بہار کے ملحقہ مدارس کو محفوظ اور مضبوط مستقبل کی تلاش

Eastern
8 Min Read
33 Views
8 Min Read

بہار کے مدارس ملحقہ کے ذمہ داران بالخصوص اساتذہ اپنی اور اپنی آئندہ نسل کی فکر کریں ، اور  برا وقت  آنے سے پہلے مدارس کی حفاظت کا انتظام کریں۔

مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

مضمون نگار مومن کانفرنس اور آل انڈیا ملی کونسل، بہار کے نائب صدر، مجلسِ شوریٰ امارت شرعیہ، پٹنہ کے رکن اور مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ،پٹنہ کے سابق پرنسپل ہیں۔

 بہار مدرسہ بورڈ   کا قیام 1922 میں عمل میں آیا ، اس وقت اس کا نام مدرسہ ایکزامینیشن بورڈ بہار رکھا گیا ،  ابھی یہ ترقی یافتہ  بورڈ  ہے اور  بہار اسٹیٹ مدرسہ  ایجوکیشن بورڈ کے نام سے  موسوم ہے  ، یہ بورڈ ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلہ میں بہت مضبوط ہے ،  اس کا نصاب تعلیم پرکشش ہے ، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی سرٹیفکیٹ کو حکومت بہار نے منظوری دی ہے ، اس کی سرٹیفکیٹ  کو  حکومت بہار نے گزٹ کے ذریعہ عصری اداروں کی سرٹیفکیٹ کے مساوی  بھی قرار دیا ہے ، یہ داخلہ اور ملازمت دونوں کے لئے منظور ھے۔

بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے بہت سے مدارس ملحق ہیں ، یہ مدارسِ ملحقہ کہلاتے ہیں ،  ان کے اساتذہ کی تنخواہ حکومت بہار ادا کرتی ہے ، پہلے مدارس ملحقہ میں  تنخواہ  بہت کم تھی ، مگر حکومت بہار نے مدارس ملحقہ کی جانب  خصوصی توجہ دی ، اور ابھی گریڈ کے مطابق  معیاری تنخواہ کی ادائیگی کی جارہی ہے۔

 مدارس ملحقہ کا تعلیمی معیار  ابتداء میں بہت بلند رہا ، ملک کی آزادی کے بعد تقریبا  4/ دہائیوں سے noتعلیمی  انحطاط  کا سلسلہ  شروع ہوا ، اور یہ بدستور جاری رہا ، اور اب تو  حالت ناگفتہ بہ ھے۔ مدارس  کی تعمیر و ترقی میں مجلس منتظمہ اور اساتذہ دونوں کا اہم رول ہوتا ہے  ، مدارس ملحقہ میں  بھی یہی نظام رائج  ہے ، افسوس کی بات ھے کہ ہم اپنے نظام کو خود بہتر نہیں بناسکے ، جس کی وجہ سے حکومت کو اس کے نظام میں مداخلت کا موقع ملتا ہے۔

  جب سے مدارس ملحقہ میں تنخواہ کا معیار بلند ہوا ، مجلس منتظمہ  کے لوگوں کی توجہ  تعلیم کی جانب سے ہٹ گئی ، اور اساتذہ کی بحالی پر ان کی  توجہ زیادہ ہوگئی ، اپنے اپنے لوگوں کو بحال کرانے کے لئے ہر کوئی مدرسہ کا صدر اور سیکریٹری بننے کا خواہشمند ہوگیا ، اس کی وجہ سے کیس اور مقدمے ہوئے ، اور افسوس کی بات ہے کہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے زیادہ تر مدارس میں بروقت  اساتذہ کی تقرری نہیں ہوپائی ، نئے نوٹیفکیشن کی وجہ سے بھی دشواری پیش آئی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدارس ملحقہ میں اساتذہ کی کمی کا اثر مدارس پر صاف نظر آنے لگا ، جہانتک اساتذہ کی بات ہے تو دانشوران یہ سمجھتے تھے کہ جب تنخواہ بڑھے گی تو یکسو ہوکر  مدارس کے اساتذہ تعلیم کی جانب توجہ دیں گے ، مگر معاملہ اس کا الٹا ہوگیا ، جب حکومت کی جانب سے تنخواہوں کی ادائیگی ہونے لگی تو اکثر مدارس کے  اساتذہ نے مجلس منتظمہ کی ماتحتی قبول کرنے سے انکار کردیا ، ہاسٹل اور مطبخ چلانے اور اس کے انتظام سے انکار کردیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر بڑے مدارس میں ہاسٹل بند ہوگئے ، مطبخ کا انتظام ختم ہوگیا،  پھر وہ مدارس جہاں بڑی تعداد میں طلبہ رہتے تھے ، اور معیاری تعلیم کا انتظام ہوتا تھا ، وہ تقریبا ختم ہوگیا ، آلا ماشاء اللہ ، آج مدارس ملحقہ پر لوگوں کو افسوس ھوتا ہے کہ کہاں چلی گئی اس کی شان اور آن بان ، اس کا ذمہ دار کون؟

