مائی لارڈ! شکریہ، پر آنسو میں ڈبڈباتی آنکھیں اور بلکتے بچے یہی تو کہتے تھے
طہ جون پوری
05 اگست 204
بلڈوزر کلچر پر آج عدالت عظمی میں شنوائی ہونی تھی۔ نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں کہ شاید عدالت عظمیٰ اس پر ایکشن لے اور ججز حضرات اپنے فیصلے میں اس کلچر پر پابندی لگائیں۔ کیوں کہ لے دے کر، یہی ایک آسرا بچا ہوا ہے، اگر چہ بابری مسجد کا مقدمہ اپنے آپ میں ایک سبق ہے۔
سبھی کو یاد ہوگا، کہ دہلی کے جہانگیر پوری میں 2002 میں فرقہ وارانہ فساد کے بعد، ڈیمولیشن ڈرائیور کے نام پر بلڈوزر کا سہارا لیا گیا اور مسلمانوں کے سر سے چھت چھین لی گئی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ راجستھان کا نوح ہو، یا اترپردیش کا الہ آباد، جہاں جاوید کا مکان لمحوں میں ڈھا دیا گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں مدھیہ پردیش میں حاجی شہزاد کی اندازاً بیس کروڑ کی کوٹھی ہو، یا اتر پردیش میں ایک مسلم کا کروڑوں کا زیر تعمیر شاپنگ کمپلیکس ہو، سب کو تہس نہس کردیا گیا۔ آسام، اتراکھنڈ، ہریانہ گجرات، مہاراشٹر میں بس ایک انداز، کہ مجرم بناؤ، غیر قانونی قبضہ ہے، اور پھر گھروں کو، دکانوں کو بلڈوز کردیا گیا۔ آپ سوچیں اس درمیان اربوں روپیہ کی مسلم پراپرٹی کو دھول اور مٹی بنا دیا گیا۔ اور ان کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔ اور پھر جو چہرے مسکراتے تھے، وہ لمحوں میں دھول سے اَٹ گئے۔
آج عدالت عظمی کی بنچ (جسٹس گوائ) نے یہ بات کہی ہے:
How can a house be demolished just because he is accused? It can’t be demolished even if he’s convict..” Justice Gavai said
ایک گھر کو کیسے گرایا جاسکتا ہے، محض اس بنیاد پر کہ وہ ایک ملزم ہے۔ مزید اگر وہ (جرم ثابت ہوگیا ہو) مجرم ہو، تو بھی نہیں گرایا جاسکتا۔
یہ بات عدالت عظمیٰ نے آج کہی ہے، لیکن یہی بات اس ملک کا مسلمان اور برادران وطن کا ایک طبقہ کہتا چلا آرہا تھا، کہ یہ چیز سراسر غلط ہے اور عدالت عظمی سے درخواست کر رہا تھا، کہ عدالت از خود نوٹس لے۔ خیر، عدالت عظمیٰ کی بنچ کے اس جملے سے، یہ بات صاف ہوجاتی ہے، کہ بلڈوزر کلچر، کسی بھی حال میں ٹھیک نہیں۔ یہ معاملہ اگر چہ اگلے دوہفتے تک ملتوی کردیا گیا ہے، لیکن اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے، کہ اب اس پر پابندی لگنا چاہیے۔ بلکہ عدالت کو، سرکاری خزانے سے معاوضہ دلوانا چاہیے۔ اور جتنے لوگ اس میں ملوث رہے ہیں، ان کے جیب سے بھاری معاوضہ وصول کرنا چاہیے۔
ہمیں بہر حال امید ہے، کہ عدالت عظمیٰ صرف اسی پر روک نہیں لگائے گی، بلکہ اس سلسلے میں سخت حفاظتی قانون بنائے گی، جس سے کسی بھی ہندوستانی کا رہائشی حق، نہیں چھینا جائے گا اور اس کی دولت و معیشت کو تباہ نہیں کیا جائے گا۔ بالخصوص اقلیتوں، مسلمانوں کے حوالے سے، کیوں کہ اب تک اگر کہ لیا جائے، تو انھیں کو سب کچھ جھیلنا پڑا ہے۔ ہمیں عدالت عظمیٰ کے اس تبصرے سے خوشی ضرور ہوئی ہے۔ ہم مزید خیر کی امید کرتے ہیں۔ خدا کرے اس ملک کے لیے اور ملک کے مسلمانوں کے لیے سب خیر ہو۔