مودی حکومت کا کارنامہ! سو مسلم خواتین بغیر محرم کے سفر حج پر روانہ
ہمایوں اقبال ندوی
مضمون نگار جمعیت علماء ارریہ کے نائب صدر اور تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری کے جنرل سکریٹری ہیں۔
حج کے مقدس سفر پر پہلی بار سو سے زائد خواتین دہلی سے بغیر محرم کے روانہ ہوئی ہیں، وزیر مملکت برائے خارجہ میناکشی لیکھی نے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے، اورروانگی سے قبل اپنے خطاب میں یہ کہا ہے؛
"بغیر محرم کے سفر حج پر بھیجنا وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کا حج سے متعلق قابل ستائش فیصلہ ہے،یہ حج اور معاشرے میں خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے جاری کوششوں میں ایک اہم قدم ہے۔”
پچھلے تین دنوں سے اس خبر کی خوب تشہیر کی جارہی ہے، حکومت اسے اپنی بڑی حصولیابی سمجھ رہی ہے،جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے، یہ درحقیقت خواتین کی تکریم نہیں بلکہ توہین ہے،انہیں بااختیار نہیں بنایا گیا ہے بلکہ حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، خدا انہیں سلامت رکھے، ہر مصیبت سے ان کی حفاظت فرمائے، آمین
یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ آئے دن خواتین کو بااختیار بنانے کے نام پر ان کے اختیارات سے بھی کھلواڑ کیا جارہا ہے۔اور خواتین پہلوانوں جیسا حشر تمام خواتین کا کیا جانے والا ہے۔پہلے ایک حد تک خوب واہ واہی کی جاتی ہے،انہیں دیش کی قابل فخر بیٹیاں کہ کر میدان میں تنہا اتار دیا جاتا ہے، جب ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، ان کی عصمت وعزت سے کھلواڑ کیا جاتا ہے ،تو پھرحکومت منھ موڑ لیتی ہے، ان کا درد اور ان کی چینخ تک انہیں سنائی نہیں دیتی ہے، مزے کی بات تو یہ ہےکہ کہ ادھر خواتین دہلی کے اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈہ سے بغیر محرم کے حج پر جارہی ہیں، تو وہیں دوسری طرف دہلی ہی کے جنتر منتر پر خواتین جو درد سے کراہ رہی ہیں، ان کی فکر نہیں ہے، یہ قول وفعل میں کھلا ہوا تضاد ہے۔
آج مرکزی حکومت کی موجودہ پالیسی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے خواتین کو بااختیار بنانے کے عنوان پر آگے کردیتی ہے، پھر ان کے تمام اختیارات کو سلب کرلیتی ہے، حتی کہ جمہوری ملک میں انہیں احتجاج کا بھی اختیار نہیں ہے۔
آج مسلم خواتین بھی دین کی واقفیت نہ ہونے کی وجہ کر اس کو نہیں سمجھ رہی ہیں کہ انہیں بااختیار نہیں بے اختیار بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔مذہب اسلام میں ایک خاتون کی کیا قیمت وحیثیت ہے، اس موٹی بات سے بھی ہماری بہن بیٹیاں لا علم ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہوا کہ رخ پر سفر کررہی ہیں،اور رطب ویابس میں فرق نہیں کرپاتی ہیں۔
ایک معمولی آدمی جو اسمبلی یا لوک سبھا الیکشن میں منتخب ہوجاتا ہےتواس کی قیمت بڑھ جاتی ہے، اس کے دائیں بائیں پولس کے نوجوان ہوتے ہیں، یہ ان کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں، اگر وہی شخص وزیر بن بنتا ہے تو مزید قیمتی ہوجاتا ہے، زیڈ پلس سیکیورٹی انہیں فراہم کی جاتی ہے، یہی حال اسلام میں خواتین کا ہے،خدا نے انہیں مقام خاص سے نوازا ہے،ان کے قدموں میں جنت ہے، یہ خود جنت کی چیز ہیں،ان کی ولادت کو قرآن نے