تحریر:محمد اطہر القاسمی
نائب صدر جمعیت علماء بہار۔
گذشتہ ہفتہ میرے مدرسہ اصلاح المسلمین بھگوان پور تھانہ جوکی ہاٹ ضلع ارریہ بہار میں نامعلوم چوروں کے ذریعے چوری کی واردات انجام دی گئی تھی،مدرسہ میں موجود کمپیوٹر،پرنٹر،مائک،پنکھے اور دیگر قیمتی اشیاء سب اٹھا لئے گئے جبکہ سارے دروازے لوہے کے تھے؛چوروں نے بڑے بڑے تالے توڑ ڈالے تو کہیں آری بلیڈ سے قبضہ ہی کاٹ ڈالا۔
خیر ضابطہ کے مطابق تھانہ میں FIR کرائی گئی اور متعلقہ سرکاری محکموں کو حادثے کی اطلاع دی گئی۔
یہ تو ایک تمہیدی گفتگو تھی،اصل بات جو آج مجھے لکھنی ہے وہ یہ ہے کہ اسی FIR کاپی لینے کے لئے یہاں تھانے میں مجھے گذشتہ دنوں کچھ وقت گذارنے کا موقع ملا۔اس درمیان میری نظر مسلسل ان لوگوں پر مرکوز تھی جو تھانے میں آرہے تھے اور اپنے معاملات سے متعلق اہل کاروں سے رابطہ کررہے تھے۔ میں نے اس روز وہاں دو گھنٹے گذارے،اس درمیان جتنے متاثرین کو میں نے یہاں آتے دیکھا؛وہ سب کے سب مسلمان تھے،ان میں سے ایک بھی غیر مسلم بھائی نہیں تھے۔
مسلمانوں میں سے نوجوانوں کے ساتھ بعض باریش و ضعیف العمر لوگوں نے مجھے پہچان کر میری خبر خیرت بھی پوچھی،مگر میں تو اندر سے اپنے حلقے کے مسلمانوں کی تھانے میں اس تشویشناک حاضری پر انگشت بدنداں تھا۔
آنے والے کبھی اکیلے بھی ہوتے،کبھی قافلے کی شکل میں اور کبھی اکیلی نوجوان خاتون بھی۔ایک قافلہ میں ایک پنچایت کے معزز مکھیا بھی تھے،میں نے دیکھا کہ وہ معاملہ کو سلجھانے اور کمپرومائز کے لئے کوشاں تھے،حسن اتفاق کہ وہ اپنے پنچایت کی مقامی جمعیت کے صدر بھی ہیں۔ اس درمیان آمدورفت کا سلسلہ جب کم ہوا تو میں نے تھانہ کے بعض اہل کار سے یہاں درج مقدمات کے ریکارڈ کے حوالے سے معلومات حاصل کرنی چاہی تو میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔
مجھے بتایا کہ مولوی صاحب!
سالانہ صرف اس ایک تھانے میں تقریباً 600 باضابطہ مقدمات درج کرائے جاتے ہیں جبکہ وہ درخواستیں جن پر FIR درج ہونے سے پہلے ہی مصالحت ہوجاتی ہے وہ اس تعداد سے الگ ہے۔ میں نے مزید جاننے کی کوشش کی تو مجھے بتایا گیا کہ 100 مقدمات میں سے صرف 5 مقدمات غیر مسلموں کے آتے ہیں بقیہ 15 مقدمات چوری کے جبکہ بقیہ 80 مقدمات صرف مسلمانوں کے آتے ہیں۔ یہی نہیں آپ اپنی قوم کی مزید ذہنی زبوں حالی کا گراف سن کر دنگ رہ جائیں گے؛مجھے بتایا گیا کہ یہ 80 فیصد مقدمات میں بھی سال کے 12 مہینہ کے لحاظ سے سب سے زیادہ مقدمات رمضان المبارک میں پیش آتے ہیں۔
بلکہ یہ تک بتایا گیا کہ صبح کے گیارہ بجتے بجتے دو چار مسلمانوں کے سر پھوڑ دینے اور خون بہادینے کے واقعات تو تھانہ تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔
مجھے کہا گیا کہ یہ سر پھوڑنے والے مسلمان اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ ہم روزہ کی وجہ سے بھوکے پیاسے تھے اسی لئے غصہ برداشت نہیں ہوا۔
الحاصل یہ تو محض بطورِ مثال ایک تھانے کا معاملہ ہے،اسی پر آپ سیمانچل،بہار اور ملک کے دوسرے خطوں کو قیاس کرکے نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔
رفقاء گرامی!
