گزشتہ صدی کے تعلیمی نفسیات کے ماہر گیجو بھائی بھدیکا کی کتاب  Divaswapna (دن کا خواب) کا حاصل مطالعہ

Eastern
10 Min Read
41 Views
10 Min Read

گزشتہ صدی کے تعلیمی نفسیات کے ماہر گیجو بھائی بھدیکا کی کتاب  Divaswapna (دن کا خواب) کا حاصل مطالعہ

از: اظہارالحق بستوی

گیجو بھائی بھدیکا (1885-1939) گزشتہ صدی کے معروف ماہر تعلیم مانے جاتے ہیں۔ ان کی یہ کتاب اصلاً گجراتی زبان میں 1932 میں لکھی گئی۔ اس سے پھر مختلف زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔ راقم نے یہ کتاب انگریزی میں پڑھی جس کے کل 161 صفحات ہیں۔ محترمہ طاہرہ حسن نے کتاب کا اردو ترجمہ ایک تمنا ایک خواب کے نام سے کیا ہے جسے نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا نے شائع کیا ہے۔ ہندوستان کی تمام زبانوں میں پی ڈی ایف بھی موجود ہے۔ دن کا خواب نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کے باب میں انھوں نے جو نفسیات، نظریات اور طریقہائے کار پیش کیے ہیں ان کا ہمارے جامد نظام تعلیم میں بظاہر پورا ہونا مشکل نظر آتا ہے مگر اگر اس طریقے کو اپنایا جائے تو تعلیم کے بہتر نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں۔

تعلیمی نفسیات کے موضوع پر یہ انتہائی اہم کتاب مانی جاتی ہے۔ ہندوستان بھر میں بی ایڈ یعنی بیچلر آف ایجوکیشن میں باقاعدہ داخل نصاب ہے تاکہ تدریس کا پیشہ چننے والے ایک مؤثر ٹیچر اور باکمال مدرس کا کردار ادا کر سکیں جس کے حوالے سے یہ کتاب تفصیل فراہم کرتی ہے۔
مصنف کتاب پیشے سے اصلاً وکیل تھے مگر تقریباً چالیس سال کی عمر میں ان کی توجہ تعلیم کی طرف ہوئی۔ چناں چہ انھوں نے ہندوستان میں مانٹیسری نظام تعلیم کے تعارف و شیوع میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نظام تعلیم میں جبر و سختی سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے آزادی کے ساتھ بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ گیجو بھائی بھدیکا نے پھر اپنی پوری زندگی انھی تعلیمی نفسیات و نظریات پھیلانے میں خرچ کردی۔
کتاب افسانوی انداز کی ہے جس میں گیجوبھائی بھدیکا ایک سرکاری اسکول کے ذمے داران سے گزارش کرکے مؤثر تدریس کا اپنے انداز میں تجربہ (Experiment)کرتے ہیں۔

