نئے زمانے کے نئے بت
ازــــــ محمد توقیر رحمانی
زمانے کی گردِش میں تغیر و تبدل ایک غیر متنازعہ حقیقت ہے۔
بقول علامہ اقبال
‘ثبات ایک تغیر کو ہے زمانہ میں’
مگر یہ تبدیلی زیادہ تر ظاہری اشکال میں ہوتی رہتی ہے، جب کہ مفاہیم، میلانِ طبع، اور داخلی عقائد اکثر وہی رہتے ہیں، صرف نئے چولے پہن کر ظاہر ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں ایجادات و اکتشافات نے تمدن کو آگے بڑھایا، وہیں افکار و نظریات نے اقوام کی روحانی سمت متعین کی۔ اگر تغیرِ زمانہ کو صرف اشیاء کے ناموں اور شکلوں کے بدلنے تک محدود رکھیں، تو اس فکری دھوکہ کا شکار ہونا کوئی مشکل نہیں ، جس کے سبب قدیم شرک آج بھی ہماری تہذیب، سیاست اور معیشت میں نہ صرف موجود ہے، بلکہ بسا اوقات اس سے زیادہ فعال اور مہلک صورت میں سرایت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
جب "شرک” کا تصور ذہن میں آتا ہے تو ہماری روایت پرستانہ سوچ فوراً کسی پتھر، مٹی یا لکڑی کے بت کی طرف لپکتی ہے۔ مگر کیا شرک صرف یہی ہے؟ کیا اللہ کی خدائی کو کسی پتھر کے سامنے جھک کر چیلنج کرنا ہی شرک ہے؟
شرک ایک فکری انحراف ہے۔ یہ صرف عبادت کے مظاہر تک محدود نہیں، بلکہ یہ ربوبیت کی صفات کو رب کے سوا دوسروں میں تسلیم کرنے کا داخلی رویہ ہے۔ کبھی یہ لات و مناة کی صورت میں ظاہر ہوا، تو کبھی جدید دنیا کے "نظاموں”، "اصولوں” اور "آزادیوں” کی شکل میں۔ شرک کی اصل روح وہ ہے جو توحید کے برعکس تمام مظاہر میں پائی جائے: صفاتِ ربوبیت کی تقسیم۔ > "تَقْسِيمُ صِفَاتِ الرُّبُوبِيَّةِ عَلَى غَيْرِ اللّٰه” یعنی: اللہ کی ربوبیت کو دوسروں میں تقسیم کر دینا — یہی شرک کا جوہر ہے۔
قدیم مشرک تمدنوں میں شرک صرف ایک مذہبی رسم یا عبادتی مظہر نہ تھا، بلکہ وہ ایک ہمہ جہتی فکری نظام تھا، جس میں ربوبیت کی صفات کو مختلف بتوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ عربوں کے یہاں “لات” کو رزق کی دیوی تصور کیا جاتا تھا، جو مال و زر عطا کرنے والی تھی؛ ہندومت میں یہی صفت “لکشمی” کے سپرد ہے، جو دولت و خوشحالی کی دیوی سمجھی جاتی ہے۔ طاقت، عزت اور غلبے کی صفات “عُزّىٰ” کے ذریعے عربوں کے نظامِ شرک میں مجسم تھیں، تو ہندومت میں “کالی” یا “ہنومان” انہی صفات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بارش، زراعت اور قدرتی وسائل پر کنٹرول کا عقیدہ “ہبل” کے گرد گھومتا تھا، جبکہ ہندومت میں اس کردار کو “اندر” یا “ورونا” کے حوالے کیا گیا ہے۔ علم، فہم، اور فنون کا منبع عربوں کے یہاں “سواع” تھا، اور ہندومت میں “سرسوتی” ان صفات کی مجسم تصویر سمجھی جاتی ہے۔ موت، تقدیر اور آخرت کے فیصلوں کا مرکز عربوں کے عقائد میں “مناة” تھی، تو ہندومت میں “شنی” یا “یمراج” یہ مقام رکھتے ہیں۔ نجات، فلاح، اور روحانی آزادی کی جو صفات توحید میں صرف اللہ کے لیے مخصوص ہیں، وہ بھی مشرکانہ نظاموں میں تقسیم ہو گئیں؛ جیسے ہندومت میں “کرشن” یا “وشنو” کو نجات دہندہ کا درجہ دیا گیا۔
یہ سب محض تاریخی حوالہ جات نہیں، بلکہ شرک کی اس فکری ترکیب کو واضح کرتے ہیں جس میں انسان خدا کے اوصاف کو تقسیم کر کے اپنی خواہشات، خوف اور امیدوں کو مجسم بتوں میں پروجیکٹ کرتا ہے۔ جب ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شرک کی بنیاد ان صفات کی تقسیم ہے جو صرف اللہ کے لیے خاص ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شرک کا قدیم مظہر دراصل جدید دور کے فکری نظاموں میں صورت و اسلوب اور اوزار کی تبدیلی کے ساتھ مکمل طور پر آج بھی زندہ ہے۔

