پڑھائی سے بچنے کی فکر میں تین نا بالغ بچوں نے لے لی اپنے ہی معصوم ساتھی کی جان!

Eastern
Eastern 10 Min Read 21 Views
10 Min Read

لمحۂ فکریہ
پڑھائی سے بچنے کی فکر میں تین نا بالغ بچوں نے لے لی اپنے ہی معصوم ساتھی کی جان!

✍️ محمد طیّب قاسمی

حال ہی میں دہلی کے علاقہ مصطفی آباد میں واقع مدرسہ تعلیم القرآن میں ایک دل دہلا دینے والا حیرت انگیز غمناک واقعہ پیش آیا ہے، کہ تین نابالغ بچوں نے ایک دن کی چھٹی کی خاطر اپنے پانچ سالہ ساتھی روحان کو قتل کر ڈالا۔

پولیس نے قتل کے الزام میں دو گیارہ سالہ اور ایک سات سالہ تینوں بچوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
ملزم بچوں کے بیان کے مطابق انہیں ایسا لگتا تھا کہ روحان کی موت سے ایک دن کے لئے مدرسہ بند ہو جائے گا اور ہم پڑھائی سے بچ جائیں گے۔

اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طلبہ کو چھٹی محبوب ہوتی ہے، لیکن یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں؛ پہلی یہ کہ بچوں کا مقررشدہ معمول کی چھٹی کے انتظار واشتیاق میں رہنا یا غیر متوقع چھٹی پر خوش ہونا ایک فطری چیز ہے، جس میں کوئی برائی نہیں ہے، لیکن دوسری چیز خطرناک ہے کہ چھٹی کا اتنا دلدادہ اور خوگر ہوجانا کہ طلبہ اس کے لئے مختلف بیماری وغیرہ کے حیلے بہانے کرنے لگیں، جھوٹ بولنے لگیں، یہاں تک کہ اتنے بے حس ہو جائیں کہ اپنے ہی ساتھی کو قتل کر ڈالیں، طلبہ کی یہ عادت نہایت ہی تشویشناک اور سخت نقصان دہ ہے خود ان کے لئے بھی اور اہل مدارس کے لئے بھی۔

مذکورہ واقعہ میں ملزم طلبہ کی تعلیم اور پڑھائی سے بے رغبتی وبد شوقی قتل کا اصل فیکٹر ثابت ہوئی۔ یہاں اہل مدارس کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر طلبۂ مدارس میں یہ بے رغبتی وبدشوقی کیوں پروان چڑھتی ہے؟ انہیں قرآن کریم کی مقدس تعلیم سے کونسی چیز وحشت میں ڈال دیتی ہے؟ وہ مدرسوں کے ہوسٹل اور ان کے ماحول سے کیوں گھبرانے لگتے ہیں؟ وہ اساتذہ کی پرچھائیوں سے کیوں ڈرنے لگتے ہیں؟

پڑھائی سے بچنے کی فکر میں تین نا بالغ بچوں نے لے لی اپنے ہی معصوم ساتھی کی جان!
Advertisement

یہ سارے سوالات ہیں جنہیں جب تک حل نہ کیا جائے اس وقت تک تعلیم قرآن کے طلبہ میں شوق اور انسیت پیدا نہیں ہوسکتی۔

آئیے اس پر کچھ روشنی ڈال لیتے ہیں، شاید یہ سوالات حل ہو جائیں
انسانی زندگی بنیادی طور پر تین ادوار پر مشتمل ہوتی ہے(۱) بچپن (۲)جوانی (۳)بڑھاپہ
ان میں سے ہر دور کی سوچ وذہنیت اور نفسیاتی ضروریات مختلف ہوتی ہیں، جن کا سمجھنا اور لحاظ رکھنا ایک استاذ ومعلم، شیخ ومربی یا ناصح ومبلغ کے لئےضروری ہوتا ہے ورنہ اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
چنانچہ دوراول یعنی بچپن میں بچوں کی ذہنیت کی اہم ضروریات ونفسیات درج ذیل ہیں:
۱۔ محبت اور توجہ: بچے محبت اور توجہ کی تلاش میں رہتے ہیں، استاذکی محبت اور دلچسپی بچوں کی تعلیم کے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔ جب استاذ بچوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا سلوک کرتا ہے، تو بچوں کی خود اعتمادی اور تعلیم میں دلچسپی بڑھتی ہے۔ یہ مثبت ماحول بچوں کو سیکھنے میں مدد دیتا ہے اور تعلیمی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے، محبت بھرا رویہ بچوں کو مطمئن کرتا ہے اور ان کے تعلیمی تجربے کو بہتر بناتا ہے۔
۲۔ محفوظ تعلیمی ماحول : طالب علم کے لئے محفوظ ماحول کی اہمیت بے پناہ ہیں۔ ایک محفوظ تعلیمی ماحول سے مراد وہ جگہ ہے جہاں طالب علم جسمانی، ذہنی اور جذباتی طور پر خود کومحفوظ محسوس کرتا ہو، اس کے مختلف فوائد ہیں، کیوں کہ جب طالب علم ذہنی طور پر سکون اور محفوظ محسوس کرتا ہے، تو وہ اپنے مقصد پر زیادہ توجہ دیتاہے اور روز بروزاس کی تعلیمی کارکردگی میں بہتری آتی ہے، نیز جب محفوظ ماحول ملتا ہے تو طالب علم استاذ کے سامنے خود اعتمادی کے ساتھ اپنے خیالات و سوالات اور خدشات کا اظہار بے خوف وخطر کر سکتا ہے۔
۳۔ تشویق اور تعریف:طالب علم کے لیے تعریف اور تشویق کی اہمیت بہت زیادہ ہے، کیونکہ یہ ان کی تعلیمی اور ذاتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، بچے کی کارکردگی پر تعریف سے اس کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، جو اسے مزید کوشش کرنے اور چیلنجز کا سامنا کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جب اس کی محنت کی قدر کی جاتی ہے تو وہ مزید محنت کرنے اور بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور خوب تعلیمی دلچسپی اورشوق کا مظاہرہ کرتا ہے۔
۴۔ نئی چیزیں سیکھنے کے مواقع: بچے نئی چیزیں سیکھنے کے لئے دلچسپی رکھتے ہیں، چاہے وہ کھیل کی صورت میں ہو یا تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے ہو، اس لئے متنوع سرگرمیوں، مختلف تعلیمی اور تفریحی سرگرمیوں کا انتظام کرکے بچوں کو خوب مانوس کیا جاسکتا ہے۔

پڑھائی سے بچنے کی فکر میں تین نا بالغ بچوں نے لے لی اپنے ہی معصوم ساتھی کی جان!
Advertisement

۵۔ تفریح اور کھیل: اگر تعلیمی ودینی حرج نہ ہو تو تفریحی کھیل کود بھی بچوں کے لئے مفید ہیں، کھیل اور تفریح بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لئے اہم ہیں، جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور سماجی ہنر کی ترقی میں مدد دیتے ہیں; بچوں کے لیے تفریح اور کھیل کی اہمیت کئی پہلوؤں سے واضح ہوتی ہے، چنانچہ ورزشی کھیل کود جسمانی صحت کو بہتر بناتے ہیں، ان سے فٹنس اور قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے، ذہنی تناؤ کو کم کرتے ہیں اور دماغ کو آرام فراہم کرتے ہیں، جس سے ذہنی تندرستی بہتر ہوتی ہے، کھیلوں کے ذریعے طلبہ میں ٹیم ورک، تعاون، اور قیادت کی صلاحیتیں فروغ پاتی ہیں، تفریحی کھیل طلبہ کی جذباتی نشوونما میں معاون ہوتے ہیں، انہیں شکست اور کامیابی دونوں کا سامنا کرنے کا موقع ملتا ہے، ہم اس کھیل کود کی بات نہیں کررہے ہیں جس سے تعلیمی یا دینی حرج لازم آتا ہو، بلکہ اس ورزشی اور تفریحی کھیل کی بات کررہے ہیں جس سے بچوں کو مذکورہ بالا فوائد حاصل ہوں۔

