غیر مہذب والدین,مہذب بچوں کی توقع نہ کریں!
مدثر احمد قاسمی
زندگی کے کچھ حقائق ہر کس و ناکس کے لئے روز روشن کی طرح عیاں ہوتے ہیں۔ انہی حقائق میں سے ایک حقیقت بچوں میں نقل کرنے کی فطری صلاحیت ہے۔ اس کی بہت واضح مثال یہ ہے کہ اب عموماً ڈیڑھ سے دو سال تک کے بچے بھی سلام کرنا اور ہاتھ ہلا کر اللہ حافظ کہنا سیکھ لیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر نو عمر بچوں کو گالم گلوچ کا ماحول مل جائے تو وہ بلا جھجک گالی بھی دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اب تو ملٹی میڈیا موبائل کی وجہ سے بچوں کی نقل کرنے کی صلاحیت کا سمجھنا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔ موبائل دیکھ کر بچے صر ف آواز اور الفاظ ہی کی نقل نہیں کرتے بلکہ حر کات و سکنات کی بھی نقل کرتے ہیں۔ اس لئے بچوں کے بڑوں کیلئے اور بطور خاص والدین کیلئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ بچوں کے سامنے محتاط ہوکر بات چیت کریں اور مثبت انداز میں کسی کام کو انجام دیں۔
اس پس منظر میں آج کے معاشرے کا بڑا المیہ یہ ہے کہ والدین اور گھر کے بڑے اپنے بچوں کو مہذب، سلیقہ مند اور سنجیدہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف عموماً وہ خود غیر مہذب، غیر سلیقہ مند اور غیر سنجیدہ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں بچے نقل کرنے کی اپنی فطری صلاحیت کی وجہ سے ویسا ہی بنیں گے جیسا کہ وہ اپنے بڑوں کو دیکھتے ہیں۔ اس وجہ سے اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا شمار معاشرے کے مثالی افراد میں ہو تو سب سے پہلے ہمیں اپنے گھروں کو مثالی بنانا ہوگا۔
آئیے! اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کے تناظر میں ایک مثالی گھر کو کیسا ہونا چاہئے؟ اس کو سمجھنا اس اعتبار سے بہت آسان ہے کہ شریعت نے صاف طور پر اچھے اور بُرے گھروں کی پہچان بتا دی ہے۔ مثال کے طور پر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس گھر میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہےاور جس گھر میں نہیں کیا جاتا ہے، دونوں گھروں کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ ‘‘ (مسلم) اس حدیث کی روشنی میں اگر کوئی گھر اللہ کے ذکر سے معمور ہے تو وہاں کے تمام مکینوں کی زندگی، جس میں بچے بھی شامل ہیں ، پرسکون ہوگی؛ بصورت دیگر پژمردگی وہاں کی علامت بن جائے گی اور ہر ایک اپنی زندگی میں خشکی محسوس کرے گا۔
اسی طرح بچوں کو ایک خوبصورت ماحول دینے اور صحیح نہج پر ان کی تربیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ گھر کے بڑے (افراد) اچھے کاموں میں ایک دوسرے کو تعاون پیش کریں جس کو دیکھ کر بچے بھی سیکھیں گے اور اسی کو اپنی زندگی میں برتیں گے۔ اس کی ایک بہت عمدہ مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں دی ہے:’’اللہ رحم کر اس مرد پر جو رات میں اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے، پھر وہ بھی نماز پڑھے، لیکن اگر وہ جگانے کے باوجود نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی چھڑک دے۔ اور اللہ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھ کر نماز ادا کرے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، پھر وہ بھی نماز ادا کرے، لیکن اگر جگانے کے باوجود نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی چھٹرک دے۔ ‘‘ ( ابوداؤد )
یہ سچ ہے کہ جب گھر میں بچے اس طرح کا دینی اور سنجیدہ ماحول دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنی نقل کر نے کی صلاحیت کی وجہ سے اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بچے جب بگڑ جاتے ہیں تو گھر کے بڑے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ باہر کے ماحول نے بچوں کو خراب کردیا۔ یہاں اہم سوال گھر کے بڑوں سے یہ ہے کہ آپ نے بچوں کو گھر میں ایسا ماحول کیوں نہیں دیا کہ وہ باہر نکل گئے اور وہاں جا کر بگڑ گئے؟
علامہ ابن قیم نے لکھا ہے: ’’عام طور پر بچوں میں بگاڑ اور انحراف ان کے والدین کی طرف سے آتا ہے، ان کی لاپر وائی اور دین کے فرائض وسنن کی تعلیم نہ دینے کی وجہ سے۔ انہوں نے بچپن میں انھیں ضائع کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بڑے ہو کر انہوں نے اپنے والدین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔‘‘
خلاصہ ٔ کلام یہ ہے کہ اگر ہم اپنے بچوں کو نیک اور صالح دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں سب سے پہلے گھر ہی میں بہترین ماحول فراہم کرنا ہوگا، جس سے وہ سیکھیں گے اور بہتر انسان بنیں گے۔ اگر ہم اس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہے تو بچوں کے بگاڑ پر کتنا ہی رنج کریں، اس سے کچھ نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب کے مستقل کالم نگار اور الغزالی انٹر نیشنل اسکول، ارریہ کے ڈائر یکٹر ییں۔)