آج حرمین کی زیارت کرنے والے کو نہ لات دکھائی دے گی، نہ مناة، نہ ہبل، نہ عزىٰ۔ مگر دل کی آنکھ سے دیکھیں اور ذہن کی پرتوں میں اترنے والے عقائد اور رویوں کا جائزہ لیں، تو وہی شرک نئی شکلوں، نئے ناموں اور نئے نظاموں کے روپ میں سرگرمِ عمل نظر آتا ہے۔ وہی صفاتِ ربوبیت جو کبھی بتوں میں تقسیم کی گئی تھیں، آج انسانی اداروں، طاقتوں، حکومتوں اور عالمی اصولوں میں نظر آتی ہیں۔
مثلاً، رزق
ماضی میں رزق کی دیوی کے طور پر "لات” کی پرستش کی جاتی تھی؛ ہندومت میں "لکشمی” کو دولت اور خوشحالی کی دیوی مانا گیا۔ آج سرمایہ دارانہ نظام، حکومتوں، مارکیٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر نوکری چلی گئی تو رزق ختم ہو جائے گا؛ اگر مارکیٹ بیٹھ گئی تو معیشت تباہ ہو جائے گی؛ یا اگر حکومت بدل گئی تو روزگار خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ "اللّٰهُ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ” کے نظریے سے انحراف اور لات کی روح کی واپسی کے علاوہ اور کیا ہے؟
طاقت اور دفاع کی صفات جو قدیم عرب میں "عُزّىٰ” کے ساتھ وابستہ تھیں، اور ہندومت میں "کالی” یا "ہنومان” جیسے طاقتور دیوتاؤں میں ظاہر کی گئیں، آج امریکہ، نیٹو، اور ایٹمی طاقتوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ جب کوئی فرد بلکہ ملک اور قومیں یہ سوچنے لگے کہ امریکہ کی ناراضگی کا مطلب سب کچھ تباہ کردینے کے مترادف ہے تو کیا یہ پرانے شرک کی وہ جدید صورت نہیں جس میں مادی طاقت کو خدائی قوت کا مقام دیا جاتا تھا۔
زراعت، بارش، اور وسائل قدیم عرب میں "ہبل”، اور ہندومت میں "اندر” یا "ورونا” کو بارش و پیداوار کا خدا مانا جاتا تھا۔ آج کے دور میں سائنسی ادارے، اور ٹیکنالوجی کس کردار کو سنبھالے ہوئے ہیں؟ جب دلوں میں یہ تصور گھر کر جائے کہ بیرون ممالک سے بیج نہ آنے، یا ٹیکنالوجی بند ہو جانے پر ہم برباد ہو جائیں گے تو اسے "ہبل” کی واپسی کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہے؟
تقدیر، موت اور قانون سازی کی صفات جو کبھی "مناة”، "شنی” یا دیگر دیوی دیوتاؤں سے منسوب تھیں، آج اقوامِ متحدہ، آئین، عدالتِ عظمیٰ، اور جمہوری ایوان کونسا رول ادا کر رہے ہیں؟ جب یہ تصور عام ہو جائے کہ "عوام جو چاہے، وہی قانون ہے”، "آئین سب سے بڑا حاکم ہے”، تو کیا یہ صریح انکار نہیں اس اصولِ توحید کا جو کہتا ہے: "إن الحكم إلا لله” — یعنی حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔
علم، ہدایت، اور روشنی کی جو صفات "سواع” یا "سرسوتی” سے منسوب تھیں، آج میڈیا، روشن خیالی، لبرل ازم اور سوشل انفلوئنسرز کی شکل میں کیا باور کرایا جارہا ہے؟ آج سچ اور جھوٹ، خیر اور شر، حق اور باطل کے معیارات کا تعین کن ہاتھوں میں ہے؟ کیا یہ ایک قسم کا فکری شرک نہیں؟ جہاں علم کی حاکمیت اللہ سے چھین کر انسانوں کو دے دی گئی ہو۔
وطن پرستی کا بت
حب الوطنی ایک فطری جذبہ ہے اور یہ بجا طور پر انسان کی اولین ذمہ داریوں میں شمار ہوتی ہے کہ جس سرزمین میں وہ پَلتا بڑھتا ہے، اس سے محبت کرے، اس کی حفاظت کرے، اور اس کے امن و استحکام میں اپنا حصہ ڈالے۔ مگر جب یہی جذبہ اپنی فطری حدود سے نکل کر عقیدے اور تقدس کی حد میں داخل ہو جائے، تو یہ وطن پرستی بن جاتا ہے — یعنی وطن کو خدا کے مقام پر فائز کر دینا، اس کی پرستش کرنا، اور اس کے نام پر ہر سچ و جھوٹ، ہر عدل و ظلم کو جائز مان لینا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک جائز محبت ایک فکری بیماری اور عقیدے کی گمراہی میں بدل جاتی ہے، اور یہ شرک کی ان قباحتوں میں سے ہے جو عقلِ سلیم کو بھی نامنظور ہے اور وحیِ الٰہی کو بھی۔