چنانچہ تعلیمی ادارہ قائم کرتے وقت اگراس بات کا بھی خیال رکھ لیا جائے کہ ادارے کی عمارت کا ایک حصہ باضابطہ بچوں کی تفریح کے لئے بھی مختص ہو، جس میں بچوں کے لئےمتعدد تفریحی کھیلوں کا نظم ہو، اس سے جہاں بچوں کو دل لگی حاصل ہوگی وہیں ان کے ذہن و بدن کو روزانہ ترو تازگی بھی حاصل ہوگی۔
اگر ہم بچوں کو ہونہار بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی تعلیم وترقی کے لئے شرعی حدود میں رہتے ہوئےدورِ بچپن کی ان مذکورہ نفسیات اور ذہنی ضروریات کے مطابق ماحول پرشکوہ نظام قائم کرکے بچوں کو مدرسہ، مدرسہ کی تعلیم اوراساتذہ سے مانوس کرنا ہوگا، جب بچے مانوس ہوں گےاور جسمانی وذہنی اعتبار سے مضبوط ہوں گے تو تعلیم سے بھاگنے کا خیال ان کے ذہن ودماغ میں نہیں آئے گا۔
بعض بچے چھٹی کے خوگر اپنی تعلیمی کمزوری کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں، اور یہ کمزوری کبھی ضعف حافظہ کی وجہ سے ہوتی ہے ، توکبھی پڑھائی میں من نہ لگنے کی وجہ سے بھی ہوتی ہے، اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے ارباب حل وعقد کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ بچوں کو مانوس کیا جائے، اور بچوں کے بچپنہ اور اس کے مقتضیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا نظام ہو کہ بچہ چھٹی ہونے کا منتظر تو ہو لیکن اتنی شدت کے ساتھ اس کا خوگر نہ ہو کہ وہ اس کی خاطر کسی غلط راستے پر چل پڑے۔

نیز بعض بچے تعلیم میں ذہنی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں لیکن کوئی اور صلاحیت ان کے اندر ہوتی ہے، کیوں کہ اللہ نے ہر بچہ کے اندر کچھ نہ کچھ خداداد صلاحیت پیدا فرمائی ہے، مگر تعلیمی بوجھ اس کے اوپر ڈالنے سے وہ دن بہ دن ڈپریشن کا شکار ہوتا جاتا ہے،اس کا کونفڈینس لیول ڈاؤن ہوتا جاتا ہے، تو ہمیں ضرورت ہوتی ہے اس بات کی کہ اس بچہ کا کونفڈینس لیول بحال کیا جائے اور اس کو حوصلہ دیا جائے،تاکہ دوسری صلاحیت کے ذریعہ حاصل کردہ وہ حوصلہ اور کونفڈینس تعلیم میں بھی اس کے لئے معاون ومددگار ثابت ہوسکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ بچہ کی نفسیات اور ذہنی ضروریات کے مطابق ماحول فراہم کیا جائے.
اللہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے، آمین!

Share This Article
Leave a Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Trending News

انگریزی میڈیم مرکز آن لائن مدرسہ (MOM) میں داخلہ جاری

انگریزی میڈیم مرکز آن لائن مدرسہ (MOM) میں داخلہ جاری محمد توقیر…

Eastern Eastern

عہد بشار کا اختتام:  رازہائے سر بستہ؟؟؟؟

عہد بشار کا اختتام:  رازہائے سر بستہ؟؟؟؟ طہ جون پوری 08-12-24 محض…

Eastern Eastern

ڈھاکہ میں "جلسۂ اردو” کا انعقاد "اردو بنگلہ دیش کی دوسری زبان ہے” — پروفیسر ڈاکٹر غلام ربانی

ڈھاکہ میں "جلسۂ اردو" کا انعقاد "اردو بنگلہ دیش کی دوسری زبان…

Eastern Eastern

خواب، یادیں اور ملاقاتیں

خواب، یادیں اور ملاقاتیں محمد توقیر رحمانی سفر، محض راستوں کی مسافت…

Eastern Eastern

"ارتداد کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں”

محاضرہ بعنوان "ارتداد کے بڑھتے واقعات اور ہماری ذمہ داریاں" مہدی حسن…

Eastern Eastern

Quick LInks

علامہ قمر الدین گورکھپوری رحمہ اللہ: خصوصیات وخدمات

علامہ قمر الدین گورکھپوری رحمہ اللہ: خصوصیات وخدمات خورشید عالم داؤد قاسمی…

Eastern Eastern

حماس اسرائیل جنگ بندی، غزہ کے عوام کو سلام!

حماس اسرائیل جنگ بندی، غزہ کے عوام کو سلام!   خورشید عالم…

Eastern Eastern

یحیی سنوار: ایک مثالی قائد اور بیباک سپہ سالار

یحیی سنوار: ایک مثالی قائد اور بیباک سپہ سالار خورشید عالم داؤد…

Eastern Eastern