مسلمانوں کی پستی اور عروج کے ممکنہ اسباب
ازــــ مفتی جنید احمد قاسمی
چھٹی صدی تاریخِ انسانی کا ایک تاریک ترین دور تھا۔ انسانیت پستی و نشیب کی آخری نقطہ تک پہنچ چکی تھی۔ روئے زمین پر ایسی کوئی طاقت نہیں تھی جو ہلاکت، سفاکیت اور ظلم و بربریت کے تاریک غار سے انسانیت کو نکال کر خدا شناس بنا سکے اور انہیں انجام سے باخبر کرکے برے بھلے کی تمیز کرنے کا ہنر سکھا سکے۔ انسانیت کے رہنما بھی زندگی کے اس کشمکش اور تلخ حقائق سے اوپر اٹھ کر دین، سیاست، روحانیت اور مادیت کے اس معرکے میں نہ صرف قیادت کرنے سے محروم ہو گئے بلکہ انہوں نے ظالم بادشاہوں سے سازباز کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ناجائز خواہشات اور ظالمانہ نظام سلطنت و معیشت میں ان کے آلہ کار بن کر کمزوروں کے مال ہڑپنے اور ان کی عزت و عظمت سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں ان کے شریکِ کار بن گئے۔جس کے نتیجے میں روم اور ایران جیی سلطنتیں اُس وقت کے مغرب و مشرق کی قیادت کا اصل ذمہ دار اور اجارہ دار بنی ہوئی تھیں۔ وہ نشۂ سلطنت میں سرشار تھے۔ اس انتہائی نازک دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے اور عدل و انصاف پر مبنی ریاستِ مدینہ کا قیام کرکے اپنے ماننے والے مسلمانوں کو اقوامِ عالم پر برتری عطا فرمائی۔ جہالت کا تمام پراگندہ صاف کیا جو ایک قوم کی ترقی و کامرانی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔ پھر روئے زمین نے اپنی آنکھوں سے وہ پاک و صاف، عدل و انصاف، محبت اور مواسات پر مبنی ریاستِ مدینہ کا وہ آفتاب دنیا کے افق پر طلوع ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا، جس میں امیر، غریب، کالے اور سفید وغیرہ کا امتیازی فرق نہیں تھا۔ یہی ریاستِ مدینہ رفتہ رفتہ دنیا کے دوسرے خطے میں پھیل گئی، کیونکہ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ تاریخِ اسلام کا سب سے قیمتی دور عہد رسالت اور خلافاۓ راشدین کا دور ہے جو دنیا ئے حکمرانی کی تاریخ میں ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ جس میں امن و امان، رواداری، سلامتی، ترقی و خوشحالی کا دنیا ئے انسانیت کے لیے ایک کھلی مثال تھا۔
پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد بھی فتوحات، امن و شانتی اور مسلمانوں کی ترقی اپنے پیشرو عہدِ خلافت جیسا اوصاف اپنے دامن میں لیے ہوئے تھا۔ اس کے بعد دنیا نے بنو امیہ کے عہدِ بادشاہت کی شاندار فتوحات کا نظارہ کیا جو محمد بن قاسم کی شاندار فتوحات سے عبارت تھا۔ صلاح الدین ایوبی سے لیکر خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفۃ المسلمین سلطان عبدالحمید ثانی تک مسلمانوں کے دورِ خلافت کا وہ شاندار باب تھا، جس کے امن و شانتی، فراوانی و خوشحالی اور کامیابی و کامرانی کے مزین عہد کا مشاہدہ کرکے انسانیت ٹھنڈی سانسیں لیتی تھی۔ مختصرًا مسلمانوں نے اس روئے زمین کے اکثر و بیشتر حصے پر تقریباً بارہ سو سال عدل و انصاف کے ساتھ حکمرانی کی اور خوشگوار زندگی کا لطف اٹھاتے رہے۔ دوسری طرف مغلیہ سلطنت جو چالیس لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل وسیع و عریض سرحد کے دائرے میں شان و شوکت کی حکومت کر رہی تھی۔
