مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور روزنامہ انقلاب کے ڈیلی کالم نگار ہیں۔
شادی خوشی کا استعارہ ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس موقع پر انسان حد سے گزر کر غیر شرعی امور میں ملوث ہوکر اپنے لئے زحمت ہی زحمت کا سودا کرلے۔ مانا کہ شادی یعنی خوشی مگر ایسی خوشی کا فائدہ ہی کیا جس میں اللہ اور رسولؐ کا حکم ٹوٹے اور مابعد کی زندگی میں وہ خوشی وبال جان بنے! شادی میں غیر شرعی امور سے خوش ہونے کی شروعات در اصل وہیں سے ہوجاتی ہے جب انسان اس باب میں غیر ضروری چیزوں کو اپنے لئے لازم کر لیتا ہے۔ حالانکہ اسلام میں نکاح کو اس قدر آسان بنایا گیا ہے کہ کچھ چیزوں کو طے کر لینے سے اور چند بول بول لینے سے انسان شادی کے مقدس بندھن میں بندھ جاتا ہے۔
اسلام میں شادی کیلئے صرف یہ ضروری ہے کہ نکاح پڑھانے والا یا لڑکی کا قریبی رشتہ دار لڑکی سے نکاح کی اجازت لے آئے، جب لڑکی اپنے نکاح کی اجازت دے دے تو وکیل کی موجودگی میں کم ازکم دو مسلم گواہوں کے سامنے خطبۂ مسنونہ پڑھ کر لڑکے سے قبول کرالے اور جو مہر طے ہوجائے نکاح خواں اس کا بھی اظہار کردے۔ یعنی خطبۂ مسنونہ پڑھنے کے بعد نکاح خواں اس طرح لڑکے سے کہے کہ مسماة فلاں بنت فلاں کو بعوض مثلاً دین مہر تمہارے نکاح میں دیا۔ تم نے اس کو اپنے نکاح میں قبول کیا، دولہا کہہ دے میں نے اس کو اپنے نکاح میں قبول کیا۔ بس نکاح منعقد ہوگیا۔ مذہب اسلام میں کوئی رسم نہیں ہے، جو رسمیں عام ہیں وہ سب عوام کی اختراع کی ہوئی ہیں ۔ (فتویٰ دارالعلوم)
بہتر ہے کہ اس کے بعد شوہر اپنی حیثیت کے مطابق ولیمہ کی دعوت کرا دے کیونکہ ولیمہ کرنا سنت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ: ’’ولیمہ کرو چاہے ایک بکری سے ہی ہو۔‘‘ (بخاری) شریعت میں یہ حکم اس وجہ سے ہے کہ ولیمہ میں بیوی اور اس کے خاندان کے ساتھ حسن سلوک ہے نیز ولیمہ کی وجہ سے بیوی شوہر کی نظر میں باعزت اور باوقعت ہوتی ہے۔شادی میں مذکورہ باتوں کے علاوہ کوئی اور کام ایسا نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے شادی منعقد نہ ہو۔ لہٰذا ماقبل اور مابعد شادی جو ہم نے رسوم و رواج کا جال بچھا رکھا ہے وہ یا تو خودسا ختہ ہیں یا غیروں سے مرعوب ہوکر اپنا لئے گئے ہیں۔
زیر نظر مضمون میں ہم چند ایسے امور کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہماری شریعت کی تعلیم نہیں ہے لیکن ہم نے غیروں کی اندھی تقلید میں انہیں اپنا رکھا ہے۔ ان رسموں میں ایک حیا باختہ رسم ہلدی ہے جو بہت سے مسلم خاندانوں میں شادی کا ایک اہم حصہ سمجھی جاتی ہے۔ اس میں لڑکی اور لڑکا دونوں کے خاندانوں میں ایک بد تمیزی کا طوفان اٹھتا ہے اور شریعت کے اصولوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔شریعت کی روشنی میں مردوں کو ہلدی لگانا جائز نہیں ہے کیوں کہ اس میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔اسی طرح لڑکی کو ہلدی لگانا تو بُرائی نہیں ، لیکن اس کیلئے تقریب منعقد کرنا اور لوگوں کو دعوتیں دینا، جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا پیلے رنگ کے لباس پہن کر ایک دُوسرے کے سامنے جانا قطعاً غیر شرعی ہے۔بالکل اسی طرح اب مہندی کو بھی ایک رسم بنادیا گیا ہے اور اس میں بھی مہندی کلر کا کپڑا پہننے کا رواج زور پکڑتا جارہا ہے۔ایک عجیب سی بات یہ ہے کہ اس موقع پر تزئین و آرائش میں اور جانبین کے خاندانوں میں ہلدی اور مہندی کلر کے کپڑے پہننے کی دوڑ میں اسراف کی نئی مثال قائم ہوجاتی ہے۔ حالانکہ اسراف یعنی فضول خرچی کے حوالے سے اسلام کی واضح ہدایات یہ ہیں : ’’ اور حد سے نہ نکلو، بیشک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف: ۳۱)۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور (اپنے مال کو فضول اور بے موقع) مت اُڑاؤ، یقیناً بے جا اُڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔‘‘
(بنی اسرائیل:۲۶۔۲۷)
ان غیر شرعی اعمال کو انجام دینے کے بعد مزید ظلم یہ ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز شیئر کئے جاتے ہیں ، جس سے بے حیائی کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوجاتا ہے۔ مسلم معاشرہ میں ان رسموں کو پروان چڑھانے میں جہاں غیروں کے طریقوں سے مرعوبیت ایک اہم وجہ ہے وہیں کچھ لوگوں سے بات کرنے سے پتہ چلا کہ مسلم گھرانوں میں اُن سیریلوں کو دیکھنے کا چلن بہت بڑھ گیا ہے جن میں ہلدی اور مہندی کی رسموں کو بہت ہی جاذب نظر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی نقالی میں مسلم لڑکے لڑکیاں اور اُن کے خاندان شریعت کی تعلیمات کو یکسر فراموش کربیٹھے ہیں۔
اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ شادی کی حقیقی خوشی حدود شریعت میں رہتے ہوئے سنت کے مطابق تمام امور کو انجام دینے میں ہے نہ کہ غیروں کے طریقوں کو اپنانے میں۔ لہٰذا عارضی خوشی کیلئے، ہمیں اپنی شریعت اور شناخت سے دور نہیں ہونا چاہئے۔ یہ عاقبت خراب کرنے جیسا ہے۔