اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع
(دو روزہ MOM (مرکز آن لائن مدرسہ) کانفرس میں شرکت کے بعد شہر محبت و عقیدت دیوبند سے واپسی کے موقع سے ایک تاثراتی تحریر)
✍🏻مفتی اظہارالحق بستوی
بات جب دیوبند حاضری کی ہو تو طبیعت کا مچلنا بے محل نہیں؛ کیوں کہ دیوبند ہزاروں آرزوؤں، امیدوں، تمناؤں، تاریخوں اور محبتوں کا شہر ہے۔ زندگی میں دیوبند میں گزارے گئے شب و روز کی اہمیت کسی محبوبہ کی آغوش میں گزارے ہوئے خوب صورت لمحات کی مانند یاد گار ہوتی ہے؛ چناں چہ جب بھی ان ایام کا ذکر چھڑ جائے تو سطح ذہن پر بے شمار یادیں، ان گنت چہرے اور کئی ایک مد و جزر نمو دار ہو جاتے ہیں اور دل اپنے ماضی کی سر مستیوں سے سر شار ہو جاتا ہے۔
مرکز المعارف ممبئی کے تازہ دم تاریخی اقدام "مرکز آن لائن مدرسہ” کی بے مثال افتتاحی تقریب و دو روزہ کانفرنس و سیمینار منعقدہ دیوبند مورخہ 10 و 11/ نومبر 2024 میں شرکت کی غرض سے اپنے اسکول پرلس اکیڈمی اورنگ آباد مہاراشٹر سے نو نومبر کو دیوبند حاضری ہوئی اور آج بارہ نومبر صبح کی اولین ساعتوں میں شہر آرزو و محبت کو خیر باد کہہ کر نکلنا پڑا۔
یہ دو ڈھائی دن مختلف اعتبارات سے بڑے یاد گار اور ولولہ انگیز سرگرمیوں سے عبارت رہے۔ اس موقع پر جہاں بہت سے دیرینہ رفقاء کی ملاقات و خوب صورت معیت سے بہرہ مندی نصیب ہوئی وہیں اپنے بہت سے بڑوں، کم عمر دوستوں اور ہمیں سجانے سنوارنے والے مایہ ناز اساتذہ کی ملاقات نے دلوں میں شادابی کے پھول کھلا دیے۔
مرکز المعارف کے اس دو روزہ قومی سیمینار کی روداد تو یقیناً مرکز عام کرے گا مگر اس کی مختلف نشستوں میں پیش کیے جانے والے افکار و خیالات اور مستقبل کے حوالے سے پیش کیے گئے لائحہ عمل نے بہتوں کے جذبات کو مہمیز کیا اور نہ صرف یہ ہے کہ روڈ میپ کو واضح کیا بل کہ مستقبل ہم علماء سے کیا آس لگائے ہوئے ہوئے ہے اور ہمیں ان حالات میں اقدام عمل کیسے کرنا چاہیے کو بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا۔ گویا ان دو دنوں میں ہمیں بہت سارے موضوعات اور مستقبل کی تشکیل و تعمیر کے حوالے سے ایک نئی فکر اور نئی جہت نصیب ہوئی۔
مرکز آن لائن مدرسہ سب کے لیے ایک تاریخی اقدام ہے مگر اس کی بے مثل کامیابی اور اکابر دارالعلوم دیوبند بطور خاص حضرت مہتمم صاحب و دیگر جلیل القدر علمائے ربانیین کی مبارک تائید و توثیق اور تعریف نے اس مشن پر کام کرنے والوں کی ذمہ داری کافی بڑھا دی ہے۔ اللہ سب کو اس سے بآسانی عہدہ بر آ فرمائے۔
دو روزہ پروگرام کا حرف حرف اور عمل عمل مرتب و معیاری رہا ماشاءاللہ۔ بات کھانے پینے کی ہو، استقبال و مہمان نوازی کی ہو، اکرام و محبت کی ہو، پروگرام کو سلیقے اور با مقصد طریقے سے آرگنائز کرنے اور چلانے کی ہو سب کچھ بے مثال و لاجواب تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے شعبہ انگریزی کے فرماں بردار اور عقیدت واحترام سے سر شار طلبہ نے اپنی ہمہ جہت اور بطور خاص کھلانے پلانے کی والہانہ خدمت سے تمام حاضرین کے دل جیت لیے۔ سب کے دلوں سے ان کے لیے دعائیں نکلیں۔ بل کہ ان کی سرشاری اور والہانہ پن نے ان کے تئیں لوگوں کے دلوں میں محبت کے پھول کھلا دیے۔ (یہی وہ جذبہ ہے جو اہل مدارس کو دیگر اہل دنیا سے ممتاز کرتا ہے اور استاذ کو کاد المعلم ان یکون رسولا کے مرتبے پر سرفراز کرتا ہے۔)اللہ تعالیٰ سب بچوں کو کامیابیوں سے سرفراز کرے۔ انتظامات کے ذمہ دار اساتذہ کرام نے بھی اپنی مہربانیوں اور جذبہ اکرام کے ساتھ لوگوں کا جس انداز میں خیال رکھا وہ بے مثل تھا۔
مرکز المعارف سے تعلق رکھنے والے سارے بڑوں نے ہم خردوں کے ساتھ جس محبت و اپنائیت کا معاملہ کیا اس نے زندگی کے تجربات و احساسات میں گراں قدر اضافہ کیا۔ جن سے بھی ملے ایک انوکھا احساس دل میں جا گزیں ہوا اور لگا کہ:
آج ناگاہ ہم کسی سے ملے
بعد مدت کے زندگی سے ملے
اس نئے اقدام کے فکر ساز و میر کارواں و تھنک ٹینک حضرت مولانا بدر الدین اجمل صاحب القاسمی، استاذ محترم مولانا برہان الدین صاحب قاسمی، مولانا عتیق الرحمن صاحب قاسمی، مولانا مدثر احمد صاحب قاسمی، مولانا اسلم جاوید صاحب قاسمی، مفتی جسیم الدین صاحب قاسمی، مفتی محمد اللہ صاحب قاسمی، مفتی عبد الرشید صاحب قاسمی، مفتی عبیداللہ صاحب قاسمی نیز پوری ڈرافٹنگ اور ایڈیٹوریل ٹیم بل کہ مرکز المعارف کا ہر فرد اس مبارک اقدام پر قابل مبارک باد ہے۔ یہ الید العلیا خیر من الید السفلی کی ایک واقعی مثال ہے۔
میرے مرکز کے رفقاء میں جو بھی اس پروگرام میں تشریف لائے ان کی صحبت و معیت نے اس سفر کو ایک یاد گار اور تاریخی بنا دیا۔ ہمارے مرکز المعارف کے رفقاء میں سے جلوہ گاہ و مرکز محبت کی حیثیت رکھنے والے برادرم مولانا عاطف کمال صاحب قاسمی کی معیت نے ہمیں مرکز المعارف کی گیارہ سال قبل کی وادی میں پہنچا دیا۔ سب نے اپنی اپنی کہی اور سنی اور قہقہوں اور مکالموں کے شور نے مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے صحن کے سناٹے کو تھوڑی دیر کے لیے دور کر دیا۔
بزرگوں اور اساتذہ کی زیارتوں، مزار قاسمی کی حاضری، دونوں دارالعلوموں کی دید، جامع رشید اور اطیب المساجد کی جلوہ انگیزی اور بے شمار اہل دل حضرات کی ملاقات سے دل کی سرشاری اور فکر کو جولانی نصیب ہوئی۔ مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب، مفتی انوار خان صاحب، مولانا مہدی حسن صاحب عینی، مولانا شمس تبریز قاسمی صاحب، حافظ اقبال صاحب چونا والا، مولانا طارق شمسی صاحب، مولانا خالد صاحب، مولانا عبدالملک صاحب جمعیت علمائے ہند اور مفتی عبد الرشید صاحب کان پوری، مولانا پرویز صاحب اور دیگر حضرات کو سننا بڑا خوب صورت اور بڑا قیمتی تجربہ رہا جس نے ولولوں میں نیا جوش و جذبہ پیدا کر دیا۔ مولانا ثمیرالدین صاحب قاسمی کی بالمشافہ زیارت سے بھی دل کو بڑی مسرت ہوئی۔
مجموعی طور سے خوب صورت یادوں اور یادگاروں، نئے عزائم و ولولوں کے ساتھ بے شمار محبتیں اور عقیدتیں لیے بندہ فاسٹ پیسنیجر سے واپسی کی راہ پر رواں دواں ہے۔
اللہ تعالیٰ اس سفر کو ذریعہ خیر بنائے اور مرکز المعارف کو خوب کامرانیاں عطا فرمائے۔
