محمد توقیر رحمانی
کالم نگار ایسٹرن کریسنٹ کے سب ایڈیٹر اور مرکزالمعارف کے استاذ ہیں۔
لیلٰی اور مجنوں کی محبت کی کہانی ہر عمر کے افراد میں مقبول اور زبان زدعام وخاص ہے۔ اس کہانی کی طرح، بہت سی دوسری کہانیاں بھی اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ محبت انسانی زندگی میں کس قدر مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ محبت دنیاوی زندگی کو خوشگوار رکھنے میں مددگار ہوتی ہے، اس سے ہمدردی اور بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے۔ والدین اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں، بچے اپنے والدین سے محبت کرتے ہیں، اور میاں بیوی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اور یہ محبت معاشرے کے ہموارطریقے سے چلنے کو یقینی بناتی ہے۔
یقینی طور پر محبت کئی تنازعات کے لیے ایک علاج وحل کادرجہ رکھتی ہے۔ ہم اکثر اپنے بزرگوں سے اس کی انقلابی طاقت کے بارے میں کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔ ایک ایسی ہی کہانی ایک جنگل میں رہنے والے خاندان کی ہے۔ یہ خاندان ناخوش اور آپسی تنازعات کا شکار تھا یہاں تک کہ ایک دن، محبت اور دولت ان کے سامنے آئیں اور ان سے ان میں سےایک کا انتخاب کرنے کو کہا۔ ایک خاندانی مشاورت کے بعد، ان لوگوں نے بہو کے مشورے پر محبت کا انتخاب کیا۔ جب اس خاندان نے اپنے انتخاب کا اظہار کیا، تو محبت نے انہیں بتایا کہ محبت کو منتخب کرنے سے دولت بھی ان کی زندگی میں آجائے گی، کیونکہ محبت ہمیشہ دولت کو ساتھ لاتی ہے۔ یہ کہانی خاندان کے اندر محبت کی گہری اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
لوگ اکثر محبت کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں، حالانکہ اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ بہت سے لوگ اپنے خاندان، گاؤں، یا قوم میں محبوب ہوسکتے ہیں، لیکن ایک ایسی شخصیت بھی ہے جس نے لوگوں کو انسانیت کا درس دیا اور آپسی محبت کا سبق پڑھایا اور وہ خود لوگوں کے دلوں میں محبت کی دائمی جگہ بنالی: وہ ذات آقائے نامدار حضرت محمد ﷺہیں ۔ آپ کی پیدائش سے قبل ہی آپ کو جانا جانے لگا تھا اور آپ سے محبت کی جاتی تھی کیونکہ آپ انمول تھے۔ خالقِ کائنات نے انسانیت کو آپ کے آنے کی اطلاع پہلے ہی دیدی تھی۔ رسول پاک ﷺ کی محبت لوگوں کے قلب اس طرح پیوست ہوگئی تھی کہ لوگ اپنے پیاروں کو چھوڑ دیتے تھے اور حتی کہ ان کے دشمن بھی ان کی تعریف کرنے پر مجبور تھے۔
غزوۂ اُحد کے دوران، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو شدید زخمی اور بے ہوش دیکھا۔ ہوش میں آنے کے بعد، حضرت طلحہ کی پہلی فکر رسول اللہ ﷺ کی خیریت کے بارے میں تھی۔ یہ فکر صحابہ کرام کی حضوراقدسﷺ سے گہری محبت اور احترام کی عکاسی کرتی ہے۔
رسول اکرمﷺ سب سے محبوب کیوں ہیں؟ آپ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، اخلاقی خلاف ورزی نہیں کی، آپ نرم دل، ملنسار اور خوش اخلاق تھے۔ آپ ایماندار، سچے، اور قابل اعتماد تھے، مکہ کے لوگ آپ کو صادق اور امین کے القاب سے یاد کرتے تھے حتی کہ نبوت سے قبل ہی آپ کو ان القاب سے خطاب کیا جاتاتھا۔ وہ آپ کے پاس اپنے قیمتی اموال اعتماد کے ساتھ بطورِ امانت چھوڑدیتے تھے، وہ آپ کی امانتداری پر کامل یقین رکھتے تھے۔ آج تک انسانی تاریخ میں کوئی دوسری شخصیت آپ کے مثالی کردار کی ہمسری نہیں کر سکی۔
جب پہلی وحی نازل ہوئی، تو حضرت محمد ﷺ نے اپنی بیوی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اپنی پریشانی بیان کی۔ انہوں نے آپ کو تسلی دی اور آپ کی خصوصیات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا: رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا، محتاجوں کی مدد کرنا، مہمانوں کی فراخ دلی سے خدمت کرنا، اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنا تو آپ کا شیوہ ہے۔ ایسی خصوصیات نے ہی آپ کو سب دلوں کا محبوب بنایا ہے اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کریگا۔
سرورکائنات ﷺ کے صحابہ نے آپ کے لیے اپنی جانیں قربان کیں اور آپ کے ہر لفظ کی پیروی کی۔ آپ کے اخلاقی کردار کی بلندی ایسی تھی کہ آپ کے دشمن بھی آپ کی زندگی کا بغور جائزہ لینے کے بعد متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک امریکی فلسفی اور مصنف مائیکل ہارٹ نے عیسائی ہونے کے باوجود اپنی کتاب*”The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History”* میں حضرت محمد ﷺ کو سرفہرست رکھا، آپ کی مذہبی اور دنیاوی کامیابیوں کو غیر معمولی قرار دیا۔ ہارٹ نے یہ دلیل دی کہ اسلام پر حضرت محمد ﷺ کا اثر عیسائیت پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے زیادہ تھا، کیونکہ عیسائیت کی بہترین ترقی کا زیادہ حصہ سینٹ پال سے منسوب ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی محبت، ایمانداری، اور اچھے کردار کی گواہ ہے۔ آپ نے دنیا پر ایک دیرپا نقوش چھوڑا، اور آپ کی یہ میراث آج بھی لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہے