جشن یوم آزادی اور ہماری ذمہ داریاں

Eastern
Eastern 7 Min Read 1 View
7 Min Read

از قلم: محمد سلمان پورنوی 

(مضمون نگار مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈریسرچ سینٹر ممبئی میں ڈپلومہ ان انگلش لینگویج اینڈ لٹریچرکے سال دوم کے طالب علم ہیں)

ہر سال کی طرح اس سال بھی 15/ اگست کوماضی کی عظیم حصولیابی کو ذہن میں رکھ کر،  ایکتائیت واتحاد کے پیغام کے ساتھ ہم تمام اہل وطن مل جل کر رنگ برنگ ترنگا کے نیچے 77 ویں یوم آزادی کا جشن منائیں گے۔اس موقع پر لازمی طورپر ہمارے ذہن میں سوال جنم لیتاہے کہ  کیا ہمیں معلوم ہے کہ یہ آزادی کا پروانہ ہمیں کیسے ملا، ہمارے آباؤ اجداد نے کس طرح یہ آزادی حاصل کی؟ اور اب اس آزادی کو بر قرار رکھنے کے لیے ہمیں کیا کیا کرنے کی ضرورت ہے ؟ یہی موقع ہے جس میں ہم اپنے آباء اجدادکی قربانیوں کو یادکریں اور جن عزام اوراغراض مقاصد کے ساتھ انہوں  نے عظیم قربانیاں دیکر یہ آزادی حاصل کی  ، اس آزادی کے معنی اور مقاصد کو پوراکرنے  اور برقرار رکھنے کے لئے ہم کیا کررہے ہیں   اس  کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

آج سے ڈھائی سو برس قبل جب انگریزوں نے ہمارے ملک ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرناشروع کیا تھا اور 1750 تک سونے کی چڑیا کے جانے والا یہ ملک ایسٹ انڈیا کمپنی کا غلام بن چکا تھا، تبھی بنگال کے نواب سراج الدولہ کو اندازاہ ہو گیا تھا کہ یہ شاطر انگریز اس ملک میں تجارت کرنے کے لے نہیں، بلکہ اس دیش کو لوٹنے اور اس کو غلامی کا طوق پہنانے کے لیے آئے ہیں، اس وجہ سے نواب سراج الدولہ 50 ہزار فوجوں کے ساتھ انگریزوں کے خلاف پلاسی کے جنگ میں کود پڑے، گرچہ اس میں اپنوں کی غداری کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی۔ لیکن یہ جنگ ہندوستان کی تاریخ کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، جب نواب سراج الدولہ نے تمام دیش واسیوں کے دلوں میں آزادی کی چنگاری کو بھڑ کا کر جام شہادت نوش فرمائی۔ اس کے بعد ملک کے طول و عرض میں بسنے والے اہل دانش کی آنکھیں کھلیں اور سب نے ملک کے مختلفت گوشوں میں علم بغاوت بلند کیا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ اس وقت انگریزوں کے خلاف آواز اٹھانے کا مطلب اپنے سروں پر کفن باندھنے کے مترادف تھا۔ لیکن اس کے باوجود اپنی جان سے زیادہ اس ملک سے محبت رکھنے والے لاکھوں لوگ اور ہزاروں علماء کرام اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر انگریزوں کے خلاف میدان کارزار میں نکل پڑے۔ پھر اس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے کبھی مالٹا کی جیل تو کبھی کالا پانی میں سالوں تک ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کی۔ کبھی ابنائے وطن کو عروس حریت سے ہمکنار کرنے کے لیے خوشی بخوشی پھانسی کے پھندے پر چڑھ گئے اور کبھی دیش واسیوں کو احساسی غلامی سے نکالنے کے لیے جان نثاری و سر فروشی کی ایسی مثالیں قائم کی کہ جن کی نظیر اس ہندوستان کی دھڑتی پر شاید کبھی دیکھنے کو ملی ہو۔ اس منظر کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا۔ ؎

اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی

 نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا

گرچہ یہ بات کڑوی ہے لیکن حقیقت ہے اور تاریخ کے صفحات میں موجود ہے کہ ۱۹۰۰ ویں صدی تک انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی میں صف اول میں نظر آنے والے یہی فرقہ پوش اور ہمارے اسلاف واکابر تھے۔ لیکن جوں جوں کا رواں آگے بڑھتا گیا قافلے بنتے گئے، ہر طبقے کمیونٹی کے لوگ آزادی کے اس طویل جدوجہد میں حصہ لیتے گئے اور قربانی اور سرفروشی کی  عظیم مثال پیش کرتے چلے گئے تا آنکہ آزادی کے متوالے موہن داس کرم چند گاندھی، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی، سبھاش چند بوس، مولانا حسین احمد مدنی، بھگت سنگھ اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے رہنماؤں کا وقت آیا اور انکی قیادت میں ملک کے طول وعرض میں  ملک کی آزادی کے لیے قربانیوں سلسلہ جاری رہا،  تب جا کرمل آزاد ہوا اور ہمیں  اس آزاد ملک میں  آزادی کی سانس لینا نصیب ہوئی۔

15 اگست کا دن ہندوستان کی تاریخ کا ایک سنہر ا دن ہے، اسی دن بےپناہ قربانیوں کے بعد مکمل آزادی پروانہ  ملا، اس موقع پر ان مجاہدین آزادی  کی خدمات کو یاد کرنا ہمارااخلاقی فریضہ ہے جواس ملک کی آزادی کے لئے ذات بات رنگ و نسل ، مذهب و دھرم کے بھید بھاؤ کومٹاکر، ایک دوسرے سے گلے ملکر انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوئے اور ہندو مسلم ایکتا و اکھنڈتا کی ایسی مثال قائم کی کہ انگریز جیسے ظالم و جابر حکومت کو یہاں سے بھاگنا پڑا اور 1947 کو مطلع مشرق سے آزادی کا آفتاب طلوع ہوا، جس نے یہاں کے باشندوں کے دامن کو خوشیوں سے بھر دیا۔

آج کا دن ہم سب کو یہی  یہ یاد دلاتا ہے کہ اے ہندوستان کے باشندوں آپس میں متحد رہو، نفرت کی سوداگری کو ہو امت دو، مل جل کر اس کے گیسوے برہم کو سنواروں ، پیارو محبت کی دیپ جلا کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں لگ جاؤ۔  ور نہ یاد رکھو! اگر تم نے ان باتوں کو فراموش کر دیا، تو دوبارہ غلامی کے خوفناک غار میں ڈھکیل دیے جاؤ گے ، ایک ساتھ نہیں رہو گے ، تو ایک ساتھ مٹادیئے جاؤ گے۔

 لہذا ضرورت ہے کہ جشن آزادی مناتے ہوئے  یہ عہد کریں کہ ہم سب مل جل کر رہیں گے ، آپس میں پیار و محبت کو باٹیں گے اور اپنے ان سپوتوں کی روح کو ٹھنڈک پہونچائیں گے جنہوں نے ہمارے اس ملک کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دی اور ہمیں آزادی کا پروانہ دلایا۔                    ؎

لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے

 اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

https://urdu.easterncrescent.net/tahreeke-reshmi-rumal/

Share This Article
Leave a comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں محمد توقیر رحمانی اسلام

Eastern Eastern

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے محمد توقیر

Eastern Eastern

والد محترم اور نماز کے لیے تنبیہ و سختی

والد محترم اور نماز کے لیے تنبیہ و سختی از: طہ جون

Eastern Eastern

رمضان میں بقیہ گیارہ مہینوں کے معمولات سے باہر آئیں!

  مدثر احمد قاسمی مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔

Eastern Eastern

آئیے اس رمضان کو احساس کی بیداری کا ذریعہ بنالیں!

    مدثر احمد قاسمی مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر

Eastern Eastern

روزے کی خوشی!

مدثر احمد قاسمی مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔ محنت

Eastern Eastern

Quick LInks

مسلمانوں کی پستی اور عروج کے ممکنہ اسباب

مسلمانوں کی پستی اور عروج کے ممکنہ اسباب ازــــ مفتی جنید احمد

Eastern Eastern

قد آورمسلم لیڈربابا صدیقی کا بہیمانہ قتل افسوسناک، مجرمین کو عبرتناک سزا دی جائے: مولانا بدرالدین اجمل

قد آورمسلم لیڈربابا صدیقی کا بہیمانہ قتل افسوسناک، مجرمین کو عبرتناک سزا

Eastern Eastern

مولانا بدر الدین اجمل کو دنیا کے 500 با اثر مسلمانوں کی فہرست میں لگاتار سولہویں مرتبہ شامل کئے جانے پر مبارکباد

مولانا بدر الدین اجمل کو دنیا کے 500 با اثر مسلمانوں کی

Eastern Eastern