آزادی، نجات اور نجات دہندہ کا تصور جو قدیم مشرکانہ نظام میں "وشنو” یا "کرشن” کے گرد گھومتا تھا، آج "ہیومن رائٹس”، "فریڈم آف ایکسپریشن”، اور "میری زندگی، میری مرضی” جیسے نعروں سے کس چیز کو ظاہر کیا جارہا ہے؟ کیا نفس پرستی کو آزادی کا نام دے کر انسانیت کو اسی شرکِ خفی کے شکنجے میں نہیں دھکیلا جارہا؟ جس کا قرآن یوں ذکر کرتا ہے: "أفرأيت من اتخذ إلهه هواه” یعنی کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنا لیا ہے؟
آخر میں، نجات، مساوات اور جنت کا وعدہ، جو کبھی باطل خداؤں کے ذریعے کیا جاتا تھا، آج اشتراکیت، کمیونزم اور مساواتِ مطلقہ کے نظریے میں دیکھنے والوں کو کیا کچھ نظر نہیں آرہا؟ جب انسان سمجھتا ہے کہ اگر نجی ملکیت ختم ہو جائے، یا سارے وسائل برابر تقسیم کر دیے جائیں، تو دنیا جنت بن جائے گی۔ یہ عقیدہ انسان کو ہی خالقِ تقدیر ماننے کا ایک مغرورانہ اعلان کے علاوہ اور کیا ہے؟
یہ بات محض نظریاتی نہیں بلکہ تجرباتی حقیقت ہے کہ شرک، خواہ وہ کسی بھی دور یا شکل میں ہو، ہمیشہ انسان کے وجود اور سماجی ڈھانچے میں اپنی جگہ بناتا رہا ہے۔ اور اگر کوئی یہ گمان کرے کہ آج کے "مہذب” دور میں، سائنسی ترقی اور تعلیمی شعور کے ہوتے ہوئے شرک کا وجود صرف ماضی کی داستانوں تک محدود ہو چکا ہے تو یہ اس کی فکری سادگی اور سطحی نظر کی دلیل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج بھی ہم شرک کی وہی قدیم روح، اپنی نئی شکلوں میں، بالکل اپنے آس پاس، اپنے ہی معاشرے، اپنے ہی ماحول، اور اپنے ہی طرزِ زندگی میں دیکھ سکتے ہیں—بس آنکھیں کھولنے اور دل کے پردے ہٹانے کی ضرورت ہے۔

ہمیں کسی طویل سفر یا کسی اجنبی سرزمین کی تلاش کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم صرف اپنے ملک، اپنی ریاست، اور اپنے ہی معاشرتی و ثقافتی ماحول پر گہری نظر ڈالیں تو ہمیں شرک کی وہی تقسیمِ صفاتِ ربوبیت نئے نظاموں اور اداروں میں رچ بس کر دکھائی دے گی اور شرک کے پرانے اور نئے دونوں روپ واضح نظر آئیں گے۔ کبھی یہ کسی سیاسی شخصیت یا جماعت کی اندھی عقیدت میں جھلکتا ہے، کبھی کسی سرمایہ دار یا ادارے پر غیر مشروط انحصار میں، کبھی عدالت یا آئین کو مطلق حاکم مان لینے میں، اور کبھی کسی نظریے یا نعروں کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لینے میں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ بت تو بدل گئے ہیں، مگر شرک کی روح آج بھی زندہ ہے — بس اس نے نئے لباس پہن لیے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہم کسی بت کے آگے نہیں جھکتے، تو درست ہے؛ مگر جب دل، دماغ، فکر، اور خوف غیراللہ کے تابع ہو جائے، تو جھکنے کی ضرورت ہی کہاں باقی رہتی ہے —شرک پہلے ہی مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔
آج امتِ مسلمہ کو صرف عقائد کی سطح پر نہیں، بلکہ فکر، تہذیب، اور نظامِ زندگی کے ہر گوشے میں جدید شرک کی شناخت اور ان سے مکمل بیزاری و متبادل کی فراہمی کیساتھ خدا وحدہُ لاشریک سے رجوع کی ضرورت ہے۔ توحید کا مطلب صرف اللہ کو معبود ماننا نہیں، بلکہ حاکم، رازق، مالک، نجات دہندہ، صاحبِ اختیار اور اس طرح کی دیگر صفات کو ماننا ہے اور اسی بنیاد پر دنیا کے ہر باطل تصور کو چیلنج کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ اگر ہم نے شرک کی فکری اور تہذیبی اشکال کو نہ پہچانا، تو ہم "بت پرست نہیں” کہنے کے باوجود انھی بتوں کی پرستش میں گرفتار رہیں گے—مگر اس بار وہ بت ہمارے ذہنوں، نظاموں اور نظریات میں چھپے ہوں گے۔
ماشاءاللہ بہت عمدہ ۔ ایک نئے فارمیٹ اور مختلف انداز میں
ماشاءاللہ بہت عمدہ اور قابل تعریف