مدارس میں عصری تعلیم کے موضوع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جاری اجلاس کے موقعے پر احساسات
محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
1. ملک میں مسلمانوں کے دین اور تشخص کی بقاء کا واحد ذریعہ اسلامی تعلیمات ہیں جن کے لئے مسلمانوں نے اپنی گاڑھی کمائی خرچ کرکے مدارسِ اسلامیہ کو قائم کیا ہے. یہ مدارس سرکار کے مالی تعاون کے بغیر محض مسلمانوں کے چندوں سے جاری ہیں.
2. یہ بات بہت واضح رہنی چاہیے کہ اسلام اور علماءِ اسلام عصری تعلیم کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس کی تعلیم کے بعد عصری تعلیم گاہوں سے تحصیلِ علم کو وہ افضل قرار دیتے ہیں. اس بارے میں بانیِ دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی نصیحت اور ترغیب بہت مشہور ہے.
3. مدارسِ اسلامیہ میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلم بچوں کی صرف 3-4 فیصد تعداد تعلیم حاصل کرتی ہے. مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد دینی تعلیم فراہم کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کی دینی رہنمائی کی ضرورت پوری ہوسکے. لہذا مدارس میں کسی ایسے تعلیمی نظام کا اضافہ نہیں کیا جانا چاہیے جو مقصدِ قیام کو متأثر کردے اور بالآخر مسلمانوں کی دینی رہنمائی کو نقصان پہنچائے.
4. مدارس اسلامیہ بنیادی طور پر اسلامی علوم کے ادارے ہیں مگر ان میں حسبِ ضرورت عصری تعلیم بھی دی جانی چاہیے. البتہ عصری تعلیم کی شمولیت اسی حد تک رہنی چاہیے جو اولین اور بنیادی مقصد کو زک نہ پہنچائے.
5. محدود وقت میں دینی اور عصری دونوں تعلیم کی بڑی آمیزش دونوں تعلیم کے لئے سخت نقصان دہ ہے کیونکہ یہ دونوں تعلیم کو سخت ناقص بنادیتی ہے اور یہ بالخصوص موجودہ وقت کے رجحان کے خلاف بھی ہے جو اسپیشلائزیشن کو سب سے زیادہ اہمیت وفوقیت دیتا ہے.
6. دینی اور عصری دونوں طرح کی تعلیم کی بھاری آمیزش پر قدیم زمانے سے متعدد تجربات ہمارے سامنے موجود ہیں. دینی وعصری تعلیم کے بڑے امتزاج پر مشتمل نصابِ تعلیم والے مدارس جو ملک میں طویل عرصے سے جاری ہیں اور جن کو سرکاری مالی تعاون بھی حاصل ہے، ان کے مشترک نصابِ تعلیم سے ملتِ اسلامیہ کی دینی رہنمائی کی ضرورت پوری کرنے والے علماء تیار نہیں ہوتے ہیں بلکہ دینی رہنمائی کی ضرورت پوری کرنے والے علماء غریب مسلمانوں کے چندوں سے چلنے والے ان مدارس سے ہی تیار ہوتے ہیں جو اسپیشلائزیشن (Specialization) والے مدرسے ہیں یعنی جہاں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کی آمیزش بہت زیادہ نہیں ہے.
7. مدارسِ اسلامیہ میں نصابِ تعلیم میں تبدیلیاں ہوتی رہنی چاہیے مگر وہ تبدیلیاں ایسی نوعیت کی ہونی چاہیے جو ان مدارس کے مقصدِ قیام اور دینی تعلیم کو مزید مضبوط کرسکے تاکہ ان مدارس کو اپنے خون پسینے سے چلانے والے مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی کی ضرورت زیادہ بہتر طریقے سے پوری ہوسکے.
8. زمانے کے تقاضے کے پیشِ نظر بقدرِ ضرورت عصری تعلیم کا امتزاج بھی مدارس کے نصاب میں ضرور ہونا چاہیے مگر عصری تعلیم کے امتزاج کی مقدار اور کیفیت کا اختیار ان اہلِ علم کے پاس ہونا چاہیے جو مدارس اور ان کے نصاب سے عملاً مربوط ہیں اور وسیع تجربات رکھتے ہیں.
9. مدارسِ دینیہ کے فیض یافتگان عصری تعلیم کی اہمیت اور قدر وقیمت کے منکر اور اس سے غافل کبھی نہیں رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جناب سر سید مرحوم نے مدرسے کی چٹائی پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے اور عصری علوم میں مہارت نہ رکھنے کے باوجود عصری تعلیم کے میدان میں عظیم خدمات انجام دی ہے جس کی گواہ خود علی گڑھ کی عظیم الشان مسلم یونیورسٹی ہے جس کا علمی فیضان پوری دنیا میں جاری ہے. آج بھی ان مدارسِ دینیہ کے متعدد فارغین ملک میں عصری تعلیم کے بڑے بڑے ادارے قائم کررہے ہیں، میڈیکل کالجز، انجنئرنگ کالجز اور لاء کالجز چلارہے ہیں اور عصری تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں. ان میں قابلِ ذکر نام جناب مولانا غلام محمد وستانوی مظاہری، جناب مولانا بدر الدین اجمل قاسمی اور جناب مولانا محمد ولی رحمانی قاسمی رحمہ اللہ وغیرہم ہیں.
10. ضرورت ہے کہ موجودہ وقت کے شدید تقاضے کے پیشِ نظر مدارسِ اسلامیہ میں حسبِ ضرورت عصری تعلیم کو شامل کرنے کے لئے ایک جامع کمیٹی تشکیل دی جائے جس کے تحت متعدد نشستیں ہوں اور ملک کے بڑے مدارس دار العلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، مظاہر علوم، مدرسہ شاہی مراداباد وغیرہ کی سرپرستی اور نگرانی میں یہ اہم اور نازک کام انجام پائے کیونکہ ملک کے بیشتر مدارس ان ہی مدارس کے مطابق اپنا نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم رکھتے ہیں. ان بڑے مدارس کے ذمہ داران اکابر علماء ہی اس کام کو بحسن وخوبی انجام دے سکتے ہیں اور اس میدان میں ان ہی کی آواز مؤثر، کامیاب اور نفع بخش ہوگی ان شاء اللہ.
(تجزیہ نگار مفتى محمد عبید الله قاسمی دار العلوم دیو بند کے شعبہ انگریزی کے سابق استاذ اور فی الحال دہلی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ذاکر حسین کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)