مسلم نام بدلنے والوں سے دو ٹوک بات!
یوگی اور گری راج جیسے اقتداری نظریات رکھنے والوں کو یہ سوچنے کی سخت ضرورت ہے کہ کیا ان میں واقعی اتنی طاقت اور جرات ہے کہ وہ آئینِ ہند کو پامال کرکے پورے 25 کروڑ مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری قرار دے دیں؟
ازــــــ مدثر احمد قاسمی
ہندوستان میں حالیہ برسوں کے دوران شہروں، سڑکوں، ریلوے اسٹیشنوں اور تاریخی عمارتوں کے ناموں کی تبدیلی ایک نئی سیاسی روایت بن چکی ہے۔ الہ آباد کو پریاگ راج، فیض آباد کو ایودھیا، اور مغل سرائے کو دین دیال اُپادھیائے جنکشن کا نام دینا صرف نام کی تبدیلی نہیں بلکہ کج فکری کی علامت ہے۔ یہ تبدیلیاں بظاہر تاریخی ناموں کی بحالی کے نام پر کی جاتی ہیں، مگر دراصل ان کے پس منظر میں ایک خاص نظریہ کارفرما نظر آتا ہے جو ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو ایک خاص رنگ فینے کی کوشش ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جن شہروں کو مغلوں اور مسلم حکمرانوں نے بسایا، سنوارا اور ترقی دی، آج انہی کے آثار کو مٹانے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ ایسے اقدامات نہ صرف تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہیں بلکہ موجودہ دور میں مذہبی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کے لیے بھی ایک خطرناک اشارہ ہیں۔
آج تک کسی مستند مورخ نے یہ نہیں لکھا کہ مغل حکمرانوں نے ہندوستان میں شہروں یا گاؤں کے نام مذہبی بنیاد پر تبدیل کیے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغل دور میں شہر بسائے گئے، تعلیمی و تمدنی مراکز قائم ہوئے اور تہذیبی ہم آہنگی کو فروغ دیا گیا، نہ کہ کسی مذہب یا برادری کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔
اب یہ سلسلہ محض چند شہروں تک محدود نہیں رہا بلکہ بی جے پی کی حکومت والے صوبوں میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ جہاں مہاراشٹر میں تاریخی شہر اورنگ آباد کے ریلوے اسٹیشن کا نام بدل کر چھتر پتی سانبھا جی نگر رکھ دیا گیا ہے، وہیں بہار کے علی نگر سے بی جے پی امیدوار میتھلی ٹھاکر نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوئیں تو علی نگر کا نام بھی تبدیل کر دیں گی۔ یہ بیانات اور اقدامات اس ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں جو ملک کے تاریخی ورثے کو مذہبی شناخت کے ترازو میں تولنے لگی ہے۔ افسوس کہ سیاسی مفاد کی خاطر تاریخ کے سنہرے اوراق سے مسلم تہذیب و تمدن کے نقوش مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ہندوستانی معاشرت کے توازن اور گنگا جمنی تہذیب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

لوجک ایک چیز ہوتی ہے اگر اس زاوئیے سے دیکھا جائے تو نام بدلنے میں کوئی لوجک نظر نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ مسلمانوں سے تعصب اور نفرت کا واضح استعارہ ہے۔
یہ واقعی غور طلب بات ہے کہ اگر اس ملک کے 25 کروڑ مسلمان بھی جواباً نفرت کی عینک سے ہندو برادرانِ وطن کو دیکھنے لگیں تو اس سرزمین کا کیا حال ہوگا؟ نفرت کی یہ آگ جب ایک طرف سے بھڑکتی ہے تو دوسری طرف بھی ہل چل ہونا ایک فطری عمل ہے۔ یاد رکھیں! اگر نفرت کو ہی سیاست اور سماج کا ایندھن بنا لیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب یہ ملک اپنی پہچان، اپنی تہذیب اور اپنے امن سے محروم ہو جائے گا۔
یوگی اور گری راج جیسے اقتداری نظریات رکھنے والوں کو یہ سوچنے کی سخت ضرورت ہے کہ کیا ان میں واقعی اتنی طاقت اور جرات ہے کہ وہ آئینِ ہند کو پامال کرکے پورے 25 کروڑ مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری قرار دے دیں؟ آئین ہم سب کا معاہدۂ اجتماعی ہے — اس کی پاسداری ہی قوم کی جان و روح ہے — اور کسی بھی ذاتی یا جماعتی ایجنڈے کو آئین پر فوقیت دینے کی جرات جمہوریت کے لیے خودکش حملہ ثابت ہوگی۔ تاریخی انصاف، مساوات اور بنیادی حقوق کی پامالی نہ صرف ملکی نظام کو متزلزل کرے گی بلکہ قومی ہم آہنگی اور امن کی شمع کو بھی بجھا دے گی۔ اگر دم دکھانا ہے تو آئین کی پاسداری اور سب شہریوں کو برابر کا درجہ دے کر دکھائیں — ورنہ اقتدار کا یہ مظہر صدیوں پر محیط تہذیب اور قوم کے اجتماعی مفاد کے خلاف ایک خطرناک فریب ہوگا۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مسلمان اس خطۂ ہند میں ہمیشہ اقلیت کی حیثیت سے رہے— مگر صدیوں تک یہاں کی تہذیب، حکمرانی اور معاشرتی دھاروں پر گہرا اثر رکھنے والے رہے۔ اگر کبھی انہوں نے اپنے اقتدار کے دوران نفرت سے کام لیا ہوتاتو اس نقشِ زمین اور معاشرتی ڈھانچے کو یکسر بدل دینا ان کے بس کی بات تھی، مگر انہوں نے نہ ایسی خواہش رکھی اور نہ کبھی اپنی حکمرانی کو کسی ذات یا مذہب کی بدنامی یا مٹانے کے لیے استعمال کیا۔ یہی رواداری ہمارے ملک کی سب سے بڑی شناخت ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے بی جے پی اور اُن کے نظریاتی حلیفوں کو چاہیے کہ وہ اس یک طرفہ عمل سے باز آجائیں؛ کیونکہ اقتدار وقتی ہوتا ہے — آج آپ کی حکمرانی ہے، کل گردشِ حالات آپ سے اسےجدا کر سکتی ہے۔

آئینِ ہند اور قومی سلامتی کی روح یہی تقاضا کرتی ہے کہ کسی بھی فرقہ یا قومیت کے خلاف پہچان مٹانے کی کوشش نہ ہو؛ اقتدار کے نشے میں اگر ہم آئینی اصولوں کو قربان کر دیں تو نقصان صرف مسلمان کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوگا۔ عقل، انصاف اور مستقبل بینی یہی بتاتی ہیں کہ آج کے فیصلے کل کی تاریخ بن کر رہ جائیں گے — اس لیے بہتر ہے کہ طاقت مند اپنے اختلاف کو سمجھداری، رہنمائی اور آئینی راستوں تک محدود رکھیں، ورنہ تاریخ بھی اور وقت بھی انہیں معاف نہیں کرے گا۔
