آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کی ضرورت کیوں؟
شاہد عادل قاسمی
مضمون نگار مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ کے پرنسپل ہیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے،1937ء میں نافذ مسلم پرسنل لاء ایکٹ اپنی حالت پر قائم رہے اور مسلمانوں کے عائلی قوانین میں کسی طری کی کوئ مداخلت نہ ہو اسی پس منظر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکا قیام وجود میں آیا تھا،سیکولرزم کی سب سے بڑی مندر پارلیمنٹ میں 1972ءمیں اس وقت کے وزیر قانون ایچ آر کھوگلے کے ہاتھوں ایک بل پیش کیا گیا تھا جو "لے پالک”کے حق حقوق سے متعلق تھا،جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے یہ لازم بتایا گیا تھا کہ جتنے حقوق کے مستحق سگے بیٹے ہیں اتنے ہی حقوق کے مستحق لے پالک یعنی گود لیے بیٹے بھی ہوں گے،یہ بل یقینا مسلم پرسنل لاء ایکٹ میں مداخلت تھا،جو یکساں سول کوڈ کی جانب پہلا قدم تھا،اس قانون سے اس وقت کے ہمدردان قوم وملت میں کافی بے چینیاں اور اضطرابیاں پنپنے لگیں،مفکر ملت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی اس بل کی مخالفت میں تحریک چھیڑ دئیے، بنا بریں ہندوستان کے مقتدر اور معزز علماؤں،رہنماؤں،قانون دانوں،دانشوروں اور ملک وملت کے بہی خواہوں کو دارالعلوم دیوبند میں14′ 13 مارچ 1972ءمیں دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ نے مدعو کیا،جس میں ملک کے مایہ ناز علماءۓ کرام اور دانشوران عظام تشریف لاۓ،باہمی مشورے سے اہل فکرودانش نے ایک خاکہ مرتب کیا،شرکاۓ اجلاس نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ لیا کہ مسلم عائلی قانون کے تحفظ کی پرزور آواز چوں کہ ممبئی سے اٹھی ہے، اس لیے ممبئ ہی میں ایک نمائندہ اجلاس منعقد ہونا چاہیئے چناں چہ ،28’27 دسمبر1972ءکو نمائندہ اجلاس کے لیے سرزمین ممبئی کا انتخاب عمل میں آیا،جس میں مسلمانوں کے سبھی جماعتوں،مسلکوں،مشربوں اور فرقوں کے رہ نما لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوۓ،جس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے باقاعدہ اور باضابطہ قیام اور تاسیس کا ایجنڈا پیش کیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ "حیدرآباد”م میں 7/اپریل 1973ء کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا،حسب اعلان بورڈ کا قیام متعینہ تاریخ میں پایہ تکمیل کو پہنچا، جن کے اولین صدر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اور جنرل سکریٹری حضرت مولانا سید محمد منت اللہ رحمانی نوراللہ مرقدہ منتخب ہوۓ۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے قیام کے روز اول سے ہی ہندوستانی مسلمانوں کو عائلی قوانین پر اتحادواتفاق کے پلیٹ فارم سے مربوط رکھا ہے،ہندوستانی مسلمانوں کے دل ودماغ میں عائلی قانوں کے تئیں مخلصانہ جذبات اور احساس تحفظ سے متعلق بیداری کی مہم کو زندہ جاوید رکھا ہے،شرعی ایکٹ کے نفاذ اور قیام کی فکر کے لیے بورڈ نے ہمیشہ مؤثر اقدامات کئے ہیں،متوازی قانون سازی جس کا ٹکراؤ یا جس کی مداخلت قانون شریعت میں ہوئ ہو خواہ وہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ اس پر بورڈ نے قدغن لگانے کی بھر پور کامیاب سعی ہے کم از کم مسلمانوں کو ایسے قانون سے مستثنٰی ضرور رکھا گیا ہے،مسلمانوں کے معاشرتی اور عائلی زندگی سے متعلق شرعی آداب واحکام،فرائض وحقوق اور حدود واختیارات