مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسینٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔
آج ہم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی محبت کا جائزہ اپنے عمل کے آئینے میں لیں گے اور دیکھیں گے کہ ہم اپنی محبت کے دعوے میں کس حد تک سچ ہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو مسلمانوں کے تمام فرقے عقیدت و محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ جذبہ محبت اور وابستگی صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں بلکہ اس وجہ سے بھی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ حق کے زبردست علمبردار تھے اور اس باب میں آپ نے جو مثال قائم کی ہے وہ رہتی دنیا تک کے لیئے قابل تقلید ہے۔ اس طرح حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ شریعت مطہرہ ہمارے لیئے سب سے اوپر ہے۔اگر ہمیں اس کی حفاظت اور اشاعت کے لیئے جان کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔
اس پس منظر میں ہمارے لیئے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کے دعوے کے ساتھ ان کے مشن کو عملا آگے بڑھا رہے ہیں اور شریعت کی حفاظت اور اشاعت میں ہم بھی وہ جوانمردی دکھا رہے ہیں جو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے رفقاء کی امتیازی شان تھی؟ سچ یہ ہے کہ اس سوال کا مثبت جواب ہمارے پاس نہیں ہے کیونکہ شریعت کی حفاظت اور اشاعت تو دور کی بات، ہم خود شریعت سے دور ہیں۔ اس سے آگے کی خطرناک بات یہ ہے کہ ہم بہت سارے معاملات میں شریعت کا عملا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ اس طرح کہ شریعت کا حکم کچھ اور ہوتا ہے اور ہم کچھ اور کرتے ہیں۔
ہم اپنی مذکورہ صورت حال کے آئینے میں یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے مشن سے محبت ہے!
اس صورت حال کے بعد ہماری یہ پوزیشن سامنے آتی ہے کہ ہمارے قول و عمل میں تضاد ہے جو شریعت کی نظر میں انتہائی مذموم حرکت ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ: ” اے ایمان والو ! ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔” (الصافات 2-3) معاشرتی اعتبار سے اگر دیکھیں تو قول و عمل میں تضاد ایسی بیماری ہے جو انسان کو اعلی لوگوں کے معیار سے نیچے کر دیتی ہے اور اس صفت کا انسان معاشرے میں اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے۔
حضرت حسین رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کا ایک انتہائی نمایا ں پہلو جو ہم میں سے اکثر کی زندگی میں ناپید ہے، یہ ہے کہ انہوں نے سر کٹانا تو گوارا کرلیا لیکن باطل کے سامنے سر جھکانا پسند نہیں فرمایا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کے دعوے کے باوجود اس پہلو سے آج ہمارا طرز عمل انتہائی افسوس ناک ہے۔ کیا آج ہم میں سے کچھ لوگ ا پنے چھوٹے بڑے ذاتی فائدہ کے لیئے شریعت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ظالموں کی جی حضوری نہیں کر رہے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ شریعت کے خلاف عمل ہوتا دیکھ کر بھی ہمارے اندر احساس کی چنگاری نہیں سلگتی اور اس طرح ہم ایمان کے ادنی درجہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا، تو پھر اپنی زبان سے بدل دے۔ اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، تو پھر اسے اپنے دل میں برا جانے اوریہ ایمان کا کم تر درجہ ہے۔‘‘ (مسلم)
ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ دین کے معاملے میں ہماری بے حسی اور مجرمانہ تساہلی نے ہی بہت سارے فتنوں کو جنم دیا ہے اور ہمیں دشمنوں نے اتنا نقصان نہیں پہونچایا ہے جتنا کہ ہم نے خود اپنے آپ کو نقصان پہونچایا ہے۔ اس لیئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر جذبہ حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو زندہ کریں اور کردار حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو اپنا کردار بنائیں۔ اس کے بعد ہم سر جھکا کے نہیں بلکہ سر اٹھا کے جینے کے قابل بن جائیں گے۔ ان شاء اللہ