کتاب The Art of Laziness (سُستی کا ہنر) کا حاصل مطالعہ

Eastern
Eastern 8 Min Read 29 Views
8 Min Read

کتاب The Art of Laziness (سُستی کا ہنر) کا حاصل مطالعہ

قسط: 1

از: اظہارالحق قاسمی بستوی
پرلس اکیڈمی اورنگ آباد مہاراشٹر

حالیہ دنوں زندگی کی عادات و سوچنے کا انداز بدلنے والی ایک اہم کتاب دی آرٹ آف لیزینیس کے مطالعہ کا موقع ملا۔ کتاب کیا ہے زندگی کی قدر و قیمت کی شناخت کروانے والی ایک نہایت جامع، مختصر اور عمدہ کتاب ہے۔ کتاب کا ایک ایک عنوان ایسا ہے جو غور و فکر کی دعوت دیتا اور اپنے آپ میں مناسب تبدیلیاں لانے پر مہمیز کرتا ہے۔ کتاب کھولتے ہی پہلا مقولہ یہ لکھا ہوا ہے:
"ایک دن آپ بیدار ہوں گے اور آپ کے پاس وقت نہیں ہو گا وہ سب چیزیں کرنے کا جس کو آپ نے ہمیشہ کرنا چاہا ہے۔ انھیں ابھی کرنا شروع کر دیجیے” پَولو کوئلو۔
کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ کیوں نہ اس کے تمام اسباق کا چھوٹا چھوٹا سبقاً سبقاً خلاصہ اپنے لیے اور اپنے احباب کے لیے دیا جائے تاکہ خود کے ساتھ انھیں بھی اس کتاب کا فائدہ ہو۔
کتاب کے مصنف کا نام Library Mindset ہے جن کا تعلق کناڈا سے ہے اور وہ مارشل آرٹ میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ کتاب پی ڈی ایف میں گوگل پر اور امیزون پر آن لائن دستیاب ہے۔

کتاب کا نام تسمیۃ الشیئ بضدہ کی قبیل سے محسوس ہوتا ہے۔ یعنی سستی کا ہنر ہی ہماری تباہی کی اصل بنیاد ہے۔ اس لیے یہ کتاب سستی کو چھوڑ کر چستی کو اپنانے کی دعوت دیتی ہے۔

کتاب The Art of Laziness (سُستی کا ہنر) کا حاصل مطالعہ
Advertisement

کتاب دو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں پندرہ جب کہ دوسرے باب میں دس اسباق ہیں۔ اکثر اسباق ایک صفحہ یا اس سے کم پر مشتمل ہیں جب کہ کچھ اسباق مفصل اور کئی صفحات پر محیط ہیں۔

پہلا باب مائندسیٹ یعنی ذہنیت کے عنوان سے ہے جس کے ذیل میں یہ جملہ لکھا ہوا ہے کہ:
” اگر آپ تتلیوں کا پیچھا کرنے میں وقت ضائع کریں گے تو وہ اڑ کر آپ سے دور چلی جائیں گی۔ لیکن اگر آپ خوب صورت باغیچہ لگائیں گے تو تتلیاں از خود آ جائیں گی۔ پیچھا نہ کریں بل کہ کشش پیدا کریں۔”
مائنڈ سیٹ کے باب کے تحت جو پہلا سبق ہے اس کا نام ہے: 100% Responsibility: یعنی صد فیصد ذمے داری لینا۔
اس عنوان کے تحت مصنف نے یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ آپ کو اپنی ذمے داری خود ہی لینی ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ: اس سے کوئی فائدہ نہیں کہ آپ اپنی مشکلات کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرائیں۔ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا کر یقیناً ہم اپنے آپ کو مطمئن کر سکتے اور جھوٹی تسلی دے سکتے ہیں مگر حقیقت نہیں بدل سکتے۔ مثال کے طور پر آپ الزام دیں اپنے کام اور اپنے اہل خانہ کو کہ ان کی وجہ سے آپ کو ورزش کا وقت نہیں ملتا۔ ان سارے الزامات سے ایسا بالکل نہیں ہو گا کہ آپ کو ورزش کا وقت مل جائے گا بل کہ اس کا وقت آپ کو اپنی ذمے داری پر نکالنا ہوگا تبھی اس مشکل کا حل نکلے گا۔ کسی کو الزام دینے سے کچھ بھی فایدہ نہیں ہو گا۔