سے روسناش بھی وقتا فوقتا کرایا ہے،شریعت اسلامی کے عائلی قوانین کی اشاعت وترویج پر ان کے نفاذ کے لیے جامع خاکہ تیار کرکے مسلم پرسنل لاء کی تحفظ کی تحریک کے لیے بہ وقت ضرورت مجلس عمل کی تشکیل بھی ہوتی رہی ہے،قانون کے ماہرین اور مقتدر علماؤں پر مشتمل کمیٹی کے ذریعہ پارلیمنٹ،اسمبلیاں،مرکزی اور صوبائی نشستوں،سرکاری،نیم سرکاری اداروں میں پیش کردہ بل،قانون،آرڈیننس یا ایسے احکام جو شرعی قانون کے مزاج مخالف ہوں اس پر بورڈ نے ہمیشہ حکومتوں،اداروں اور عدالتوں کو آئینہ دکھانے کا فریضہ انجام دیا ہے،یہی وجہ ہے کہ ۱۹۷۵ءکے بعد ۱۹۸۰ءمیں جب دوبارہ لے پالک بل کو لایا گیا تو آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کی تحریک پر حکومت کو مسلمانوں کو اس قانون سے مستثنٰی رکھنے پر مجبور ہونا پڑا، اسی طرح ۱۹۷۵ءمیں جب جبرا نس بندی اور ایمرجنسی کا قانون بنایا گیا تو آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس پر حرمت کا فتوی صادر کرکے اس کو واپس کروایا،اسی طرح الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ "مذہبی مقامات کی زمین پر مفاد عامہ کےلیے قبضہ کیا جاسکتاہے” پر بورڈ نے اپنا احتجاج درج کرایا جس سے متعلقہ عدالت کو اپنے فیصلے سے رجوع ہونا پڑا،اسی طرح حکومت کا فیصلہ "نکاح کے لیے رجسٹریشن لازمی ہوگا”پر بورڈ نے” ماڈل نکاح "پیش کرکے حکومت کو اپنی رجسٹریشن لازمیت والے قانون سے پیچھے ہٹنا پڑا،اس کے علاوہ بورڈ کے ان گنت کارنامے ہیں،ہمیشہ بورڈ نے خیرخواہی اور ملی وملکی مفاد کے لیے گراں قدر خدمات انجام دئیے ہیں۔
قادیانیوں کے علاوہ تمام اسلامی ،ملی اور فقہی مسلکوں اور فرقوں کے مابین خیر سگالی اور باہمی اشتراک وتعاون کا جذبہ پر شباب رہاہے، مختلف مسلک ومشرب پر مشترکہ اس تنظیم نے اپنی اہمیت،افادیت،معنویت اور قیادت سے ہمیشہ مسلمانوں کو تقویت بخشا ہے،حکومت سے تصادم اور ٹکراؤ کے بجاۓ سنجیدگی اور متانت سے متنازع اور مختلف مسئلے کی حل کے راستے کو وا کیا ہے، حالیہ دنوں بابری مسجد سے متعلق مقدمے کی فریق بن کر بورڈ نے اپنے فریضے کو انجام دیا اور مقدمے میں شکست کھانے کے باوجود ملک وملت کو امن وشانتی اور صبر وتحمل کا پیغام دیا،غرض کہ بورڈ نے ملک وملت دونوں کی آبیاری اور تشخص کی برقراری کے لیے ہر ممکن کوشش کیا ہے،آج بھی بورڈ اپنے سابقہ روایت کی پاس داری میں مدھیہ پردیش کے مشہور شہر اندور” میں سرجوڑ کر بیٹھا ہوا ہے،ملک کے مختلف گوشے اور خطے سے معزز علماۓکرام اور دانشوران قوم و ملت اکٹھا ہوۓ ہیں،آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ نے اب تک چار صدور ملک کو عطاکیا ہے اولین صدر خطیب الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ علیہ مہتمم دارالعلوم دیوبند ہیں، جن کی میعاد ۱۹۷۳ء سے ۱۹۸۳ء ہے،آپ کے وفات کے بعد سینکڑوں کتابوں کے مصنف عالم اسلام کی معروف شخصیت حضرت مولانا سید محمد ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ علیہ ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ہیں جو ۱۹۸۳ءسے ۱۹۹۹ءکے اخیر تک رہے،آپ کے وصال کے بعد بہت کم بل کہ مختصر وقتی صدر عالم اسلام کے معروف عالم دین حضرت مولانا قاضی محمد مجاہدالاسلام قاسمی رحمتہ اللہ علیہ قاضی شریعت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ رہے جو ۲۰۰۰ءسے ۲۰۰۲تک اس منصب جلیلہ پر رہتے ہوۓ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے،آپ کی وفات کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمہ اللہ علیہ چوتھے صدر مقرر ہوۓ جو ۲۰۰۲ء سے اپنی زندگی کے آخری دن ۲۳اپریل ۲۰۲۳ء فائز رہے،آپ کے وفات کے بعد یہ عہدہ آج تک خالی ہے،اسی عہدے پر انتخاب کے لیے آج ۳/جون اور کل ۴/جون ۲۰۲۳ کو اندور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اٹھائیسویں اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
مذکورہ عہدہ پر آج تک جن چار ہستیوں نے خدمات انجام دیا ہے یہ اپنے آپ میں ایک مثال ہی نہیں بل کہ آئیڈیل اور مشعل راہ کے طور پر مانے جاتے ہیں،اختلاف وانتشار اور گٹ بندی سے ہمیشہ ان لوگوں بیر رہا ہے،سبھی فرقوں اور مسلکوں کے رہنماؤں نے ان کے اتحادی مزاج اور اتحادی مشن کو تسلیم کیا ہے،سبھوں کی رعایت،سبھوں کے آراء کااحترام،سبھوں کو اپنے موقف رکھنے کی آزادی اور سبھوں کے حقوق وحدود کی پاس داری ہمیشہ کی گئ ہے،یہی وجہ ہے کہ جیتے جی کسی بھی صدر کے انتخاب پر اختلاف تو دور چوں چرا کے الفاظ تک نہیں نکلے،اتحاداور اتفاق کے ان نمونے کو دیکھ کر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا احترام آج ملت اسلامیہ کے ہر دردمند دل میں دیگر تنظیموں کے بہ نسبت زیادہ موجزن ہیں،مجھے یقین محکم ہے کہ اس اٹھائیسویں اجلاس میں بھی ایسے ہی مخلص اور اتحاد واتفاق کے علمبردار کا انتخاب ہوگا جو ہر لحاظ سے ملک وملت کے لیے مفید ہوگا،جو عائلی اور معاشرتی قانون کی تحفظ کو یقینی بناۓ رکھنے کا عزم رکھتا ہوگا،جو بوقت ضرورت حکومت ہند سے آنکھیں ملاکر گفتگو کرنے کی ہمت و جرات رکھتا ہوگا،جو کسی پریشر،کسی مفاد اور کسی مخصوص جماعت کے افادے کے لیے نہیں بل کہ ملک اور ملت اسلامیہ کی مفاد کے لیے کام کرنے کی عادی ہوگا،جن کے سرشت میں ملت اسلامیہ کی حاجت روائ کا جذبہ بدرجہ اتم ہوگا،
یہ الگ بات ہے اور اس سے صرف نظر بھی بے ایمانی ہوگی کہ کچھ ناعاقبت اندیش لوگ سوشل میڈیا پر ہنگامہ خیزی میں مصروف ہیں،لابنگ،پلاننگ،حربے،ہتھکنڈے اور گروپ بندی کی باتیں بھی کررہے ہیں،نہ جانے کس مشین اور فرما کے تیارشدہ لوگ ہیں جو طوفان بدتمیزی مسلسل برپا کئے ہوۓ ہیں،کسی کی ٹوپی کو کج کلاہ،کسی کے دامن کو دراز،کسی کی پگڑی کو لٹھیٹ،کسی کی عصاء کو ٹیڑھی،کسی کے ازار کو ڈھیلا،کسی کے کمر کو کمزور،کسی کے پینٹ کو چست،کسی کے کورٹ کو تنگ اور کسی کی شیروانی کو گیلا بتانے اور جتانے پر تلے ہوۓ ہیں،ہر کوئ اس میدان اتہام میں اپنے آپ کو سبقت کی منزل پر دیکھنے کا خواہاں ہے، اور ان مناظر کے جنم داتا بھی ایسے ہیں جنھیں اتہام اور الزام کی سزا اور جزا بخوبی معلوم ہے،سوشل میڈیا کی اس مہم نے جو بازار گرم کیا ہے وہ ایک ذمہ دار یا سنجیدہ مزاج کا کام نہیں ہوسکتا ہے ،بل کہ تخریب کاروں کی تخریبی ذہنیت کی پیداوار ہی ہے ،یہ بھی مبنی برحق ہے کہ تخریب پسندوں کی تعداد کافی ہے ،بفضل خداوندی تعمیری ذہنیت مستقل اس قضیے اور منصب جلیلہ پر فائز شخصیت کے انتخاب پر کوشاں ہے یقینا پانچویں صدر کا انتخاب بھی سابقہ روایت کے مطابق ہوگا،اللہ انھیں ہی ذمہ داری عطاکریں گے جس میں اہلیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوگی، جن کا دل خشیت الہیہ سے سرشار ہوگا،جن کی حیات امت مسلمہ کے لیے باعث رحمت ہوگی،جن کا اخلاص مثالی ہوگا اور جن کا انتخاب ملک وملت اسلامیہ کے لیے مفید ہی مفید ہوگا۔
مضمون میں مذکورآراء مصنف کے ہیں، ایسٹرن کریسنٹ کا ان سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