میں نے اس تحریر کا بیشتر حصّہ وہیں تھانہ کے کیمپس میں بیٹھ کر لکھا ہے،لکھتے وقت مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی،میرا ہاتھ موبائل کے Key Paid پر تھا لیکن دل ودماغ میں ملک کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات،شدید منافرتی ماحول،دشمنان اسلام کی پےدرپے سازشیں اور ان سب کے خلاف مسلمانوں کی کمزور پلاننگ بلکہ ان کی بدترین غفلت و بےحسی کا ایک غیر مرئی سلسلہ جاری تھا اور جی چاہتا تھا کہ جاؤں اور ایک ایک مسلم محلے میں ایک ایک مسلمان کے ہاتھ بلکہ پاؤں پکڑ کر انہیں اکیلے میں بٹھاکر یہ سمجھانے کی کوشش کروں کہ آپ یہ کیا کررہےہیں؟آخر کیوں آپ میں صبر و تحمل اور قوت برداشت نہیں ہے؟آپ اپنے غصے پر قابو کیوں نہیں کرپاتے؟آپ اپنی اس حرکت سے ملک اور دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟آپ کے سطحی عمل سے آپ کے شاندار مذہب کی شبیہ کیسی بن رہی ہے؟پھر یہ کہ آخر دنیا میں دیگر انسانی آبادیاں بھی تو بستی ہیں،وہ آپ کی طرح جذباتی،مشتعل اور جلدباز کہاں ہیں؟وہ آپ کی طرح بات بات پر پولس اسٹیشن کا رخ کہاں کرتی ہیں؟پھر یہ کہ یہاں آپ کو ملتا کیا ہے؟صرف ذہنی سکون اور وہ بھی اپنے ایمانی بھائی کا گھر اجاڑ کر،ان کی عزتیں لوٹ کر اور ان کے خون بہاکر،اور یہ ادھورا سکون بھی تب ملتا ہے جب آپ کی جیب خالی ہوجاتی اور عدالت کے چکر کاٹتے کاٹتے آپ کے پاؤں میں چھالے پڑجاتے ہیں، یہی نا؟
میرے ضمیر نے کہاکہ اگر میرے یہ ایمانی بھائی میری باتیں مانتے تو میں ان سے دست بستہ عرض کرتا کہ اے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری امت کے لوگو!
آپ کو تو قرآن کریم نے وسط امت اور خیر امت کے لقب سے نوازا تھا،آپ کو حدیث پاک میں امت مرحومہ کا خطاب دیا گیا یعنی آپ پر ہر لمحہ اللہ رب العزت کی خصوصی رحمت سایہ فگن رہتی ہے،آپ ہی کے لئے روئے زمین کو مسجد بنائی گئی اور مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا،آپ ہی وہ مخصوص امت ہیں جن کے اعمال گرچہ کم ہوں گے لیکن رب العزت کی طرف سے اجر زیاد عطاء ہوگا اور آپ ہی پر رب العالمین کی خصوصی نوازش ہے کہ آپ کی صفوں کو فرشتوں جیسی صف بندی کا رتبہ نصیب ہوا ہے وغیرہ۔
آپ کے لئے امت محمدیہ کا فرد ہونا اور افضل الانبیاء کی امت میں پیدا ہونا یہ نہایت اعلیٰ درجے کی شرافت و کرامت کی بات ہے جو محض فضل الٰہی ہے۔اگر آپ اس گنہ گار کی باتیں سنتے تو دکھ کے ساتھ یہ عاجز ضرور عرض کرتا کہ آپ نے عالمی نقشے پر اپنے اتنے بڑے اعزازات کا وقار و لحاظ نہیں کیا بلکہ اس اعزاز کو مجروح کرنے کے لئے آپ نے ہر وہ حربے اور طریقے اپنائے جو آپ کے لئے ممکن تھا۔