بشارت سےتعبیر کیا ہے،ان کی تعلیم وتربیت پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے، پھرمرحلہ وار اور بتدریج ان کا مقام بڑھتا چلا جاتا ہے، یہ خواتین ملکہ ہیں، مذہب اسلام نےمحرم کی شکل میں خواتین کو زیڈ پلس سیکیورٹی دی ہے،یہ بہت ہی قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں جو محرم کہلاتے ہیں،یہ ایسے لوگ ہیں جن سے اس خاتون کی شادی بھی نہیں ہوسکتی ہے، ان کی عزت وعصمت کی حفاظت پر خدا کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں،خاص بات یہ ہے کہ جب ایک خاتون میکے رہتی ہے، وہاں بھی شریعت اسلامیہ نے ان کی سیکیورٹی کا خیال کیا ہے، ان کے نسبی رشتہ داروں کو اس پر مامور کیا ہے،بطور مثال باپ، دادا اور ان کا آبائی سلسلہ، چچا، ماموں وغیرہ،
اور جب سسرال آتی ہے تو سسرالی رشتہ داروں کو بھی اس کی ذمہ داری دی گئی ہے، انمیں بھی کچھ لوگ محرم ہوتے ہیں، بطور مثال خسر اور ان کا آبائی سلسلہ، شوہر کی اولاد، بیٹا، بیٹے اور بیٹی کی اولاد،اسی طرح داماد وغیرہ۔
محرم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دودھ کے رشتہ سے حرام ہوتے ہیں، یعنی رضاعی باپ، چچا، ماموں، دادا وغیرہ،یہ محرم رشتہ دار ہیں، جو ان کی حفاظت میں اپنی جان کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔یہ خدائی انتخاب ہے،یہی وجہ ہے کہ پوری عمر یہ سیکیورٹی ایک مسلم عورت کو حاصل رہتی ہے،اورکوئی ان سے چھین نہیں سکتا ہے۔
ایک آدمی جو لوگوں کے ذریعہ منتخب ہوا ہے، اگر اس کی سیکیورٹی چھین لی جائے تویہ اس کے حق میں توہین ہے، تو یہاں بھی خواتین جو خدائی قانون کے ذریعہ منتخب کی گئی ہیں، حج کے سفر پر بغیر محرم کے جارہی ہیں، یہ ان کےلئے صدمہ کی بات ہے،کہ حفاظتی انتظام نہیں ہے، یہ گھر دروازہ پر نہیں جارہی ہیں ،بلکہ ایک طویل مسافت پر گئی ہیں، ایک خاتون تین دن یا اس سے زائد کا سفر بغیر سیکیورٹی کےاسلام میں نہیں کرسکتی ہے،چہ جائے کہ یہاں حج کے اس لمبے سفر میں مکمل چلہ لگ رہا ہے، یہاں انہیں سیکیورٹی سے محروم کیا گیا ہے، یہ ان کی حق تلفی ہے۔ یہ خوشی کی بات نہیں ہے بلکہ ایک معزز مسلم خاتون کے لئے تکلیف کا سامان ہے۔محرم کا ہونا ضروری ہے،اس کے بغیر عورت کے لئے حج نہیں ہے، ایک عورت پر حج فرض ہونے کے لئے محرم رشتہ دار کا ساتھ میں ہونا ضروری ہے۔
استاد گرامی قدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی فرماتے ہیں؛خواتین کو محرم کے بغیر سفر حج سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ عبادتوں کا اصل مقصود اللہ تعالٰی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے، اور جب شریعت میں ایک بات سے منع کردیا گیا ہو تو اس کے ارتکاب کی وجہ سے بجائے ثواب کے گناہ ہی کا اندیشہ ہے،
شرعی اور فقہی نقطہ نظر سے ہٹ کر عملی طور پر بھی سفر حج میں خواتین کے ساتھ شوہر یا محرم کا ہونا نہایت ضروری محسوس ہوتا ہے، آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بار بار طبیعت خراب ہوتی ہے، مقام کی اجنبیت، ازدحام اور زبان کی عدم واقفیت کی وجہ سے خواتین کو بار بار مدد کی ضرورت پیش آتی ہے، بہت سی جگہ طویل قیام کرنا پڑتا ہے، اور بہت سی دشوار قانونی کارروائیوں سے گزرنا پڑتا ہے، ان مواقع پر محرم رشتہ دار یا شوہر کا قدم قدم پر تعاون مطلوب ہوتا ہے، (کتاب الفتاوی جلد ۴).
