از ـ محمود احمد خاں دریابادی
واقف کہاں زمانہ ہماری اُڑان سے
وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے
غازہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان تصادم جاری ہے ـ اسرائیل دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے، رقبہ میں چھوٹا ہونے کے باوجود پوری طرح خود کفیل ہے، صنعت، تجارت، زراعت، سائنس ٹکنالوجی اور ہتھیار سازی میں عالمی شہرت رکھتا ہے، ایٹمی ہتھیار بھی اس کے پاس ہیں، رقبے میں بہت بڑے اور کثیر آبادی والے ممالک کو بھی ہتھیار، اناج، اور جدید مشینیں فروخت کرتا ہے ـ
1946 میں جب مسلم دشمن طاقتوں کی سرپرستی کی وجہ سے اسرائیل وجود میں آیا تھا تب وہ پورا علاقہ فلسطین کہلاتا تھا، اُس فلسطین کے بہت چھوٹے سے حصہ کو الگ کرکے مغربی طاقتوں نے اسرائیل کا نام دیدیا تھا ـ تب سے اب تک اسرائیل نے فلسطین کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرکے فلسطینیوں کو بہت چھوٹے سے حصے تک محدود کردیا ہے، مزید ستم یہ کیا کہ اُس چھوٹے سے حصے کو بھی دو ٹکروں مغربی کنارے اور غازہ میں اس طرح تقسیم کردیا کہ دونوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں ان کے درمیان میں اور چاروں سمت بھی اسرائیلی علاقے ہیں ـ غازہ کو کہیں دیوار اور کہیں خاردار تار لگا کر چاروں طرف سے محصور کردیا گیا ہے، جگہ جگہ اسرائیلی چوکیاں قائم ہیں،جن کی اجازت کےبغیر وہاں کوئی داخل نہیں ہوسکتا، اناج اور دوسری انسانی ضرورت کی گاڑیوں کی بھی مکمل تلاشی ہوتی ہے ـ گویا آج غازہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے ـ………. صرف یہی نہیں بلکہ لبنان، اردن اور شام وغیرہ کے بھی بعض علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے ـ مکہ مدینے تک اپنی سرحدوں کو وسیع کرنے کا پلان اسرائیل نے کبھی دنیاسے نہیں چھپایا ـ
ایک طرف فلسطین کے اصل باشندوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، مکانات مسمار کئے جاتے ہیں، علاقوں سے بے دخل کیا جاتا ہے، ………… دوسری طرف ساری دنیا کے یہودیوں کو اسرائیل میں بسانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں بسائی جارہی ہیں، وہاں بسنے والے یہودیوں کو ہر طرح کی سہولتیں، نقد امداد اور کاروباری مواقع فراہم کئے جارہے ہیں، دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیل میں مکمل حفاظت اور ہر طرح کی سیکورٹی کی گارنٹی دی جارہی ہے، اس گارنٹی سے متاثر ہوکر ہزاروں یہودی فلسطین میں بس چکے ہیں اور مزید ہزاروں بسنے کی تیاری کررہے ہیں ـ یہودیوں کی اس نقل مکانی کی وجہ سے علاقے میں آبادی کا توازن بگڑ گیا ہے، 1946 میں جہاں اس علاقے میں مسلمان مکمل اکثریت میں تھے اور بمشکل.چند فیصد ہی یہودی آباد تھے ـ آج مسلمان اور یہودیوں کی آبادی تقریبا برابر پر پہونچ رہی ہے، بلکہ روز بروز یہودیوں کی آبادی جس طرح بڑھ رہی ہے اس سےیہ بھی ممکن ہے مسلمانوں کی تعداد اب کم ہوچکی ہو ـ
ایک طرف تو زبردست طاقتور ملک اسرائیل ہے، جس کو مغربی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے ـ دوسری طرف بے سروسان فلسطینی ہیں، جن کے پاس نہ ڈھنگ کا کاوبار ہے، نہ وسائل نہ ہتھیار، نہ کوئی حامی نہ مدد گار! ………. کہنے کو تو درجنوں مسلم ممالک ہیں، جن کے پاس وسائل ہیں، دولت ہے، مگر فلسطین کے لئے اگر ہے بھی تو صرف زبانی ہمدردی! بہت سے مسلم کہلانے والے ممالک تو کھل کر اسرائیل کے ساتھ بھی دکھائی دیتے ہیں ـ
ایسے میں اسرائیل اور فلسطین کا مقابلہ ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ معلوم ہوتا ہے، اسرائیل کو یہ زعم ہے کہ میں جب چاہوں گا اس چیونٹی کو مسل کر رکھ دونگا ـ اسرائیل کو یہی گھمنڈ تھا جس کی وجہ سے اُس نے عالمی رائے عامہ کی کوئی پرواہ کبھی نہیں کی ـ امریکہ وغیرہ نے مل کر کئی مرتبہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان سمجھوتے کرائے، حالانکہ ان سمجھوتوں میں بھی اسرائیل کو خصوصی رعائت دیگئی ـ کئی بار سلامتی کونسل میں اسرائیل کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف تجویز پیش ہوئی جن میں اکثر کو تو امریکا نے ویٹو کرکے مسترد کرادیا، ایک دومرتبہ اُس نے دنیا دکھاوے کے لئے اسرائیل کی مذمتی قراداد کی حمایت بھی کی ہے ـ مگر اسرائیل نے ہمیشہ ایسی تمام چیزوں کو جوتے کی نوک پر مارا ہے اورکئی سمجھوتوں پر دستخط کرنے کے بعد مکر گیاـ
مگر فلسطینی جانبازوں کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے ہیں، انھوں نےخالی ہاتھ، بےسروسان ہونے کے باوجود بارہا پتھروں سے اسرائیل ٹینکوں کو دوڑا لیا ہے، اس کی ظالمانہ بمباری کا مقابلہ گھریلو ساخت کے ہتھیاروں اور خانہ ساز میزائیلوں سے کیا ہے، (ویسے بھی باہر سے کسی مدد کے پہونچنے کا راستہ ہی نہیں ہے) سوچئے ، چند منٹ کے اندر اسرائیل پر پانچ ہزار میزائیلوں کی برسات کوئی معمولی بات ہے ؟ اسرائیل میں ہاہا کار مچ گیاـ کہاں گئیں خفیہ ایجنسیاں، اسرائیل کی وہ بدنام زمانہ ایجنسی موساد، جس کا نام دنیا بھر کے ظالموں کے درمیان بڑی محبت اور عقیدت سے لیا جاتا تھا ـ موساد کے نیٹ ورک، اس کے طریقہ کار، اس کے ایجنٹوں کی مستعدی اور چستی پھرتی کی مثالیں دی جاتی تھیں، ہمارے ملک میں بھی موساد کے بھگت بہت بڑی تعداد میں ہیں، ظاہر ہے پانچ ہزار میزائیل بیک وقت داغنے کے لئے ہفتوں، مہینوں پہلے سے تیاریاں کی گئی ہوں گی، سازوسامان جمع کیا گیا ہوگا، مگر کسی کو کانو کان خبر نہیں ہوئی، ہے نا تعجب کی بات!
بہر حال اب تو جنگ چھڑچکی، نتیجہ کیا ہوگا ؟ ظاہر ہے ! اسرائیل نے پھر یک طرفہ بمباری شروع کردی ہے، بے گناہ شہری مارے جارہے ہیں، املاک تباہ ہورہی ہیں، فلسطینیوں کے لئے یہ سب نیا نہیں ہے،اس پہلے بھی بارہا اسرائیل ایسی خون آشام بمباریاں کرچکا ہے، چند دنوں کے بعد جب اسرائیل کی متکبرانہ ذہنیت کو تسکین مل جائے گی تو کوئی بڑی طاقت بیچ میں پڑکر جنگ بندی کرادے گی، جیسا کہ ہوتا رہا ہے، ………… مگر اس بار فرق یہ پڑا ہے کہ جنگ بندی سے پہلے ہی جنگ کا نتیجہ آگیا، اس بار اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ چکا یے، موساد کے نمبر ون خفیہ ایجنسی ہونے کا پروپیگنڈہ بھی پاش پاش ہوگیا، ساری دنیا کے یہودیوں کو اسرائیل میں بسنے کی دعوت اور تحفظ کی گارنٹی بھی ہوا ہوگئی، اب بزدل یہودیوں کو ایسے علاقے میں جہاں موت کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہے لاکر بسانا بہت مشکل ہوگا بلکہ جو لوگ پہلے سے آکر بس چکے ہیں وہ بھی پچھتا رہے ہوں گے ـ…………. کسی بھی جنگ میں ظاہری فتح وشکست سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ اُس ملک کا سابقہ بھرم، رعب و دبدبہ اور ” بھوکال“ اب بھی قائم ہے یا گھٹ گیا ہے ـ یوں تو ہاتھی اور چیونٹی کا کوئی مقابلہ نہیں ہے مگر کہتے ہیں کہ اگر چیونٹی ہاتھی کی ناک میں گھس جائے تو ہاتھی کی موت طے ہوجاتی ہے،………… اس بار فلسطینی چیونٹی اسرائیلی ہاتھی کی ناک میں گھس چکی ہے، اب نتیجہ نکلنے میں زیادہ دیر نہیں ہے ـ
فی الحال غازہ کے جانبازوں کے لئے ہمارا یہ پیغام ہے کہ ………..
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاوں کی زنجیر نہ دیکھ