لاء کمیشن آف انڈیا کو یکساں سول کوڈ کے تعلق سے رائے بھیجنا مذہبی ذمہ داری ہے
مدثر احمد قاسمی
ایک نارمل اور مثالی زندگی گزارنے کے لئےسب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ انسان وقت کے تقاضے کے مطابق کام کرے؛ بصورت دیگر نہ ہی اس کی زندگی نارمل ہوگی اور نہ ہی مثالی۔ شریعت مطہرہ کی تعلیمات اسی بات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں؛ چنانچہ وقت آجانے پر جس طرح نماز،روزہ، زکوۃ اور حج کا حکم ہے اسی طرح ضرورت پڑنے پر غریبوں کی مد کرنے بے سہاروں کا سہارا بننے اور مظلوموں کی دادرسی کی بھی تلقین ہے۔ اس پس منظر میں شریعت مطہرہ کے ایک اور خوبصورت پہلو کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق جن کاموں کا حکم دیا گیا ہے ان سب کی ایک حد ہے۔ اب اگر کوئی شخص ہر وقت نماز ہی پڑھتا رہے، ہمیشہ روزے کی حالت میں ہی رہے یا دیگر تمام ذمہ داریوں کو چھوڑ کر ہمہ وقت سماجی خدمت گار ہی بنتا پھرے؛ تو یہ بھی شریعت میں مطلوب اور مستحسن نہیں ہے۔
جب کسی کام کا تقاضا آئے تو کس طرح دوسرے تمام کاموں کو چھوڑ کر اس کام کی طرف چل پڑنا چاہئیے، اور جب کام پورا ہو جائے تو معمول کی زندگی میں کسی ڈھنگ سے واپس آجانا چاہئیے؛اس کی ایک مثال قرآن مجید نے انتہائی دلکش پیرائے میں دی ہے۔ سورہ جمعہ کی آیت 9 اور 10 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:”اے مسلمانو ! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذاں دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو ، اور خرید و فروخت چھوڑ دیا کرو ، اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔پھر جب نماز پوری ہوجائے تو اللہ کی زمین میں پھیل جاؤ ، اللہ کی روزی تلاش کرو اور اس کو کثرت سے یاد کرتے رہو ؛ تاکہ تم فلاح پاؤ۔”
غور فرمائیں کہ یہاں کسی خوبصورتی سے ایک متوازن زندگی کی دعوت دی گئی ہے کہ نہ ہی نماز کو بھول کر زندگی کی دیگر مصروفیات میں ہمہ وقت کھو جانا ہے اور نہ ہی نماز میں ہمیشہ اس طرح مشغول رہنا ہے کہ کاروبار زندگی سے مکمل روری ہو جائے۔ یقینا اگر ہم صرف ان دنوں آیات کریمہ کو تمام کاموں کے لئے اپنی زندگی کی بنیاد بنالیں تو ہماری زندگی نارمل بھی ہو جائے گی اور مثالی بھی۔
اس تمہید کے پس منظر میں ہمیں ملک کی موجودہ صورت حال کو سمجھ کر تقاضے کے مطابق کام کرنا ہوگا۔سر دست ہمارے سامنے یہ تقاضا ہے کہ لاء کمیشن آف انڈیا نے 14 جون کو ایک سرکلر کے ذریعے یکساں سول کوڈ کے حوالے سے عوام اور مذہبی تنظیموں سے 30 دنوں کے اندررائے طلب کی ہے۔معیاد مکمل ہونے میں اب بہت ہی کم دن رہ گئے ہیں، اس لیئے ہمیں اس سلسلے میں بلا تاخیر حق رائے دہی کا ستعمال ضرور کر لینا چاہیئے۔
واضح رہے کہ یکساں سول کوڈ کا مطلب یہ ہے کہ شہری اور عائلی تمام معاملات کے لئے ایک ایسا عام قانون لایا جائے جو ہندوستان کے ہر شہری کے لئے ایک جیسا ہو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ظاہر ہے کہ سب کے لیئے ہر معاملے میں ایک ہی قانون نہ ہی مختلف مذاہب اور تہذیب کے تناظر میں درست ہے اور نہ ہی عقلی اعتبار سے۔کچھ لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ جب ملک میں یکساں سول کوڈ کی بات ہوتی ہے تو مسلمان سب سے زیادہ کیوں پریشان ہوتے ہیں جبکہ یہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیئے یکساں ہے؟ اس کا صاف جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک یہ محض ایک قانون بن جانے کی بات نہیں ہے بلکہ شریعت میں ڈائریکٹ مداخلت ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا پرسنل لاء کے معاملے میں حکومت کو مداخلت کرنی چاہئے؟ جبکہ 1950 میں نافذ دستور ہند کے معماروں نے تمام مذاہبِ کے ماننے والوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ پرسنل لاء کو آزادی کے ساتھ اپنائیں۔ یہاں یہ بھی واضح ر ہے کہ مسلم پرسنل لا بھی دستور ہند کا حصہ ہے جیسا کہ شریعہ ایکٹ 1937 سےیہ بات بالکل ظاہر ہے۔
آئیے! اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارے ملک ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کیوں ممکن نہیں ہے۔چنانچہ جب ہم ملک کے طول و عرض کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے مختلف مذاہب کی شادی بیاہ، طلاق، وراثت، وقف اور دیگر مسائل ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں اور ہر مذہب اور قبیلے کا اپنا جدا گانہ طریقہ ہے۔ مسلم، عیسائی، سکھ، بودھ اور قبائل کی بات تو چھوڑ دیجیئے جو عائلی مسائل کے ہر شعبے میں بالکل ایک ایک دوسرے سے الگ نظام رکھتے ہیں، یہاں تو ایک ہی مذہب میں دو الگ الگ نظریات اور رسم و رواج کو ماننے والوں کی کثیر تعداد ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی ہند کے ہندو اور شمالی ہند کے ہندو الگ الگ ریت رواج کی پابندی کرتے ہوئے شادی کرتے ہیں۔آخر ہم کیسے ان دونوں علاقے کے ہندوؤں کو ایک قانون کو ماننے پر مجبور کر سکتے ہیں؟ اس پس منظر سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش نہ تو درست ہے اور نہ ممکن۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسوقت ہمیں یکساں سول کوڈ کے تصور کو رد کرنے کے سلسلے میں مکمل حکمت عملی سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور لاء کمیشن آف انڈیا کو منظم طریقے سے اپنی رائے بھیجنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بہت حوصلہ افزاء ہے کہ مختلف نمائندہ مسلم تنظیمیں اس سلسلے میں زمینی سطح پر قابل قدر کوششیں کر رہی ہیں،اب یہ ہماری مذہبی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کوششوں کوکامیاب بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اس طرح نیکی میں معاون بننے کا سہرا اپنے سر پر سجا لیں۔