آئیے! عید الاضحی کو سمجھ کر منائیں
مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب کے مستقل کالم نگار اور الغزالی انٹر نیشنل اسکول، ارریہ کے ڈائریکٹر ہیں۔
اسلام میں جتنے بھی احکامات ہیں ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے واضح اور صاف ہدایات موجود ہیں۔اس وجہ سے بھی اسلام کو آسان دین کہاجاتا ہے۔ مگر یہ آسانی ہمارے لیئے اس وقت مشکل چیز بن جاتی ہے جب ہم کسی بھی شرعی عمل سے متعلق ہدایات اور ترتیب سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ ہم مزید خطرے میں اس وقت پڑ جاتے ہیں جب من مانی طریقے سے شرعی عمل کو انجام دینے لگتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ شریعت کے ایسے اعمال جو روز مرہ کی زندگی میں ضروری ہیں، ان سے ہم میں سے اکثر لوگ کسی نہ کسی درجے میں واقف ہوتے ہیں لیکن ایسے اعمال جو ہمیشہ انجام دہی کے لیئے نہیں ہوتے بلکہ کچھ خاص مواقع پر ضروری ہوتے ہیں جیسے جنازہ و عیدین کی نماز اور قربانی وغیرہ، ان کے طریقے اور مسائل سے عوام الناس میں سے ایک بڑی تعداد ناواقف ہوتی ہے۔ چونکہ اس وقت ہمارے سامنے عیدالاضحی ہے اس وجہ سے زیر نظر مضمون میں ہم اس کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں تاکہ ہم شرح صدر کے ساتھ بہتر ڈھنگ سے ایک مثالی بقرعید منا ئیں جو ہر ایک کے لیئے خوشی کی وجہ بن جائے۔
بقرعید کے دن ہمارا سب سے پہلا اور اہم عمل دو رکعت عید الاضحی کی نماز ہے۔ اس عید الاضحی کی نماز سے پہلے کچھ سنت اعمال ہیں جن کا ہم سب کو ضرور اہتمام کرنا چاہئے۔ وہ اعمال یہ ہیں: (1) صبح جلدی اُٹھنا (2) مسواک (یا برش) سے دانت صاف کرنا (3) غسل کرنا (4) موجود کپڑوں میں سے بہترین کپڑا پہننا (5) عطر لگانا (6) بقرعید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا، اور (7) بقرعید کی نماز کے لئے جاتے ہوئے تکبیر تشریق بلند آواز سے پڑھنا۔
چونکہ عید و بقرعید کی نماز کا طریقہ دیگر نمازوں سے کچھ الگ ہے اس وجہ سے اس کا طریقہ بھی ہمیں قبل از وقت ذہن نشیں کر لینا چاہئے تاکہ بغل والے کو کنکھیوں سے دیکھ کر دوگانہ ادا کرنے کی وجہ سے ہماری نماز کی روحانیت نہ چلی جائے اور ہم ایک مضحکہ خیز صورتِ حال سے دوچار نہ ہوجائیں۔ اسی لئے آئیے ہم بقرعید کی نماز کا طریقہ ملاحظہ کرتے ہیں:
امام تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے، پھر ہاتھ اُٹھا کرتین تکبیریں کہے، تیسری زائد تکبیر کے بعد ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لیں، مقتدی حضرات بھی امام کی اتباع کریں، پھر امام تعوذ تسمیہ کے بعد جہراً قرأت کرے۔ قرأت کے بعد حسبِ معمول رکوع و سجود کئے جائیں، پھر دوسری رکعت شروع ہوگی۔ امام قرأت کرے، قرأت کے بعد امام تین مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر تکبیریں کہے، مقتدی بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کریں اور چوتھی مرتبہ امام ہاتھ اُٹھائے بغیر تکبیر رکوع کہے تو مقتدی بھی ایسا کریں، اس طرح دو رکعت نماز مکمل کی جائے گی۔ نماز مکمل ہوجانے کے بعد فوراً اُٹھ کر نہ جائیں بلکہ خطبہ سننے کیلئے بیٹھے رہیں کیونکہ عیدین کا خطبہ سننا واجب ہے۔
بقرعید کی نماز کے بعد اس دن کا سب سے اہم عمل قربانی ہے۔ قربانی کے تعلق سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ، یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام ؓنے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺاس کا ثواب کیا ہوتا ہے؟ ارشاد ہوا: قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔ (ابن ماجہ)
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم کمالِ اہتمام کے ساتھ قربانی کریں اور قربانی کرتے وقت تمام آداب و شرائط کا لحاظ رکھیں اور بطور خاص اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ قربانی کے جانور کو کم سے کم تکلیف پہنچے۔ اسی طریقے سے ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کا بھی ہمیں دھیان رکھنا ہے کہ اُنہیں ہمارے کسی عمل سے تکلیف نہ پہنچے کیونکہ کسی کو تکلیف پہنچانا قربانی کی روح کے منافی ہے۔ صفائی ستھرائی پرخاص توجہ دینے کے ساتھ قربانی کے تعلق سے حکومتی گائیڈ لائن پر بھی ہم ضرور عمل کریں اور کھلی جگہ میں قربانی نہ کریں۔
قربانی کرنے کے بعد ایک اہم مرحلہ گوشت کی تقسیم کا ہے۔ اس حوالے سے شریعت مطہرہ نے یہ ہدایت دی ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے: ایک حصہ غرباء و مساکین کے لئے؛ ایک حصہ رشتہ دار و احباب کے لئے اور ایک حصہ خود کے لئے۔ اس تقسیم کو اگرچہ شریعتِ اسلامیہ نے لازم نہیں قرار دیا ہے لیکن اس تقسیم سے شریعتِ اسلامیہ کے خوشی بانٹنے کے تصور کو تقویت ملتی ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر شریعتِ اسلامیہ نے یہ کہا ہے کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم بھائیوں کو بھی دیا جاسکتا ہے چنانچہ جو برادران وطن گوشت خور ہیں ہم اُن تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
ہمیں یہ ضرور سمجھنا چاہیئے کہ قربانی شعائر اسلام میں سے ہے اس وجہ سے اس کا کوئی متبادل نہیں ہے؛ لہٰذا ہر وہ شخص جس پر قربانی واجب ہے وہ قربانی ضرورکرے اور اگر استطاعت ہے تو اپنے والدین، رشتہ دار، حضور ﷺ اور دیگر افراد کی طرف سے نفلی قربانی بھی پیش کرے۔
قر بانی کے حوالے سے ایک عام غفلت ہمارے معاشرے میں یہ پائی جاتی ہے کہ اکثر مرد حضرات اپنی قربانی تو ادا کر دیتے ہیں لیکن گھر کی عورتوں کی طرف سے یہ اہتمام نہیں پایا جاتا؛ حالانکہ بہت سی خواتین صرف زیورات کی وجہ سے ہی صاحب نصاب ہوجاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے، اس وجہ سے اس جانب بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ بقرعید اور قربانی کے تعلق سے اگر ہم مذکورہ شرعی احکامات اور ہدایات پر عمل پیرا ہونگے تو ہمارا یہ تہوار صرف علامتی نہیں ہوگا بلکہ دنیا جہان والوں کو قربانی کی روح اور جذبہ کو سمجھانے کا ایک بہترین موقع بھی ہوگا۔