شرک صرف عقیدے کی لغزش نہیں، بلکہ شعور کی تاریکی ہے
ازــــــ محمد توقیر رحمانی
شرک—ایک ایسا لفظ جو بظاہر سادہ، مگر مفہوم میں نہایت پیچیدہ اور دقیق ہے۔ یہ صرف عقیدے کی لغزش نہیں، بلکہ وجود کی جہالت اور شعور کی تاریکی ہے۔ یہ وہ زہر ہے جو جب دل میں اترتا ہے تو روحِ توحید کو آلودہ کر دیتا ہے، اور بندے کو بندگی کی معراج سے گرا کر مخلوق پرستی کے غار میں دھکیل دیتا ہے۔ اکثر لوگ شرک کو صرف بت پرستی کی ایک سادہ صورت سمجھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں، حالانکہ اس کی باریک راہیں عقل و فہم کی الجھی گلیوں میں چھپی ہوتی ہیں۔ ان راہوں کی شناخت کے لیے صفاتِ الٰہیہ کی ماہیّت اور ان کی نوعیت کو سمجھنا ازحد ضروری ہے۔
اللہ ربّ العزت کی صفات محض لفظی تعبیرات نہیں، بلکہ وہ اُس کی ذاتِ مطہر کا عین اور آئینہ ہیں—ازلی، ابدی، کامل، بے مثل، بے نیاز۔ ان صفات کی فکری تفہیم اور تہہ داری کو اگر تقسیم کیا جائے تو یہ تین بنیادی اقسام میں ظاہر ہوتی ہیں:
(1) صفاتِ خاصہ یا صفاتِ ذاتیہ
یہ وہ صفات ہیں جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں، جن میں کسی بھی مخلوق کی شرکت نہ ممکن ہے اور نہ جائز۔ جیسے خالق ہونا، رازق ہونا، لم یلد ولم یولد، الصمد، حی و قیوم۔ ان صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا، چاہے خیال کی سطح پر ہی کیوں نہ ہو، شرکِ جلی کہلاتا ہے۔ جو انسان کو اسلام کی اساس سے کاٹ کر اسے ایک فکری ارتداد کی گہرائی میں لے جاتا ہے۔
(2) صفاتِ ممنوعہ برائے مخلوق
یہ وہ صفات ہیں جو اگرچہ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں، مگر ان کا صدور بندوں سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن شریعت نے انہیں اپنانے سے سختی سے روکا ہے۔ جیسے جبر، قہر، استعلاء، تکبر، استغناء۔ ان صفات کا دعویٰ انسان کو خدا کے مقام پر لا بٹھاتا ہے خواہ وہ دعویٰ زبان سے نہ کرے، مگر عمل اور احساس میں برتری کا زہر بس چکا ہو۔ یہ شرکِ خفی ہے، جو خالص توحید کو اندر ہی اندر چاٹ جاتا ہے۔
تاہم، ان صفات کے اثر کو قبول کرنا مطلوب ہے؛ مثلاً اللہ قہّار ہے تو بندہ خود کو مقہور جانے، اللہ متکبر ہے تو بندہ عاجزی اختیار کرے۔ یوں بندگی کے جوہر میں صفاتِ الٰہی کی شعاعیں اترتی ہیں، لیکن دعویٰ کے بغیر۔
(3) صفاتِ ممدوحہ برائے مخلوق
یہ وہ صفات ہیں جن کا ظہور بندوں میں بھی پسندیدہ ہے، بلکہ ان کو اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ بندہ اپنے رب کی صفات کو پہچانے اور خود کو ان سے منور کرے۔ جیسے: رحمت، حلم، عدل، عفو۔ "کونوا رحماء بینکم”، "اعفُ عمن ظلمک”، یہ سب اسی نوع کی تعلیمات ہیں۔
مگر یہاں ایک انتہائی باریک اور گہری لکیر ہے: صفاتِ خداوندی اور صفاتِ انسانی میں بُعد المشرقین ہے۔ اللہ کی صفات ذاتی، کامل اور ازلی ہیں، جب کہ بندے کی صفات عطائی، ناقص اور محتاج و مشروط ہیں۔ یہ شعور اگر ماند پڑ جائے تو فکری کجی کا آغاز ہوتا ہے، اور شرک کا دھند آہستہ آہستہ دل پر چھا جاتا ہے۔ چنانچہ جو صفات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں، ان میں کسی کو شریک کرنا، چاہے ادعائی سطح پر ہو یا قلبی یقین میں، محض شرک نہیں بلکہ کائناتی عدل کے خلاف بغاوت ہے۔

جب انسان کی عقل نئی منزلیں طے کرتی ہے اور شعور کی سطحیں بلند ہونے لگتی ہیں تو بعض اوقات وہ اپنے خالق کو بھول کر اپنی ایجادات پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ آج کا دور، دریافتوں اور ایجادات کا دور ہے؛ سائنسدان اور دانشور کائنات کے ان گوشوں کو منکشف کر رہے ہیں جو صدیوں تک حجابِ خفا میں لپٹے ہوئے تھے۔ ان کی یہ علمی پیش قدمی، بلاشبہ، انسانی فہم کی وسعت کا غماز ہے؛ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک نازک مگر مہلک مغالطہ بھی جنم لے رہا ہے اور وہ ہے مخلوق کو خالق کا درجہ دے دینا۔ انہیں ”تخلیق“ کا درجہ دینا ایک فکری مغالطہ ہے اور مغالطے جب عقائد میں سرایت کر جائیں تو شرک بن جاتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے: جب ایک سائنسدان کسی شے کو ایجاد کرتا ہے تو کیا وہ اس کا خالق بن جاتا ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ کائنات میں کوئی شے خالص عدم سے وجود میں نہیں آتی، سوائے اس کے کہ اسے کُن کہہ کر وجود بخشا جائے۔ اور یہ قدرت صرف اور صرف اللہ وحدہٗ لا شریک لہ کو حاصل ہے۔ وہی ہے جو "عدم” کو "وجود” میں ڈھالتا ہے، اور جو "نیست” کو "ہست” بنا کر مظاہرِ کائنات کو ظاہر کرتا ہے۔ عصرِ حاضر کی سب سے چپ چاپ مگر زہریلی فکری گمراہی یہی ہے کہ ہم نے انسان کو اس کی عقل اور ایجاد کے سبب خالق کی صف میں کھڑا کر دیا۔
ایجادات و انکشافات، چاہے وہ بلب ہو یا برقی رو، جہاز ہو یا انٹرنیٹ یہ سب کچھ کائناتی مواد کے اُس انتظام و ترتیب کا نتیجہ ہیں جو پہلے سے اللہ کی تخلیق کردہ اشیاء میں موجود تھا۔ انسان نے کسی "نئی اصل” کو وجود میں نہیں لایا، بلکہ صرف پوشیدہ امکانات کو ظاہر کیا، یا یوں کہیں کہ اللہ کی تخلیق کردہ چیزوں میں نظم و ترتیب سے کام لے کر نئی اشکال کو جنم دیا۔
تھامس ایڈیسن نے بلب بنایا، لیکن وہ بلب کا خالق نہیں۔ اس نے فقط ان اجزاء کو جو اللہ نے پہلے سے پیدا کر رکھے تھے، ایک خاص ترتیب سے جوڑا۔ نیکولا ٹیسلا نے کرنٹ کے بہاؤ کو سمجھا اور اس سے فائدہ اٹھایا، مگر وہ اس بہاؤ کا خالق نہ تھا۔ خالق وہ ہے جس نے خود ٹیسلا اور ایڈیسن کو خلق کیا، ان کے ذہن کو روشنی دی، ان کی عقل میں یہ تخیلات القا کیے، اور کائنات کو ایسے نظام کے ساتھ پیدا کیا جس میں یہ امکانات پہلے سے ودیعت تھے۔
یہاں شرک کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب انسان ایجاد کو تخلیق کے برابر سمجھنے لگتا ہے۔ جب وہ موجد کو معمارِ مطلق جاننے لگتا ہے۔ یہ شرک، نہ کسی مندر میں ہوتا ہے، نہ کسی مورتی کے سامنے؛ بلکہ یہ عقل کے محراب میں، اور منطق کی محرابوں کے نیچے پیدا ہوتا ہے۔ یہ شرک، علم کی آڑ میں، سائنس کی زبان میں اور ترقی کے نام پر سر اٹھاتا ہے۔ اور یہی وہ فکری شرک ہے جو سب سے زیادہ مہلک ہے۔ کیونکہ اس کا پردہ عقل سے بنا ہے اور اس کی دلیل ترقی کی چمک میں ملفوف ہے۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ خالقِ حقیقی کی طرف نسبت کم ہوتی جا رہی ہے، اور مخلوق کو معبود کا درجہ دے دیا جا رہا ہے۔ ہم ایجادات پر شادمان ہوتے ہیں، موجدین کو داد دیتے ہیں اور یہ سب بجا ہے، مگر اگر اس تحسین میں "خالقِ کائنات” کی یاد اور نسبت ماند پڑ جائے تو یہی علم، گمراہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
تو کیا علم فتنہ ہے؟
نہیں! علم تو روشنی ہے، مگر اگر اس کے پیچھے خالق کا تصور نہ ہو تو وہ روشنی نہیں، آگ بن جاتی ہے؛ جو پہلے عقل کو جھلساتی ہے، پھر ایمان کو راکھ کر دیتی ہے۔ موجودہ علمی معاشرے میں بھی سب سے بڑا شرک یہی ہے کہ انسان کو اس کی عقل، ایجاد اور اختیار کے سبب مقامِ خالقیت پر بٹھا دیا گیا ہے۔ یہ شرک، جادو نہیں کرتا، بت نہیں گڑتا، مگر ذہنوں پر ایسا طلسم طاری کرتا ہے کہ بندہ اللہ کا ذکر چھوڑ کر انسان کی تدبیر کو معبود بنا لیتا ہے۔ یہ شرکِ فکری ہے، شرکِ تمدنی، جو عقیدے کی عمارت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔
جب دل سے ذکرِ الٰہی چھن جائے، اور قلب پر غفلت کا پردہ پڑ جائے تو پھر انسانی ہنر ہی خدا لگنے لگتا ہے۔ ہم بلب کی روشنی تو دیکھتے ہیں، مگر جس نے روشنی کو ممکن بنایا، اُس ربّ النور کا ذکر نہیں کرتے۔ ہم انجن کی قوت پر حیران ہوتے ہیں، مگر جو قوتوں کا خالق ہے، اسے بھلا بیٹھتے ہیں۔ عصرِ حاضر کی سب سے چپ چاپ مگر زہریلی فکری گمراہی یہی ہے کہ ہم نے انسان کو اس کی عقل اور ایجاد کے سبب خالق کی صف میں کھڑا کر دیا۔ اسی کو فکری شرک کہتے ہیں جو عقل کے لباس میں آتا ہے، جو تحقیق کی زبان بولتا ہے، اور جو ایمان کی جڑیں خاموشی سے کاٹتا رہتا ہے۔

توحید صرف "اللہ ایک ہے” کہہ دینے کا نام نہیں؛ یہ وہ شعور ہے جو کائنات کی ہر شے میں صرف اللہ کی تخلیق کو دیکھے، اور مخلوق کے ہر کمال میں خالقِ حقیقی کے جمال کا اعتراف کرے۔ جب ایجادات پر نظر پڑے تو زبان پکار اٹھے: "فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْن”
یہی توحید کی روح ہے، یہی علم کا مقصد ہے، اور یہی ایمان کا خلاصہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ توحید کو صرف عبادت کی حد تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ فکر، سائنس، فلسفہ، تہذیب اور زندگی کے ہر گوشے میں اس کی تطہیر کی جائے۔ ہر ایجادات و انکشافات کے پس پردہ، ہر علمی ترقی کے عقب میں، اور ہر ایجاد کے نقوش میں ربِ ذوالجلال کے فیض و فضل کا اعتراف کیا جائے۔
I like this post, enjoyed this one thanks for putting up. "‘I have done my best.’ That is about all the philosophy of living one needs.” by Lin Yutang.