ان تمام کامیابیوں اور شاندار دور کے روشن باب کے باوجود مسلمانوں کی شاندار تاریخ میں کچھ دراڑیں آنے لگیں اور خارجی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کا دورِ حکومت زوال کا شکار ہونے لگا۔ اندلس میں مسلم حکومت کا خاتمہ ہوا، تاتاریوں کے شکنجے میں مسلم حکومتیں یکے بعد دیگرے آنے لگیں، خلافت عثمانیہ جو سات براعظم پر مشتمل تھی، آہستہ آہستہ اس کے چراغ بجھنے لگے اور بالآخر پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کا مکمل خاتمہ ہوگیا اور یہ تاریخ کے صفحات میں ایک قصہ پارینہ کے طور پر محفوظ ہوگیا۔ ادھر مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ انگریزی چالبازی اور مکر و فریب کا شکار ہوکر 1857ء میں بجھ گئی۔
فلسطین پر صیہونی بربریت و سفاکیت، برما میں مسلمانوں کے قتلِ عام، عراق و شام میں مسلمانوں کے آشیانے اکھاڑ پھینکنے کے بعد دنیا کے دوسرے خطے کی طرف مسلمانوں کی ہجرت، افغانستان سمیت دنیا کے کئی مسلم ممالک پر غیروں کے تخریب کاری اور وہاں بسنے والے مسلمانوں کی عزت و عظمت سے چھیڑ چھاڑ مسلمانوں کی ایک کھلی ذلت آمیز مثال بن گئی۔ اس قومِ مسلم کی تخریب کاری میں جہاں تخریب کاروں کی محنت سو فیصد شامل ہے، وہیں ہمارے قوم کی بداخلاقی، دین سے دوری، تعلیم و معیشت کے حصول سے کوسوں دوری اور دین بزناری کے ساتھ ساتھ نفاق کا بھی بڑا دخل ہے۔
امت مسلمہ آج انتہائی ذلت کے ساۓ میں زندگی گزارنے کے باوجود جس طرح اپنے ایمان سے دوری اختیار کیے ہوئے ہے کہ خواہشات، رسم و رواج کے آگے دینی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اپنی خواہشات کو مقدم رکھنے میں اپنے اوپر فخر سمجھتی ہے۔ رسومات کی انجام دہی کو ہی صرف دین تصور کر لیا گیا ہے۔
آپسی انتشار، خاندانی رسم و کش، بغض و عناد اور لامذہبیت کا جنون ان کے ذہنوں میں اس قدر سوار ہے کہ اپنی نجی اور ملی مسائل میں دینی حمیت و غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنی اتحاد و اتفاق کو تار تار کرتے ہوئے غیروں کا آلہ کار بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسائل میں گریے رہنے کی وجہ سے ترقی و کامرانی کے اسباب پر توجہ دیتے ہیں اور نہ بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں کچھ دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی علمی وتحقیقی میدانوں میں اپنا کچھ کردار ادا کرتے ہیں۔
اس گزرے دور میں جہاں کچھ ممالک مسلمانوں کے زیر اثر ہیں یا ان ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ اپنی آپسی اختلافات یا بیرونی دباؤ کی وجہ سے، کچھ ذاتی اغراض و مقاصد کے باعث نہ صرف سیاسی بحران کے شکار ہیں بلکہ پوری طرح غلامی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اس سیاسی بحران کے پیچھے بعض طاغوتی طاقتوں کا کنٹرول رہتا ہے۔ وہ جسے چاہیں سیاست کے کرسی پر براجمان کرتے ہیں اور جس پارٹی سے چاہتے ہیں سیاست کی کرسیاں چھین لیتے ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں اپنی قوم کی وفادار ہوتی ہیں اور اپنے مسلمان قوم کی سیاسی، تعلیمی، معاشی اور معاشرتی شعبوں میں ترقی کی حامی ہوتی ہیں، انہیں وہ طاقتیں ہمیشہ سیاسی کامیابیوں سے کوسوں دور رکھنا چاہتی ہیں۔ اگر اتفاقاً اپنے غیور عوام کی اکثریتی رائے سے کسی مذہبی سیاسی جماعت کو زمامِ اقتدار ہاتھ لگ جائے، تو انہیں بے دخل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں، جس کا ہم اور آپ آئے دن مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