یہ انگریزوں کا دور اقتدار ہے اور انھیں اسکول میں چوتھی کلاس دی جاتی ہے۔ سرکاری اسکول ہونے کے ناطے بچوں کے یونیفارم ہی نہیں بلکہ ہر چیز گندی ہے۔ اسکول میں نہ نظم و ضبط ہے اور نہ تعلیم۔ بس ایک ہی چیز ہے ہر طرف اور وہ ہے بد نظمی۔ امتحان میں پاس ہو جانا ہر بچے کی منزل ہوتی ہے۔ روز مرہ کی پڑھائی لکھائی سے کوئی مطلب نہیں۔ ٹیچرز اپنا روٹین کام کرکے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں اور:
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
گیجو بھائی نے یہ کیفیت دیکھی تو بہت مضطرب ہوئے۔ کلاس میں پہنچے تو ہر طرف بد نظمی۔ سبق شروع کیا تو کوئی سننے کے لیے تیار نہیں۔ کئی تو متوجہ بھی نہیں ہوئے۔ انھوں نے کلاس میں خاموشی کا گیم (گیم آف سائلنس: گوگل کرلیں) کھیلا کر کلاس کو خوش کرنا اور نظم و ضبط میں لانا چاہا مگر لڑکوں نے کوئی اہمیت نہ دی۔ انھوں نے وقت سے پہلے بچوں کو چھٹی دے دی مگر لاحاصل۔ ہیڈماسٹر ناراض بھی ہوئے کہ آپ اپنی مرضی سے بچوں کو چھٹی نہیں دے سکتے اس لیے کہ دوسری کلاس کے بچے اس سے ڈسٹرب ہوں گے۔ ہیڈماسٹر نے صاف لفظوں میں کہا بھی کہ زیادہ ہمدرد مت بنیے اور جیسے دیگر ٹیچر پڑھا رہے ہیں آپ بھی پڑھائیے۔ نیز انھوں نے فرمایا کہ: یہ قوم صرف تھپڑ سے ٹھیک رہے گی۔
مگر گیجو بھائی نے از سر نو منصوبہ بندی کی چناں چہ رات بھر بچوں کی حالت کے بارے میں سوچتے اور مضطرب رہتے۔ اگلے دن بچوں نے پھر چھٹی کرنی چاہی۔ گیجو بھائی نے کہا کہ ٹھیک ہے چھٹی کریں گے مگر پہلے تمہیں ایک کہانی سننی پڑے گی۔ لڑکے خاموش ہو گئے۔ نیا ٹیچر سمجھ کر کچھ ہوشیار قسم کے بچے بیچ میں باتیں کرتے رہے۔ انھوں نے کلاس روک دی اور کہا:
بچو! یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔ اچھی طرح بیٹھو۔ دوسرے بچوں نے درخواست کی کہ سر! کہانی بتائیں۔ اب سارے بچے توجہ سے سننے لگے۔ درسگاہ میں سلیقہ مند خاموشی دیکھ کر ہیڈماسٹر صاحب آئے اور لڑکوں کے نظم ونسق پر متعجب ہوئے۔ گیجو بھائی نے لڑکوں سے پوچھا کہ چھٹی چاہیے یا کہانی آگے سنائیں۔ لڑکوں نے کہا کہ: کہانی سنائیں پلیز، ہمیں جلدی گھر نہیں جانا۔ گیجو بھائی نے کہا کہ: پہلے میں کچھ بات کروں گا پھر کہانی آگے سناؤں گا۔ لڑکوں نے کہا کہ سر: بات کل کریں گے آج کہانی سنا دیں۔ سر نے کہا کہ: کہانی لمبی ہے اس کو مکمل کرنے میں کئی روز لگیں گے۔ اس لیے آج بات کر لیتے ہیں۔
لڑکے تیار ہو گئے۔

