سپریم کورٹ نے یوپی حکومت کو لگائی پھٹکار: منہدم کیے گئے مکانات کے لئے 25 لاکھ روپے معاوضے کا حکم
ای سی نیوز ڈیسک
6 نومبر 2024
ہندوستان کی سپریم کورٹ نے یوپی حکومت کے بلڈوزر ایکشن پر شدید تنقید کرتے ہوئے سرزنش کی ہے، جس میں مکانات کو قانونی عمل کے بغیر منہدم کیا گیا تھا۔ یہ تنبیہ اس وقت سامنے آئی جب مہاراج گنج ضلع میں جائیدادوں کی مسماری کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت جاری تھی، جہاں سڑک کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے تحت کئی مکانات کو منہدم کر دیا گیا۔ یہ مقدمہ ایڈوکیٹ منوج تیواری آکاش کے ذریعہ دائر کیا گیا، جس میں قانونی تقاضے اور شہری حقوق کے تحفظ پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے۔
یہ تنازع یوپی حکومت کے اس فیصلے کے گرد گھومتا ہے جس کے تحت کئی گھروں کو سرکاری زمین پر تجاوزات قرار دے کر منہدم کر دیا گیا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ انہدامات انفراسٹرکچر کی ترقی، خاص طور پر سڑک کی توسیع کے لئے ضروری تھے۔ تاہم، متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ انہدامات بغیر کسی مناسب اطلاع اور سماعت کے مواقع کے کئے گئے، جس سے حکومتی اختیار کے بے جا استعمال اور غیر ضروری کارروائی کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے مشاہدات
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے یوپی حکومت کے طریقہ کار پر سخت سوالات اٹھائے اور ان افراد کو 25 لاکھ روپے معاوضہ فراہم کرنے کا حکم دیا جن کے مکانات منہدم کیے گئے تھے۔ چیف جسٹس نے انتظامیہ کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے "انارکی” سے تعبیر کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ بغیر کسی اطلاع کے لوگوں کو بے دخل کرنا اور مکانات کو مسمار کرنا قانونی اصولوں اور طریقہ کار کی واضح خلاف ورزی ہے۔
جسٹس جے بی پردیوالا نے بھی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی دعوے کی تائید کے لئے ضروری دستاویزات کی عدم موجودگی پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے ان عمارتوں کو منہدم کرنے کے جواز پر سوال اٹھایا جو کہ بغیر کسی قانونی بنیاد یا تاریخی تصدیق کے کی گئی، جس سے انتظامیہ کا طریقہ کار سخت آمرانہ نظر آتا ہے۔
ریاستی اختیار اور شہری حقوق پر بحث
اس کیس نے حکومت کے اختیارات اور شہریوں کے حقوق کے درمیان توازن کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔ اگرچہ ریاست کو سرکاری منصوبوں کے لئے غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کا اختیار ہے، تاہم سپریم کورٹ کا ردعمل اس بات پر زور دیتا ہے کہ قانونی تقاضوں کی پاسداری اور شہری حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔ بغیر اطلاع اور بغیر منصفانہ موقع فراہم کئے مکانات کو مسمار کرنا انصاف اور جوابدہی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
یوپی حکومت نے دعویٰ کیا کہ مسمار شدہ عمارتیں غیر قانونی تجاوزات تھیں۔ تاہم، واضح شواہد کی عدم موجودگی اور نوٹس جاری نہ کرنے جیسے عملی اقدامات کی کمی نے یہ سوالات کھڑے کر دیے کہ آیا قانونی عمل کی پیروی کی گئی یا نہیں۔ ایسی کارروائیاں، اگر غیر چیک رہیں، تو یہ خطرناک مثال قائم کر سکتی ہیں جس میں انتظامی فیصلے شہریوں کے بنیادی حقوق کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔
قانونی نتائج اور آئندہ کا لائحہ عمل
سپریم کورٹ کا یہ موقف دور رس اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ تعزیری معاوضے کے ذریعے عدالت نے یہ پیغام دیا کہ قانونی تقاضوں کو نظرانداز کرنے کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ اگر یوپی حکومت بغیر شفافیت اور جوابدہی کے اپنی بلڈوزر پالیسی پر قائم رہتی ہے تو مستقبل میں اسے اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مزید برآں، یہ کیس حکومتوں کے ذریعہ غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے لئے قانونی اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔ ایک زیادہ منظم طریقہ جس میں پہلے نوٹس، سماعت اور اپیل کے مواقع شامل ہوں، عدالتی مداخلت کی ضرورت کو روک سکتا ہے۔ ان حفاظتی اقدامات کی پاسداری کو یقینی بنانا نہ صرف قانون کا تقاضہ ہے بلکہ ان افراد کے وقار اور حقوق کے احترام کا بھی معاملہ ہے جو سرکاری منصوبوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یوپی حکومت کی سرزنش عدلیہ کے اس کردار کو یاد دلاتی ہے جس میں آئینی اقدار کو برقرار رکھنا اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا شامل ہے۔ اگرچہ ترقیاتی منصوبے عوامی فائدے کے لئے اہم ہیں، مگر وہ قانونی طریقہ کار اور جوابدہی کی قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ کیس حکومت کے لئے مستقبل میں مزید محتاط طریقہ اپنانے کا باعث بن سکتا ہے جس سے کہ حکمرانی کے عمل میں قانون کی حکمرانی کو مرکزی حیثیت حاصل رہے۔