ای سی نیوز ڈیسک
محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
جاری لوک سبھا الیکشن اب آخری مرحلے میں ہے. نتائج کے اعلان میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے. اس الیکشن میں کچھ خاص چیزیں ایسی نظر آئیں جو پہلے کبھی نظر نہیں آئی تھیں. مسلمانوں کے خلاف پی ایم نے متعدد مرتبہ نفرت انگیز بیانات دیئے جن میں رزرویشن، جامعہ ملیہ اسلامیہ، ہندو عورتوں سے منگل سوتر چھیننے، اور اپوزیشن کے مجرا وغیرہ جیسی باتیں شامل تھیں. اپنی انتخابی ریلی میں وزیر اعظم نے پہلی بار اڈانی امبانی کا نام لیکر ان پر تنقید کی اور ٹیمپو میں پیسے بھر کر پہچانے تک کی بات کہہ ڈالی. حالیہ الیکشن میں یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ گزشتہ دو لوک سبھا الیکشنوں کی طرح ہندو عوام میں مودی لہر اور اس کے حق میں کوئی جوش وخروش نہیں ہے. دس سال کی طویل حکومت میں لوگوں کی توقع کے برعکس ملک ترقی میں بہت پیچھے ہوگیا ہے، مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے، غریب بہت پریشان اور چھوٹے کاروباریوں کی حالت خراب ہوچکی ہے. تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری بہت بڑھ گئی ہے. دوسری طرف کانگریس کے راہل گاندھی اور پرینکا بہت متحرک ہوگئے ہیں. کانگریس کی قیادت والا انڈیا اتحاد بھی متحرک اور محنتی بن گیا ہے. اکھلیش بھی ہر جگہ ریلیوں میں نظر آرہے ہیں. تیجسوی یادو روزانہ 5-6 جگہوں پر ریلی کررہے ہیں اور نتیجۃً ان کی کمر میں درد ہوگیا ہے. مہاراشٹرا میں بھی این ڈی اے اتحاد کے خلاف بہت محنت ہورہی ہے. بنگال کی ممتا بنرجی بھی زوردار عوامی ریلیاں کررہی ہیں. سپریم کورٹ کے اصرار پر سیاسی پارٹیوں کو فنڈ دینے والی کمپنیوں کے نام اور فنڈ ظاہر ہونے سے بی جے پی کی شبیہ یقیناً عوام میں مزید متاثر ہوئی ہے. یہ اور ان جیسی ساری چیزیں وہ ہیں جو پچھلے انتخابات میں نہیں تھیں. پی ایم کے انتخابی بیانات میں عورتوں سے منگل سوتر اور لوگوں سے بھینس چھیننے جیسی باتوں کا گھٹیاپن اتنا واضح ہے کہ ہندو ووٹرز بھی اس کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں. رام مندر کا ایشو بھی ہندو عوام کے لئے دلچسپی کا سامان نہیں ہے. کیجریوال اور دوسرے بہت سارے بڑے لیڈروں کو ED کے ذریعے جیل میں ڈالنے کا جو سازشی سلسلہ ہے وہ بھی عوام میں نمایاں ہوچکا ہے. یوپی کے سی ایم کی زبان مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اتنی واضح اور صریح ہوچکی ہے کہ ہر کس وناکس اس نفرت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے. آر ایس ایس نے بھی بیان جاری کرکے کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت کو اپنی پالیسی کے خلاف بتاتے ہوئے تائید کرنے سے منع کردیا ہے.
مذکورہ بالا احوال اور نئی تبدیلیوں کے پیشِ نظر اگر ہم جاری انتخابات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تو میرا اپنا خیال یہ ہے کہ:
اب کی بار بی جے پی کو انتخابات میں بہت نقصان پہنچے گا جس کے نتیجے میں یا تو بی جے پی قیادت والے NDA کو سیٹیں اتنی کم ملینگی کہ اس کی حکومت نہیں بن سکے گی یا اگر سیٹیں حکومت بنانے کے لائق ملینگی بھی تو وہ پچھلی مرتبہ کے مقابلے میں بہت کم ہونگی. اول الذکر کا امکان زیادہ ہے. ثانی الذکر کا امکان دوسرے نمبر پر ہے. اور پچھلی مرتبہ کی طرح سیٹوں کی تعداد یا چار سو پار خارج از امکان ہوگا ان شاء اللہ.