اسی لئے آپ عالمی منظرنامے پر نہ جاتے ہوئے محض اپنے ملکی حدود میں اپنا آئینہ دیکھیں گے تو خون کے آنسو روئیں گے کہ کس طرح رفتہ رفتہ آپ کا سیاسی وجود تقریباً ختم ہوچکاہے،آپ کی قیادت و سطوت اور سیاسی شان وشوکت کا سورغ محض حالیہ 75 سالہ قلیل عرصے میں ایسے غروب ہوگیا کہ گویا آپ اس دیش کے کبھی حکمراں تھے ہی نہیں،آپ کی معیشت زیرو پر آگئی،اقتصادیات غیر اقوام پر منحصر ہوگئیں،دشمنوں کے دلوں سے آپ کا ایمانی رعب جو آپ کا اصلی ہتھیار تھا کب کا رخصت ہوگیا،آپ کہنے کو یہاں(سیمانچل)اکثریت میں ہیں لیکن کیا آپ کا وزن سمندر کے اٹھتے ہوئے جھاگ اور کھیت و کھلیان میں اگتے ہوئے پیڑ و پودے سے زیادہ ہے؟اپنا جواب آپ کو خود تلاش کرنا ہے۔اور کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ اس وقت ملک کے جس خطے میں اقلیت میں ہیں اپنے ہم وطنوں کے سراسر ظلم وتشدد اور سرکاری ناانصافیوں کے شکار ہیں اور آخری بات یہ کہ آپ جہاں(مثلاً یہاں)اکثریت میں ہیں،وہاں خود آپس میں ہی ایک دوسرے کے قاتل اور خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔کیا ہم نے تنہائی میں کبھی سوچا کہ آخر ہمارے یہ بدترین دن کیوں آئے؟
اس لئے کیونکہ ہم نے اصولاً اپنے مقام کو پہچانا نہیں،بحییث امت مسلمہ ہم نے اپنی عظمت ورفعت کی تاریخ بھلا دی،ہماری نظروں نے ہم سے ایسی خیانت کی کہ ہم کچھ سمجھ ہی نہیں سکے اور اب ہم پر اجتماعی طورپر یہ کہاوت سچ ثابت ہوئی کہ:اب پھچتائے کا ہوت جب چڑیا چک گئی کھیت۔۔۔۔
لیکن ہاں،رکئے!
کبھی کبھی انسان اپنی غلطیوں پر سچے دل سے ندامت کے آنسو بہاکر اصلاح عمل کا عزم مصمم کرلیتاہے تو پھر ایک نئی تاریخ بھی رقم کرلیتاہے۔آئیے!ہم بھی اپنے گریبان میں جھانکیں اور محاسبہ کریں کہ ہمارے پیارے نبی نے ہمیں انسانیت و شرافت،اخوت و ہمدردی،امن و انصاف،رحم و کرم،پیار ومحبت،عفو و درگذر اور ایثار و قربانی کی تعلیم دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوصاف حمیدہ پر اپنے لاکھوں جانثاروں کے ساتھ عمل پیرا ہوکر دنیائے انسانیت میں مسلمانوں کی لازوال تاریخ رقم فرمائی تھی،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے جانی دشمنوں تک کو معاف فرمایا تھا،انہیں بھی اپنے دامنِ شفقت میں جگہ مرحمت فرمادی تھی جس نے آپ کے خلاف مسلسل سازشیں رچی تھی اور وہ دشمن بھی آپ کے اخلاق حسنہ سے متاثر ہوکر ایمان لاتے تھے،جن کی گھٹی میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد و کینہ اور نفرت و عداوت کی بھٹی سلگ رہی تھی؛تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اسی پیارے نبی کے نام لیوا،ان کی انسانیت نوازی اور عفو و درگذر کے عالی وصف کو بھول کر اپنے ہی ایمانی بھائی کے خون کے پیاسے بنے بیٹھے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر پولس اسٹیشن اور عدالتوں کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں اور سماج و معاشرے میں انسانی زندگی کے شب وروز میں پیدا شدہ مسائل و معاملات کو آپس میں مل بیٹھ کر حل نہیں کرلیتے،شرعی عدالتوں اور دارالقضاؤں کا آسان رخ اختیار نہیں کرتے،مقامی علماء و مفتیان کرام سے رابطہ کرکے شرعی حکم تلاش نہیں کرتے اور حتیٰ کہ یہاں کی زندگی میں بظاہر ہار کر ہمیشہ والی زندگی میں جیت جانے کے سنہرے خواب نہیں دیکھتے۔آخر ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