیں اپنے نوجوانوں کو اسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرانا ہوگا، ان کے سوالات کے جوابات دینے ہوں گے، اور انہیں یہ باور کرانا ہوگا کہ اسلام ہی وہ مکمل ضابطہ حیات ہے جو ان کے تمام وجودی سوالات کے جوابات رکھتا ہے اور ان کی دنیوی و اخروی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔
