مدارس کا نصاب: ماضی کی وراثت اور مستقبل کی ضرورت
ازــــــ ڈاکٹر عادل عفان
بلاشبہ مدارس دین کے قلعے ہیں۔ مدارس اسلامیہ صدیوں سے دین کی حفاظت اور نئی نسل کی تربیت کا سب سے مضبوط سہارا رہے ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جہاں قرآن و حدیث کا علم پڑھایا جاتا ہے، فقہ اور تفسیر کے چراغ جلائے جاتے ہیں اور دین کی روح طلبہ کے دل و دماغ میں بٹھائی جاتی ہے۔ بلاشبہ مدارس نے امت کے علمی اور روحانی وجود کو قائم رکھنے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ہر دور اپنی ضرورتیں اور مسائل ساتھ لاتا ہے۔ سب کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں جب علم کی دنیا وسیع ہو چکی ہے اور مسائل پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں، مدارس کے نصاب پر نئے سرے سے غور کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔
آج بھی مدارس میں قدیم فقہی مسائل پر حد سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ مسائل اپنی جگہ اہم ہیں، کیونکہ وہ اسلامی تاریخ اور علمی روایت کا حصہ ہیں۔ لیکن ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو آج کے زمانے اور عملی زندگی سے غیر متعلق ہیں۔ مثال کے طور پر پانی کی ناپاکی کے باریک فرق، یا غلاموں کے حقوق کے تفصیلی مباحث، کھیت اور کھلیانوں کے ضابطے؛ یہ سب پرانے حالات کے مطابق ہیں۔ لیکن آج کے دور میں جب انسان بایوٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، عالمی معیشت، ماحولیاتی بحران اور بین الاقوامی قانون جیسے مسائل سے دوچار ہے، تو فقہ کو انہی سوالات پر توجہ دینی چاہیے۔
فقہ کا مقصد ہمیشہ یہی رہا ہے کہ انسان کی زندگی کو قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ اگر فقہ کو محض پرانے مسائل کے دہرانے تک محدود رکھا جائے تو وہ اپنی اصل روح کھو بیٹھتی ہے۔ آج امت کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں راہنمائی صرف اسی وقت ممکن ہے جب مدارس کے طلبہ کو نئے سوالات پر غور کرنے کی عادت ڈالی جائے اور انہیں جدید دنیا کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کا موقع دیا جائے۔

آج بہت سے مدارس میں "تخصصات” کے شعبے ہیں۔ مثلا، تخصص فی الحدیث، والتفیسر اور تخصص فی الفقہ وغیرہ۔ راقم کا ذاتی خیال ہے کہ ان تخصصات سے پہلے "تخصص فی اللسان” کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ زبانوں کی مہارت دعوت و تبلیغ میں کام آتی ہے، ساتھ ہی اہم کتابوں اور مآخذ کی تفہیم میں بھی۔
مدارس کے نصاب میں عربی زبان کی تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ طلبہ کئی برس تک عربی پڑھتے ہیں، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ زبان پر عملی طور پر مہارت حاصل نہیں کر پاتے۔ وہ عبارت پڑھ تو لیتے ہیں لیکن نہ اس کے دقیق معانی سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی سیاق و سباق کی باریکیاں۔ حالانکہ قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے زبان کا گہرا شعور ہونا لازمی ہے۔ ایک لفظ کے مختلف معانی یا اس کے استعمال کے فرق سے پورا حکم بدل سکتا ہے۔ اس لیے زبان کو محض حفظ و ترجمہ تک محدود کرنے کے بجائے تحقیق اور عملی فہم تک لے جانا ضروری ہے۔
یہی نہیں، تحقیق اور تنقیدی سوچ کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ آج دنیا میں علم صرف کتابوں کا رٹا نہیں بلکہ سوال اٹھانے، پرانے دلائل کو جانچنے اور نئے مسائل پر تحقیق کرنے کا نام ہے۔ مدارس کے طلبہ کو اگر تحقیق اور تجزیے کی تربیت ملے تو وہ دین کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق بہتر انداز میں پیش کر سکیں گے۔
