مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں: سپریم کورٹ
محمد توقیر رحمانی
بروز منگل 6 نومبر 2024 کو چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت میں تین ججوں کی بینچ نے یوپی مدارس ایجوکیشن 2004 کے قانون کو برقرار رکھتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ قانون آئینی ہے اور مدارس کو اپنی دینی اور عصری تعلیم کے ساتھ جاری رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس فیصلے کے مطابق، یوپی حکومت مدارس میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر سکتی ہے، لیکن انہیں اسکولوں میں تبدیل کرنا یا ان کی خودمختاری کو ختم کرنا ضروری نہیں۔
عدالت نے مزید واضح کیا کہ ریاست مدارس میں بنیادی اور جدید تعلیم شامل کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کر سکتی ہے، مگر انہیں مکمل طور پر اسکولوں کے طرز پر ڈھالنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ اس طرح مدارس کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے عدالت نے یوپی حکومت کی درخواست کو مسترد کر دیا اور مدارس کے دینی و تعلیمی کردار کو برقرار رکھنے کی حمایت کی۔
یہ بات اہم ہے کہ یوپی میں کل تقریباً 23,500 مدارس ہیں، جن میں سے صرف 16,513 کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ان میں سے 560 مدارس ایسے ہیں جو سرکاری مالی امداد حاصل کرتے ہیں۔
سرکاری طور پر تسلیم شدہ مدارس کی اس موجودہ صورتحال کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جہاں عمارتوں کی تعمیر اور نمائش میں رقم خرچ کی جاتی ہے، وہاں سرکاری دستاویزات میں مدارس کو رجسٹرڈ کروانے کی طرف مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔ اس غفلت کے نتیجے میں مدارس کو حکومت اور دیگر افراد کی سخت تنقید کا سامنا رہتا ہے، جو ان کے لیے مسلسل نقصان کا سبب بنتا ہے۔ نتیجتاً، اکثر مدارس کو حکومتی کارروائیوں کے تحت درپیش مسائل سے نبرد آزما رہنا پڑتا ہے، جس سے ان اداروں کے مستقبل پر خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ اب مدارس کے ذمہ داران کے لیے دستاویزات کی تکمیل پر خصوصی توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہیں توکل علی اللہ کے اس نظریے کو ترک کرنا ہوگا جو بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے ہو۔ بلکہ اس توکل کو اختیار کرنا ہوگا جس کی وضاحت پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی کہ پہلے اونٹ کو رسی سے باندھ لو، پھر اللہ پر بھروسا کرو۔ اسی لیے ضروری ہے کہ تمام حفاظتی اقدامات کے بعد توکل علی اللہ کیا جائے، ورنہ نقصان کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
بہرحال عدالت عظمیٰ کا مدارس کے حق میں یہ فیصلہ یقیناً قابلِ ستائش ہے۔ یہ فیصلہ ریاستی حکومت اور اسی طرح ان تمام لوگوں کیلئے ایک سبق اور جھٹکا بھی ہے جو ہمیشہ مدارس کو بدنام کرنے کی ٹوہ میں سرگرداں رہتے ہیں۔ عدالت نے نہ صرف مدارس کے دینی و عصری کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ مدارس میں تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، نہ کہ ان کی خودمختاری ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس فیصلے نے مدارس کے نظامِ تعلیم کی افادیت اور ان کے کردار کو ایک مضبوط قانونی حمایت فراہم کی ہے، جو آئندہ بھی کسی بھی غیر ضروری مداخلت کے خلاف ایک مضبوط دفاع ہوگا۔ مزید یہ کہ، عدالت نے حکومت کو اس بات کی بھی ہدایت دی کہ وہ مدارس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ترقیاتی منصوبے اور مالی امداد کو یقینی بنائے تاکہ یہ ادارے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