اسی طرح اگر آپ سست ہیں تو کسی دوسرے کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ بے جا بہانہ بنا کر بیٹھے رہتے ہیں تو بھی دوسروں کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ ورزش نہیں کرتے تو بھی دوسروں کو فرق نہیں پڑتا۔ کوئی دوسرا آپ کی فکر کرے گا بھی کیوں؟
اس لیے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ آپ خود ہی اپنی فکر کرنا اور ان چیزوں کو اپنی ذمے داری پر کرنا شروع کریں۔ اگر کسی کام کو کرنے میں غلطی ہو جائے تو کوئی بات نہیں۔ غلطی کرنا برا نہیں ہے مگر کسی غلطی کو بار بار کرنا برا ہے۔ اس طرح ماضی سے سبق لینا چاہیے مگر اس میں کھو نہیں جانا چاہیے۔

مصنف کہتا ہے کہ: آپ صرف اپنے کام سے کام رکھیے۔ صرف اس چیز پر توجہ رکھیے جو واقعتاً آپ سے متعلق ہے۔ ہر چیز کی مصیبت اپنے سر پالنا درست رویہ نہیں ہے۔ آپ کی زندگی کے آپ ہی سب سے قیمتی فرد ہیں اس لیے اپنے آپ کو بہتر سے بہتر کرنے کا ہدف بنالیں۔ لوگ کیا کہیں گے کا ٹینشن نہ پالیں۔ لوگوں کے ننانوے فیصد خیالات آپ کے بارے میں ایسے ہوں گے جو آپ کے کسی کام کے نہیں۔
آپ کی زندگی آپ کے سوا کوئی نہیں بدل سکتا۔ کسی کو آپ میں اتنی دلچسپی ہے بھی نہیں کہ وہ آپ کی زندگی کو بدلنے اور بہتر کرنے کی فکر کرے۔ جب لوگوں کی زندگی خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو وہ آپ کی زندگی کیا بدلیں گے!

کتاب The Art of Laziness (سُستی کا ہنر) کا حاصل مطالعہ
Advertisement

تین طرح کے لوگ
مصنف کہتا ہے کہ لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کبھی تبدیلی کا آغاز نہیں کرتے۔ وہ کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ بیٹھے رہتے ہیں اور سستی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت آشنا کرنے کی جہد نہیں کرتے۔ جو انہیں کرنا چاہیے اسے کرنے کے بجائے کسی معجزے کا انتظار کرتے ہیں جو ان کی زندگی بدل دے۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جو تبدیلی کا آغاز تو کرتے ہیں مگر جوں ہی مشکلات آنا شروع ہوتی ہیں وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ بعد میں ہمت ہار کر چھوڑ دینے پر تا عمر کف افسوس ملتے ہیں۔
تیسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو محنت کرتے ہیں اور مشکلات و مجاہدات کے باوجود ہمت نہیں ہارتے۔ وہ چلتے رہتے ہیں۔ یہ وہ چند فیصد لوگ ہیں جو کامیاب ہوتے ہیں اور تاریخ رقم کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی اتنی آسان نہیں۔ راہ میں مشکلات آئیں گی مگر آپ کو اپنے ہدف کی طرف بڑھنا ہی ہوگا۔

مصنف اس سبق کے اختتام پر کہتا ہے کہ: آپ جن چیزوں کو قابو میں رکھ سکتے ہوں انھیں اپنے بس میں رکھ کر آگے بڑھیں۔ جو چیزیں آپ کے قابو سے باہر ہیں ان سے صرف نظر کریں۔ آپ اپنی دماغی اور جسمانی صلاحیت کے استعمال پر قادر ہیں لہذا انھیں اپنے ہدف کے حصول پر استعمال کیجیے ۔لوگوں کی زبان اور سوچ آپ کے کنٹرول میں نہیں لہذا اس کی فکر نہ کریں۔

جاری

Share This Article
Leave a comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع (دو روزہ MOM (مرکز آن

Eastern Eastern

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام محمد عبید

Eastern Eastern

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں: سپریم کورٹ

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں:

Eastern Eastern

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی محمد

Eastern Eastern

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں محمد توقیر رحمانی اسلام

Eastern Eastern

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے محمد توقیر

Eastern Eastern

Quick LInks

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی جائزہ

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی

Eastern Eastern

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات خورشید عالم

Eastern Eastern

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _ از :

Eastern Eastern