خدمت خلق کی اہمیت

Eastern
Eastern 12 Min Read 184 Views
12 Min Read

از- نجم الہدی قاسمی، آسام

کیا دوسروں کی مدد کرنا، خدمت کرنا، دوسروں کا خیال رکھنا یہ ایک انسان پر اور بطور خاص ایک مسلمان پر فرض و واجب نہیں ہے؟
حالات، وقت، اور ضرورت کے مطابق بعض صورتوں میں یہ عمل کسی ایسے انسان پر ضروری اور واجب ہو جاتا ہے جو یہ کام کرنے کی مکمل صلاحیت و قدرت رکھتا ہے۔

خدمت خلق کا دائرہ بہت وسیع ہے اور خدمت خلق کا تصور ایک بڑے پیمانے میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہر کوئی کر سکتا ہے جس سے دوسرے کسی کو فائدہ پہنچے۔ مثلا کسی کو بہتر مشورہ دینا، کسی کو راستہ بتانا، کسی کو اچھی بات بتا دینا، اسی طرح کسی کو کسی مصیبت سے بچا لینا، کسی کی صحیح رہنمائی کرنا یہ سب خدمت خلق ہیں۔ اگر آپ کسی غریب کی مالی یا بدنی مدد نہیں کر سکتے ہیں تو دیگر مخلوقات کے دوسرے کام میں آپ ان کی ضرور مدد کریں جو آپ بآسانی کر سکتے ہیں۔

خدمت خلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شیوہ تھا اور بحیثیت پیغمبر آپ کا دوسرا ہدف ہی خدمت خلق تھا۔ نبوت سے پہلے بھی آپ نے خدمت خلق کی اور نبوت کے بعد بھی۔ اسی طرح صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  نےبھی خدمت خلق کو اپنا  شیوہ   بنایا۔ قرآن کریم میں بھی خدمت خلق کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے بلکہ قرآن کریم نے جہاں نیکیوں کا شمار کرایا وہی ایمانیات کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کا بھی تذکرہ کیا اور بہترین عمل اور عظیم اخلاق قرار دیا۔ چنانچہ سورہ بقرہ:177 میں اس طرح بیان کیا گیا کہ ”سارا کمال اسی میں نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی جانب کرو، لیکن اصل کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتب سماویہ اور پیغمبروں پر، اور وہ شخص خرچ کرتا ہو اللہ کی محبت میں اپنے حاجتمند رشتہ داروں پر، نادار یتیموں پر، دوسرے غریب محتاجوں پر، مسافروں  اور لاچاری میں سوال کرنے والوں پر، قیدی اور غلاموں کی رہائی پر۔“

لہذا اگر ہم نے یہ جان بوجھ کر، دیکھنے کے بعد اور صلاحیت و قدرت رکھنے کے باوجود یہ کام چھوڑ دیا تو ایک عظیم کار خیر کی توفیق ہم سے چھوٹ جائے گی۔ سورہ مدثر میں ارشاد ہے، ”کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں ڈال دیا؟ وہ کہیں گے ہم نماز ادا کرنے والوں میں  سےنہیں تھے، نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم بے ہودہ بحث کرنے والوں کے ساتھ مل کر فضول بحث کیا کرتے تھے اور ہم جزا کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے“ معلوم یہ ہوا کہ جہنمی ہونے کی جو بنیادی اسباب ہیں ان میں سے ایک مسکینوں کو کھانا نہ کھلانا ہے۔ وسعت اور طاقت رکھتے ہوئے بھی اگر کوئی یہ کام نہیں کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو جہنم میں ڈال سکتا ہے۔ مسکینوں کو کھانا کھلانا خدمت خلق کا ایک اہم ترین پہلو ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ، سورہ فجر میں ارشاد ہے، ”جو برائی تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے کہ تم نے یتیموں کی عزت نہیں کی نہ ہی مسکینوں کو کھانا دلانے کی ترغیب کی۔“ ایک دوسری جگہ، سورہ ماعون میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے، ”اے محمد! تم نے اس شخص کو دیکھا جو جزا و سزا کے دن کو جھٹلاتا ہے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیم پر ظلم کرتے ہیں، اس کے ساتھ حسن سلک نہیں کرتے، مسکینوں کو خود بھی کھانا نہیں کھلاتے اور ناہی دوسروں کو اس کار خیر کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی نماز سے غافل ہیں، وہ دکھاوا کرتے ہیں اور عام برتنے کی چیزیں روکتے ہیں“.                                                             یعنی جس طرح یہ لوگ اپنے رب کی عبادت سے غفلت برتتے ہیں اسی طرح لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے، اور حقیر سے حقیر چیز کو بھی اپنے بھائی کو محض استعمال کے لیے بھی نہیں دیتے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ماعون سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں محض استعمال کے لیے، جیسے کدال، پھاوڑا، دیگچی، ڈول وغیرہ۔

ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ”ای الاسلام خیر؟“اسلام کی بہترین تعلیم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تطعم الطعام و تقرأ السلام علی من عرفت و من لم تعرف“ کہ تم کھانا کھلاؤ اور سلام کرو اس کو جسے تم پہچانتے ہو اور اس کو بھی جس کو تم پہچانتے نہیں ہو۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی ایک بہترین تعلیم کھانا کھلانا جو خدمت خلق کا بڑا حصہ ہے اس کا تذکرہ کیا۔ اسی لیے اگر آپ کے پاس وسعت ہے، آپ دیکھ رہے ہیں مخلوق کو میری مدد کی ضرورت ہے، انسانوں کو میری مدد کی ضرورت ہے، مجھے خدمت خلق کرنا چاہیے، میں یہ کام کر سکتا ہوں، پھر بھی آپ نے نہیں کیا تو گویا آپ بڑے خسارے میں ہیں، کیونکہ حدیث قدسی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے میرے بندے میں بیمار تھا، تو نے میری عیادت نہیں کی، انسان حیران ہو کر کہے گا کہ اے میرے رب تو تو رب العالمین ہے، میں تیری عیادت کس طرح کرتا؟ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے میرے بندے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا، تو نے مجھے کھانا نہیں دیا، بندہ عرض کرےگا، اے پروردگار! تو تو بے نیاز ہے، تجھے کس طرح کھانا کھلاتا؟ ﷲ تعالیٰ فرمائےگا ، کیا یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا، لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو اُسے کھانا کھلاتا تو اس کاثواب میرے یہاں پاتا۔ اسی طرح اللہ فرمائے گا، اے میرے بندے! میں نے تجھ سے پانی مانگا، تو تو نے مجھے پانی نہیں پلایا، انسان کہے گا اے میرے رب، میں تجھے کس طرح پانی پلاتا؟   جب کہ تو رب العالمین ہے ۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا، مگر تو نے اسے پانی نہیں پلایا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا ۔(صحیح مسلم)

بے شمار قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں خدمت خلق کی فضیلت اور اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ہر شخص اپنی ہی خواہشات کو پوری کرنے میں لگا ہوا ہے۔ انسان یہ بھول چکا ہے کہ اسے ملنے والی ہر نعمت میں کسی دوسرے کا بھی حق ہوتا ہے۔ ہماری قوم اور ہمارا معاشرہ نازک حالات سے درگزر ہے۔ لوگ صرف چند پیسوں کی خاطر اپنے دین و ایمان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کا بقدر کفایت سرمایہ ان کے پاس نہیں ہے۔ بے روزگار، بے گھر، بھوکے پیاسے مر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایک گروہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہی ہے، فضول خرچی میں بے شمار مال و دولت لوٹا رہے ہیں، شادی بیاہ میں لاکھوں کا کھانا ضائع کر رہے ہیں، لیکن بازو میں بھوکے سو رہے کسی سے کوئی سرو کار نہیں۔ تعلیمی ادارے تجارت کا مرکز بن چکےہیں، جہاں غریبوں کے لیے کوئی راہ میسر نہیں۔

اسی لیے ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ہمارے پاس جو بھی ہے، چاہے وہ مال و دولت ہو یا اپنی کوئی خاص صلاحیت ہو، یہ محض خداوند تعالی کی نعمت اور مہربانی ہے۔ رضائے الہی کی خاطر اس کا صحیح جگہ استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم اللہ کی مخلوق کے کس کام آسکتے ہیں، بلکہ ہمیں یہ دعا کرنا چاہیے کہ اللہ ہمیں خدمت خلق اور دوسرے کے کام آنے کی توفیق عطا فرما۔

اگر آپ استاد ہیں تو تعلیم کو عام کریں، غریب بچوں کو مفت یا کم فیس میں پڑھنے کا موقع فراہم کریں، اور اپنے علم کو کماحقہ اس کے متعلم تک پہنچائیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو غریب اور لاچاروں کی مفت یا کم فیس میں علاج کریں، ان کے لیے کم قیمت والی اور اچھی دوا کا انتظام کریں، اور مریضوں کی کماحقہ خیال کریں۔ اگر آپ کا تعلق سیاست یا عدالت سے ہے یا آپ پولیس یا کوئی بھی سرکاری افسر ہیں، تو آپ اپنے کام میں ایمانداری کے ساتھ بطور خدمت خلق اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مختصر یہ کہ آپ کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو، آپ اپنی حیثیت و صلاحیت اور اپنی استطاعت کے مطابق خدمت خلق کے کسی نہ کسی پہلو میں بہترین کام انجام دے سکتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو ایک کار خیر میں ہمہ گیر مصروف رکھ سکتے ہیں۔ اپنی پسندیدہ چیز میں کسی اور کا حق نکالنا اور دوسروں کے ساتھ اس کو بانٹنے میں ہی اس چیز کا اصل مزہ ہے اور نعمتیں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے ” لئن شکرتم لأزیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید”۔ اللہ تعالی ہم سب کو اخلاص کے ساتھ خدمت خلق کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Share This Article
Leave a comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع

اے شہر آرزو تجھے کہتے ہیں الوداع (دو روزہ MOM (مرکز آن

Eastern Eastern

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام

نئے حالات میں مرکز المعارف کا ایک اور انقلابی اقدام محمد عبید

Eastern Eastern

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں: سپریم کورٹ

مدارس میں بنیادی تعلیم کی بہتری ممکن، مگر خودمختاری میں مداخلت نہیں:

Eastern Eastern

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی

مہاوکاس اگھاڑی یا مہایوتی؟ مہاراشٹر میں کون لے جائے گا بازی محمد

Eastern Eastern

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں

حضرت سلمان فارسی دین فطرت کی تلاش میں محمد توقیر رحمانی اسلام

Eastern Eastern

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے

حق و باطل کی  معرکہ آرائی  روز اول  سے ہے محمد توقیر

Eastern Eastern

Quick LInks

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی جائزہ

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی

Eastern Eastern

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات

ٹرمپ کی جیت اور فلسطین کے حوالے سے کچھ خدشات خورشید عالم

Eastern Eastern

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _

_جی نہ چاہے تھا أسے چھوڑ کے آنے کو! _ از :

Eastern Eastern