قربانی سے معیشت کو مضبوطی کیسے اور ایک غریب کو کیا ملتا ہے؟
از: محمد برہان الدین قاسمی، ممبئی
١. قربانی کے ایام میں لاکھوں کروڑوں کے جانور فروخت ہوتے ہیں، پیسہ لیکوڈی ٹی کی شکل میں بازار اور عوام میں واپس آتا ہے، جس سے معیشت کو بہت بڑا فائدہ ہوتا ہے.
٢. جانوروں کی خرید و فروخت میں سرکار کو ٹیکس دیا جاتا ہے جس سے بلا واسطہ معیشت کی مدد ہوتی ہے.
٣. غریب کسان سال بھر جانور پالتا ہے قربانی کے موقع پر اچھی قیمت میں فروخت کرتا ہے جس سے اس کے خاندان کو مدد ملتی ہے.
٤. جانوروں کے خوراک، ٹرانسپورٹیشن اور دوسرے انتظامات کے ذریعہ غریب عوام کو معاش کے حصول میں مدد ملتی ہے.
٥. اسلام نے قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دو حصے کو دوسروں کو دینے کا حکم دیا ہے، جس میں سے ایک حصہ غریبوں کے لیے مخصوص ہے، اس طرح عید میں غریبوں کے گھر بھی خوشی کو یقینی بنایا ہے۔
٦. قربانی کے بعد جانوروں کے باقیات مثلاً چمڑے، ہڈی و غیرہ جدید انڈسٹری میں متعدد شکل میں کام آتے ہیں جس سے معیشت کا نظام چلتا ہے اور حکومت سے لیکر عوام سب اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
٧. کچھ جانوروں کی پیداوار کا زیادہ ہونا اور کچھ کا کم، یہ قدرت کا نظام حیات اور ایکولوجیکل ارڈر کا حصہ ہے. پالتو جانور (گھاس کھانے والے) کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دوسرے جانوروں، بشمول انسان کے خوراک کے لیےبنایا ہے۔ اس نظام فطرت کی خلاف ورزی کی صورت میں ڈیموگرافک اور انوائرنمینٹل مسائل پیدا ہوتے ہیں جو سائنسی طور پر ثابت ہوچکا ہے. لہٰذا قربانی کے ایام میں کچھ جانوروں کو قربان کرنا سائنسی طور پر زمین کو انسانی آبادی کے لئے بہتر بنانے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے.
٨. اسلام، خالقِ کائنات کے احکامات کو من و عن ماننے اور عمل کرنے کا نام ہے. چنانچہ قربانی کرنا رب کائنات کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا ہر صاحب مال مسلمان پر واجب ہے.
٩. مسلمان کو یقین ہے یا ہونا چاہئے کہ رب کائنات کا کوئی بھی حکم اس کی مخلوق کے لئے کسی بھی طرح سے نقصان دہ نہیں ہوسکتا ہے چاہے اس کی حکمت اور فائدے کچھ انسانوں کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے.
١٠. اسلام ایک آفاقی اور ہمیشہ رہنے والا نظام حیات ہے، اس لئے اسلام کے کسی عمل کو کسی خاص مقام، وقت اور حالات کے تناظر میں دیکھ کر اپنی رائے قائم کرنا درست نہیں ہوگا.