وہ ملک جو کلمہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا، یا ایسے ممالک جن کا اولین ہدف اپنی مسلمان قوم کی کامیابی و کامرانی تھا، آج انہیں طاغوتی قوتوں نے کیسی کیسی آپسی سیاسی الجھنوں میں جکڑ رکھا ہے۔ ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے آپسی اختلافات و افتراق اور امن و امان کی تخریب کاری میں انہیں بھرپور استعمال کیا گیا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر وہ ایسے کردار ادا کرتے ہیں کہ یہود بھی شرما جائیں۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ایسے ممالک میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ اسلام مظلومیت کا شکار ہے، اور طاغوتی طاقتوں کے سامنے اپنی غلامیت کا اظہار اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ معاشی ترقی کی اصل کنجی ان طاغوتی طاقتوں کے سپرد ہے۔ اور جو کچھ اپنے کنٹرول میں ہے، ان قومی خزانے میں اپنی اجارہ داری بلکہ موروثی وراثت سمجھ بیٹھے ہیں۔ اسی وجہ سے، پورے ملک میں قدرتی ذخائر ہونے کے باوجود معاشی بحران کا شکار ہیں اور عوام میں بے روزگاری، افلاس و تنگی اس قدر عام ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اقتصادی مسائل میں دوسرے اقوام سے کوسوں دور ہیں، اور ایسے حالات کیوں نہ ہوں، کیونکہ قدرتی ذخائر اور قدرتی کانوں کے خام مال کی قیمت لگانے کا اصل ذمہ دار وہی طاغوتی طاقتیں ہیں۔ اسے زیادہ زوال اور غلامیت کا اظہار کیا ہو سکتا ہے؟
سیاست جس قوم کا شیوہ تھی بلکہ اسلام کے ایک اہم شعبہ تھی، اور عدل و انصاف قائم کرنا جس قوم کی اولین ترجیح ہوا کرتی تھی، آج وہ قوم شاندار ماضی رکھنے کے باوجود اس قدر سیاسی بے شعوری کے عالم میں ہے کہ فلسطینی ماؤں، بہنوں کی چیخ و پکار اور خون میں لت پت معصوم بچوں کے آہ و زار ان کے کانوں تک نہیں سنائی دیتی، جو ان کے اندر موجود اخوت کے مادے کو جھنجھوڑ سکے۔ اور وہ مسلم ممالک جو اپنے آپ کو اسلام کے حقیقی وارث اور علمبردار گردانتے ہیں، وہ سرحد کے قریب اپنی عالی شان کوٹھیوں میں اس قدر عیش و آرام کی لذت لینے میں مصروف ہیں کہ صرف سرحد پار معصوموں اور نہتے فلسطینیوں پر گرتے ہوئے بموں کی آوازوں کی گونج سنائی نہیں دیتی۔ غلامی کی لبادے میں اس قدر ملبوس ہیں کہ ان مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے ان کی ضمیر اجازت نہیں دیتی، بلکہ اپنے قلوب اس حد تک سیاہ و سفاک بنا چکے ہیں کہ صہو نی ظالموں کے خلاف اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی کے لیے اپنے شہریوں کے احتجاج کو بھی گوارا نہیں کرتے۔ بلکہ درپردہ صہوہنیوں کے حامی بننا اپنا فخر سمجھتے ہیں۔
اگر ہماری قوم اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت، عظمت و رفعت کو واپس حاصل کرنا چاہے اور اپنی برتری کو دوبارہ دوسرے اقوامِ عالم پر ثابت کرنا چاہے، اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے دوسری اقوام کی قیادت کے فرائض انجام دینا چاہے، تو انہیں ضروری ہوگا کہ اپنے اندر سے زوال کے مذکور اسباب کو ختم کریں۔ ساتھ ہی اسلامی تعلیمات کو اپنے گلے سے لگائیں، دینی حمیت و غیرت ایمانی کو اپنے سینے کی زینت بنائیں، سنت پر عمل درآمد ہوا کریں اور تقویٰ و طہارت کے ساتھ عدل و انصاف کے قیام کو اپنے ہدف کا اولین مقصد بنائیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کا خاتمہ کرکے اتحاد و یکجہتی اور قومی مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے اجتماعیت کا مظاہرہ کریں۔ اخلاقی بلندیوں پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام اور خودمختاری کے لیے مضبوط قیادت قائم کریں، اور عدل و انصاف پر مبنی ایک نظامِ حکومت کا قیام عمل میں لائیں جو سیاسی، معاشی اور اقتصادی اعتبار سے خود کفیل ہو، اور پوری طرح طاغوتی قوتوں سے آزاد ہو، اور اپنی قوم کی کامیابی و کامرانی کو اولین ترجیح دیں۔
اسی کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کی نئی نسل کو جدید اور عصری علوم سے آراستہ کرکے، جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدانوں میں مہارت رکھنے والے افراد کو تیار کرنا ہوگا۔ سائنسی ایجادات میں مسلمانوں کی شراکت کو سو فیصد تک لانا ہوگا۔ آج مسلمان اگر اپنی کھوئی ہوئی عظمت و رفعت کو واپس لانا چاہے، تو انہیں بہترین قوم کے ڈھانچے میں ڈھلنا ہوگا۔ روئے زمین پر بسنے والے ان غیور مسلمانوں کو اپنا آئیڈیل بنانا ہوگا جنہوں نے اپنی کھوئی ہوئی عظمت و رفعت اور انصاف کے حصول کے لیے اسلامی اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہونے کی کوششیں کی ہیں۔اور اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوۓ ہیں۔ خدا وحدہُ کی منشاء سے ان شاءاللہ ایک جماعت کامیابی کی دہلیز کو عنقریب چومیگی۔
ایک جگہ کے مسلمانوں نے طاغوتی قوتوں کے ساتھ تقریباً 20 سال تک لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اپنی دینی حمیت اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرکے دنیا کے سپر پاور کے ساتھ بے سروسامانی کے عالم میں لڑ کر اپنی عزت، خودمختاری اور معاشی کفالت کی آزادی حاصل کی، جس کی کامیابی پر روئے زمین کی طاغوتی قوتیں حیران و ششدر ہیں۔ دوسری جماعت دنیا کی وہ قوم ہے جو ایک کھلی جیل میں زندگی بسر کر رہی ہے، جن پر ہر لمحہ بم برسائے جا رہے ہیں، ان کے آشیانے اکھاڑ دیے جا رہے ہیں، اور دنیا کے سفاک ترین لوگ ان پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ انہیں زندہ جلانے اور بھوک سے تڑپا کر مار دینے کے لیے تمام شیطانی قوتیں آپس میں متحد نظر آتی ہیں۔ ان تمام آلام و مصائب کے باوجود، وہ لوگ طاغوتی قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے لیے ایک منٹ کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنی رفعت و عظمت کے حصول، اور اپنی آزادی کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے اندر ترقی، کامیابی، کامرانی، رفعت اور عظمت کے حصول کے لیے جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ان میں وہ باتم موجود ہیں۔
لہٰذا، اگر مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور رفعت کو حاصل کرنا چاہیں تو انہیں دین اسلام کو اپنے سینے سے لگانے کے ساتھ ساتھ آپسی انتشار و اختلافات کو دفن کرنا ہوگا۔ بلند اخلاقی اقدار کو اپنانا ہوگا اور تعلیمی میدان میں قدم رکھنا ہوگا۔ قوم کے شرفاء کو عدل و انصاف پر مبنی، آزاد سیاسی، معاشی اور اقتصادی نظام حکومت ترتیب دینا ازحد ضروری ہوگا جو بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کرسکے اور قوم کی ترقی و کامیابی کی اصل ذمہ داری نبھا سکے۔
ماشاءاللہ بہت خوب
اللہ خوب ترقیات سے نوازے