حج کے مقدس سفر پر پہلی بار سو سے زائد خواتین دہلی سے بغیر محرم کے روانہ ہوئی ہیں، وزیر مملکت برائے خارجہ میناکشی لیکھی نے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے، اورروانگی سے قبل اپنے خطاب میں یہ کہا ہے؛
"بغیر محرم کے سفر حج پر بھیجنا وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کا حج سے متعلق قابل ستائش فیصلہ ہے،یہ حج اور معاشرے میں خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے جاری کوششوں میں ایک اہم قدم ہے۔”
پچھلے تین دنوں سے اس خبر کی خوب تشہیر کی جارہی ہے، حکومت اسے اپنی بڑی حصولیابی سمجھ رہی ہے،جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے، یہ درحقیقت خواتین کی تکریم نہیں بلکہ توہین ہے،انہیں بااختیار نہیں بنایا گیا ہے بلکہ حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، خدا انہیں سلامت رکھے، ہر مصیبت سے ان کی حفاظت فرمائے، آمین
یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ آئے دن خواتین کو بااختیار بنانے کے نام پر ان کے اختیارات سے بھی کھلواڑ کیا جارہا ہے۔اور خواتین پہلوانوں جیسا حشر تمام خواتین کا کیا جانے والا ہے۔پہلے ایک حد تک خوب واہ واہی کی جاتی ہے،انہیں دیش کی قابل فخر بیٹیاں کہ کر میدان میں تنہا اتار دیا جاتا ہے، جب ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، ان کی عصمت وعزت سے کھلواڑ کیا جاتا ہے ،تو پھرحکومت منھ موڑ لیتی ہے، ان کا درد اور ان کی چینخ تک انہیں سنائی نہیں دیتی ہے، مزے کی بات تو یہ ہےکہ کہ ادھر خواتین دہلی کے اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈہ سے بغیر محرم کے حج پر جارہی ہیں، تو وہیں دوسری طرف دہلی ہی کے جنتر منتر پر خواتین جو درد سے کراہ رہی ہیں، ان کی فکر نہیں ہے، یہ قول وفعل میں کھلا ہوا تضاد ہے۔
آج مرکزی حکومت کی موجودہ پالیسی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے خواتین کو بااختیار بنانے کے عنوان پر آگے کردیتی ہے، پھر ان کے تمام اختیارات کو سلب کرلیتی ہے، حتی کہ جمہوری ملک میں انہیں احتجاج کا بھی اختیار نہیں ہے۔
آج مسلم خواتین بھی دین کی واقفیت نہ ہونے کی وجہ کر اس کو نہیں سمجھ رہی ہیں کہ انہیں بااختیار نہیں بے اختیار بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔مذہب اسلام میں ایک خاتون کی کیا قیمت وحیثیت ہے، اس موٹی بات سے بھی ہماری بہن بیٹیاں لا علم ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہوا کہ رخ پر سفر کررہی ہیں،اور رطب ویابس میں فرق نہیں کرپاتی ہیں۔
ایک معمولی آدمی جو اسمبلی یا لوک سبھا الیکشن میں منتخب ہوجاتا ہےتواس کی قیمت بڑھ جاتی ہے، اس کے دائیں بائیں پولس کے نوجوان ہوتے ہیں، یہ ان کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں، اگر وہی شخص وزیر بن بنتا ہے تو مزید قیمتی ہوجاتا ہے، زیڈ پلس سیکیورٹی انہیں فراہم کی جاتی ہے، یہی حال اسلام میں خواتین کا ہے،خدا نے انہیں مقام خاص سے نوازا ہے،ان کے قدموں میں جنت ہے، یہ خود جنت کی چیز ہیں،ان کی ولادت کو قرآن نے بشارت سےتعبیر کیا ہے،ان کی تعلیم وتربیت پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے، پھرمرحلہ وار اور بتدریج ان کا مقام بڑھتا چلا جاتا ہے، یہ خواتین ملکہ ہیں، مذہب اسلام نےمحرم کی شکل میں خواتین کو زیڈ پلس سیکیورٹی دی ہے،یہ بہت ہی قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں جو محرم کہلاتے ہیں،یہ ایسے لوگ ہیں جن سے اس خاتون کی شادی بھی نہیں ہوسکتی ہے، ان کی عزت وعصمت کی حفاظت پر خدا کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں،خاص بات یہ ہے کہ جب ایک خاتون میکے رہتی ہے، وہاں بھی شریعت اسلامیہ نے ان کی سیکیورٹی کا خیال کیا ہے، ان کے نسبی رشتہ داروں کو اس پر مامور کیا ہے،بطور مثال باپ، دادا اور ان کا آبائی سلسلہ، چچا، ماموں وغیرہ،
اور جب سسرال آتی ہے تو سسرالی رشتہ داروں کو بھی اس کی ذمہ داری دی گئی ہے، انمیں بھی کچھ لوگ محرم ہوتے ہیں، بطور مثال خسر اور ان کا آبائی سلسلہ، شوہر کی اولاد، بیٹا، بیٹے اور بیٹی کی اولاد،اسی طرح داماد وغیرہ۔
محرم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دودھ کے رشتہ سے حرام ہوتے ہیں، یعنی رضاعی باپ، چچا، ماموں، دادا وغیرہ،یہ محرم رشتہ دار ہیں، جو ان کی حفاظت میں اپنی جان کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔یہ خدائی انتخاب ہے،یہی وجہ ہے کہ پوری عمر یہ سیکیورٹی ایک مسلم عورت کو حاصل رہتی ہے،اورکوئی ان سے چھین نہیں سکتا ہے۔
ایک آدمی جو لوگوں کے ذریعہ منتخب ہوا ہے، اگر اس کی سیکیورٹی چھین لی جائے تویہ اس کے حق میں توہین ہے، تو یہاں بھی خواتین جو خدائی قانون کے ذریعہ منتخب کی گئی ہیں، حج کے سفر پر بغیر محرم کے جارہی ہیں، یہ ان کےلئے صدمہ کی بات ہے،کہ حفاظتی انتظام نہیں ہے، یہ گھر دروازہ پر نہیں جارہی ہیں ،بلکہ ایک طویل مسافت پر گئی ہیں، ایک خاتون تین دن یا اس سے زائد کا سفر بغیر سیکیورٹی کےاسلام میں نہیں کرسکتی ہے،چہ جائے کہ یہاں حج کے اس لمبے سفر میں مکمل چلہ لگ رہا ہے، یہاں انہیں سیکیورٹی سے محروم کیا گیا ہے، یہ ان کی حق تلفی ہے۔ یہ خوشی کی بات نہیں ہے بلکہ ایک معزز مسلم خاتون کے لئے تکلیف کا سامان ہے۔محرم کا ہونا ضروری ہے،اس کے بغیر عورت کے لئے حج نہیں ہے، ایک عورت پر حج فرض ہونے کے لئے محرم رشتہ دار کا ساتھ میں ہونا ضروری ہے۔
استاد گرامی قدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی فرماتے ہیں؛خواتین کو محرم کے بغیر سفر حج سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ عبادتوں کا اصل مقصود اللہ تعالٰی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے، اور جب شریعت میں ایک بات سے منع کردیا گیا ہو تو اس کے ارتکاب کی وجہ سے بجائے ثواب کے گناہ ہی کا اندیشہ ہے،
شرعی اور فقہی نقطہ نظر سے ہٹ کر عملی طور پر بھی سفر حج میں خواتین کے ساتھ شوہر یا محرم کا ہونا نہایت ضروری محسوس ہوتا ہے، آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بار بار طبیعت خراب ہوتی ہے، مقام کی اجنبیت، ازدحام اور زبان کی عدم واقفیت کی وجہ سے خواتین کو بار بار مدد کی ضرورت پیش آتی ہے، بہت سی جگہ طویل قیام کرنا پڑتا ہے، اور بہت سی دشوار قانونی کارروائیوں سے گزرنا پڑتا ہے، ان مواقع پر محرم رشتہ دار یا شوہر کا قدم قدم پر تعاون مطلوب ہوتا ہے، (کتاب الفتاوی جلد ۴).
مضمون میں مذکورآراء مصنف کے ہیں، ایسٹرن کریسنٹ کا ان سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