اگر آپ جائزہ لیں تو مدارس کے دو حصے ہیں ، ایک  انتظام اور دوسرا تعلیم ، انتظام کا تعلق مجلس منتظمہ سے اور تعلیم کا انتظام اساتذہ سے ہے ، اس طرح دیکھا جائے تو مدارس ملحقہ کی بربادی کے یہ دونوں ہی ذمہ دار ہیں ، یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اساتذہ میں تقریباً 95/ فیصد مدارس نظامیہ کے فضلاء ہیں ، جن میں سے بڑی تعداد جید علماء کی ہے ، اس کے باوجود مدارس ملحقہ میں اس قدر تعلیمی انحطاط , یہ اساتذہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

اللہ شکر ہے کہ  حکومت  بہار کی مدارس کی جانب  اچھی نظر ہے ، اس لئے یہ  چل رہا ہے ، مگر یہ سوچنے کی بات ھے کہ نقصان کس کا ہورہا ہے ،؟ یقینا یہ تعلیمی نقصان ھے ،اور اس سے مسلم سماج کے بچوں کا ہی نقصان ہورہا ھے ، آخر ہم کیوں غور نہیں کرتے کہ ہم اپنے عمل سے مسلم سماج کے بچوں کی زندگی برباد کر رہے ہیں ، یہ مدارس کی مجلس منتظمہ اور اساتذہ دونوں کے لئے فکر کی بات ہے۔

مدارسِ ملحقہ کی مجلس منتظمہ اور اساتذہ دونوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ہیں ، کہیں یکایک  ایسا وقت نہ آجائے کہ سنبھلنے کا موقع نہ ملے ، اگر  خدا نخواستہ کچھ ہوا ، تو مجلس منتظمہ کا تو نقصان کم ہوگا ، سب سے خسارہ میں اساتذہ ہی رہیں گے ، اور وہ  دشواریوں سے زیادہ دو چار ہوں گے۔

مدارس ملحقہ کا تعلیم کی ترویج و اشاعت میں اہم رول رہا ہے ، یہ مدارس اسکول کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے  بہت غنیمت ہیں ،اس کے نصاب  میں دینی اور عصری دونوں مضامین شامل ہیں ، سرٹیفکیٹ بھی حکومت سے منظور ہے ، اس لئے تمام لوگوں کی ذمہ داری ھے کہ وہ مدارس کی جانب توجہ دیں ، مدارس کے معیار  تعلیم کو بلند کریں ، تاکہ طلبہ مدارس کو چھوڑ کر دیگر اداروں میں نہ جائیں  ، آج مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کی کمی کی وجہ یہ ھے کہ ہم نے اپنے نظام تعلیم کو مضبوط  اور پرکشش نہیں کیا ، اس لئے عام طور پر مدارس کی تعلیم کی جانب سے بے توجہی پیدا ہوگئی ھے ، اس لئے موجودہ وقت میں اس کی  سخت ضرورت ہے کہ ہم مدارسِ کے نظام  تعلیم  و تربیت میں سدھار لائیں ، اور اس کو مضبوط اور پرکشش بنائیں ، اللہ تعالیٰ صحیح فکر عطا فرمائے۔

Share This Article
Leave a Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

ممبئی میں وقف ترمیمی قانون کی مخالفت میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبودڑ کے روڈ میپ کے نفاذ کے سلسلے میں مشاورتی میٹنگ

ممبئی میں وقف ترمیمی قانون کی مخالفت میں آل انڈیا مسلم پرسنل…

Eastern

ڈیجیٹل یوآن کی خاموش طلوع اور امریکی ڈالر کی بالادستی کا زوال

ڈیجیٹل یوآن کی خاموش طلوع اور امریکی ڈالر کی بالادستی کا زوال…

Eastern

حکمت عملی کی اہمیت

حکمت عملی کی اہمیت ازـــــ محمد فہیم الدین بجنوری ہمیں سڑکوں پر…

Eastern

وقف ترمیمی بل 2025: ایک آئینی سانحہ، مگر ملی قیادت نے مایوس نہیں کیا

وقف ترمیمی بل 2025: ایک آئینی سانحہ، مگر ملی قیادت نے مایوس…

Eastern

صہیونی قابض ریاست اسرائیل معاہدہ سے مکر گئی 

صہیونی قابض ریاست اسرائیل معاہدہ سے مکر گئی  ازـــــ خورشید عالم داؤد…

Eastern

Quick LInks

ممبئی میں وقف ترمیمی قانون کی مخالفت میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبودڑ کے روڈ میپ کے نفاذ کے سلسلے میں مشاورتی میٹنگ

ممبئی میں وقف ترمیمی قانون کی مخالفت میں آل انڈیا مسلم پرسنل…

Eastern

ڈیجیٹل یوآن کی خاموش طلوع اور امریکی ڈالر کی بالادستی کا زوال

ڈیجیٹل یوآن کی خاموش طلوع اور امریکی ڈالر کی بالادستی کا زوال…

Eastern

حکمت عملی کی اہمیت

حکمت عملی کی اہمیت ازـــــ محمد فہیم الدین بجنوری ہمیں سڑکوں پر…

Eastern