Advertisement
Advertisement

کلاس سے متعلق ضروری بات کے بعد کہانی آگے بڑھی۔ پھر چھٹی ہو گئی۔ گیجو بھائی نے لڑکوں سے پوچھا کہ کل چھٹی چاہیے یا کہانی؟ لڑکوں نے کہا کہ: کہانی اور یوں اگلے دن پھر کلاس کہانی سے شروع ہوئی۔
( یہاں رک کر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک سرکاری اسکول کے دلچسپی نہ لینے والے بچوں کو کہانی کے انداز میں نئے ٹیچر نے پڑھانا شروع کیا تو لڑکے اس سے جلدی مانوس ہو گئے اور ان میں نظم و ضبط آ گیا۔)
اگلے کئی دنوں تک انھوں نے کہانیاں سنائیں۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ بچو! کیا آپ لوگ کہانی پڑھنا بھی چاہو گے تو لڑکوں نے کہا کہ ہاں مگر ہمارے پاس کہانی کی کتابیں نہیں ہیں۔ استاد نے کہا کہ: اگر میں منگوا دوں تو پڑھو گے؟ لڑکے خوش ہو گئے اور کہا کہ بالکل لیکن آپ کو کہانی سنانی پڑے گی۔ استاد نے بھی ہامی بھرلی۔
دن ختم ہوا۔ لڑکے کہانی کے چکر میں چھٹی  کے وقت میں بھی جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ استاذ نے زبردستی بھیجا۔ دوسرے اساتذہ سے بھی ان کی کلاس نے کہانی کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ مگر یہ کوئی آسان کام اور ہر ایک کے بس کا کام نہیں تھا لہذا اور اساتذہ اپنا سبق پڑھا کر چھٹی کر لیتے۔
اگلا دن اتوار تھا۔ تعلیمی افسر سے استاد کی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ صرف کہانی سنا رہے ہیں اس سے آپ کا تعلیمی تجربہ کیسے کامیاب ہوگا۔ استاد نے بتایا کہ میرا تجربہ کامیاب ہو رہا ہے۔ میں کہانی کے ذریعے بچوں کی لسانی صلاحیتوں کو بہتر کر رہا ہوں۔ تعلیمی افسر نے پوچھا کہ بھئی آپ نئے طریقے سے کب پڑھانا شروع کریں گے؟ استاد نے کہا کہ: یہی تو نیا طریقہ ہے۔
استاد نے اس کے بعد بچوں کے تعاون سے ایک لائبریری بنائی۔ اس کی تقریب یوں ہوئی کہ استاد نے کہا کہ بچے متون/ٹیکسٹ بک نہ خریدیں۔ میں متون کو اپنے انداز میں اچھی طرح پڑھا دوں گا اور ان پیسوں سے ہم اچھی اور کہانیوں کی کتابیں خرید کر لائبریری بنائیں گے۔ کچھ والدین مانے مگر اکثر نے اس نظریے کو رد کر دیا۔ اس لیے تھوڑی ہی کہانیوں کی کتابیں خریدی جا سکیں۔ مگر ہر بچے کو کہانی کی ایک کتاب دی جاتی جو ختم ہونے کے بعد وہ دوسرے بچے کو دیتا اور دوسرا بچہ اسے۔ اس طرح بچوں میں پڑھنے کا مزاج پنپ گیا۔
کہانیوں کے بیچ میں استاد اہم مواقع پر رک کر درس گاہ سے متعلق اور کام بھی کرا لیتے اور اپنی شرطیں بھی منوا لیتے۔ کبھی یونیفارم چیک کر لیتے اور کبھی ناخن۔
صاحب کتاب نے سائنس، جغرافیہ اور حساب وغیرہ تمام موضوعات پڑھانے کا دلچسپ طریقہ نکالا جس سے بچوں نے سیکھا۔ اس میں کسی زور زبردستی کا طریقہ نہیں اپنایا بل کہ آزادی اور دلچسپی کا ماحول پیدا کیا اور بہترین انداز میں بچوں کو تعلیم دی۔ سالانہ پروگرام کے موقع پر روایتی انداز سے ہٹ کر تخلیقی انداز میں بچوں کا پروگرام منعقد کیا جس میں رٹنے رٹانے کے بجائے عملی اور پریکٹیکل سرگرمیوں کا انداز اپنایا گیا۔ مانٹیسری نظام تعلیم میں اسی انداز کی تعلیم دی جاتی ہے جس کے گیجو بھائی بھدیکا ہندوستان میں بڑے علم بردار تھے۔
کتاب اس لائق ہے کہ پڑھی جائے۔ ہندوستان کی بشمول اردو تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ موجود ہے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم از____ محمد توقیر رحمانی…

Eastern

ماہ ربیع الاول اور اسوۂ نبوی ﷺ کا تقاضا

ماہ ربیع الاول اور اسوۂ نبوی ﷺ کا تقاضا از____ محمد توقیر…

Eastern

انسان کی تخلیق محض وجود کیلئےنہیں ، خلافتِ ارضی کی عظیم ذمہ داری کیلئے ہے

انسان کی تخلیق محض وجود کیلئےنہیں ، خلافتِ ارضی کی عظیم ذمہ…

Eastern

نئے زمانے کے نئے بت

نئے زمانے کے نئے بت ازــــــ محمد توقیر رحمانی زمانے کی گردِش…

Eastern

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور کا کڑا امتحان ہے

زندیقیت کا سیلاب، الحاد کی فکری استعماریت کا مظہر اور اسلامی شعور…

Eastern

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے

شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی…

Eastern

Quick LInks

بہار کے مسلمان ووٹرز کو پچھلی غلطی دہرانے سے گریز کرنا چاہیے

بہار کے مسلمان ووٹرز کو پچھلی غلطی دہرانے سے گریز کرنا چاہیے…

Eastern

ملت ٹائمز کے بانی چیف ایڈیٹر جناب شمس تبریز قاسمی کو ملت پرائیڈ ایوارڈ

ملت ٹائمز کے بانی چیف ایڈیٹر جناب شمس تبریز قاسمی کو ملت…

Eastern

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم

ٹریل بلیزر: فکر، ایمان و سائنس کا سنگم از____ محمد توقیر رحمانی…

Eastern