یہاں اس پہلو پر بھی سوچا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں جہاں ہدایت اور احکام بیان ہوئے ہیں، وہاں کائنات، فطرت اور تخلیق کے بھی بے شمار پہلو بیان شامل ہیں۔ قرآن بار بار انسان کو زمین و آسمان پر غور وفکر کرنے، تخلیق کے راز سمجھنے اور فطرت کی نشانیوں پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ آیات اس وقت تک صحیح طور پر نہیں سمجھی جا سکتیں جب تک انسان کو سائنس کا کم از کم بنیادی فہم نہ ہو۔ اگر کوئی شخص سائنس سے بالکل نابلد ہو کر ان آیات کی تفسیر کرے تو اکثر وہ یا تو محض ظاہری باتیں دہرائے گا یا ایسی تشریحات کرے گا جو جدید عقل کے لیے ناقابلِ قبول ہوں گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ نوجوان نسل، جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے، قرآن سے دور ہونے لگیں گی۔ لیکن اگر مفسر یا مدرسہ کا فارغ التحصیل شخص سائنس کے بنیادی اصولوں سے واقف ہو تو وہ ان آیات کو زیادہ مدلل اور معقول انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ یوں قرآن کی عظمت اور اس کی سچائی کا اثر دلوں پر زیادہ گہرا ہوتا ہے۔
فقہ کی تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ کو صرف پرانے مسائل یاد نہ کرائے جائیں بلکہ انہیں اجتہاد کی صلاحیت بھی دی جائے۔ اجتہاد کا مطلب ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں نئے مسائل کا حل تلاش کرنا۔ یہ کام اس وقت ممکن ہے جب طلبہ اصولِ فقہ اور مقاصدِ شریعت کو گہرائی سے سمجھیں۔
مقاصدِ شریعت یہ ہیں کہ دین کے احکام دراصل انسان کی بھلائی، انصاف اور خیر کو قائم کرنے کے لیے ہیں۔ اگر طلبہ کو یہ اصول سمجھا دیے جائیں تو وہ ہر نئے مسئلے کو انہی اصولوں کے مطابق پرکھ سکیں گے۔ مثلاً جدید معاشی نظام، ماحولیاتی قوانین، میڈیکل سائنس کے مسائل— یہ سب مقاصدِ شریعت کی روشنی میں بہتر انداز میں حل کیے جا سکتے ہیں۔
اہل مدارس اپنے طریقۂ تدریس میں بھی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ آج دنیا میں علم محض استاذ کی تقریر یا کتاب کے مطالعے تک محدود نہیں رہا۔ گروپ ڈسکشن، ورکشاپس، پراجیکٹس، تحقیقی مضامین اور عملی تجربات اب تعلیم کا حصہ ہیں۔ اگر مدارس بھی اپنے نصاب میں یہ چیزیں شامل کریں تو طلبہ زیادہ بااعتماد اور وقت کے مسائل کے قریب ہوں گے۔ اسی طرح یونیورسٹیوں اور ماہرین کے ساتھ مشترکہ پروگرام، مختلف زبانوں کی تعلیم، اور سائنسی مضامین کا بنیادی تعارف طلبہ کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف وہ دین کے عالم ہوں گے بلکہ دنیا کے معاملات کو بھی بہتر انداز میں سمجھ سکیں گے۔

یہ سب اصلاحات اس لیے ضروری ہیں کہ دین کی اصل روح ہر زمانے میں زندہ رہے۔ مدارس کا مقصد صرف پرانی کتابوں کو دہرانا نہیں بلکہ امت کو ایسے علماء دین دینا ہے جو ہر زمانے کے چیلنجز کا جواب دے سکیں۔ روایت کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی۔
اگر مدارس اپنے نصاب کو اس انداز میں جدید بنائیں کہ زبان میں گہرائی ہو، سائنس کی بنیادی تعلیم ہو، فقہ میں اجتہاد اور تحقیق کا جذبہ ہو، اور تدریسی طریقے عملی ہوں، تو یقیناً وہ پہلے کی طرح آج بھی امت کی راہنمائی کر سکیں گے۔
(مضمون نگار کے آراء سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں)
