شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے
ازــــــــــ محمد توقیر رحمانی
لفظ "شرک” سنتے ہی انسانی ذہن غیر شعوری طور پر بتوں کی طرف لپکتا ہے۔ ایک پتھر، ایک مٹی کی مورت، ایک انسانی ساختہ پیکر جسے سجدہ کیا جائے، دعائیں دی جائیں اور حاجت روا سمجھا جائے۔ یہی شرک کا تصور ہے جو عام ذہن میں بیٹھا ہوا ہے، اور بلاشبہ یہ شرک جلی ہے، ایک کھلا اور ظاہر جرم، جو ہر فہم رکھنے والا انسان پہچان سکتا ہے۔ مگر مسئلہ تب جنم لیتا ہے جب شرک کے معنی کو محض بت پرستی تک محدود کر دیا جائے۔ گویا شرک صرف وہی ہے جو مندر میں ہو، مگر مسجد کے اندر، دل کی تہوں میں، سوچ کی خامشی میں اگر وہی رویہ چھپ کر بیٹھ جائے تو کیا ہم اسے شرک نہیں مانیں گے؟
قرآن نے جہاں شرک جلی کا کھلے الفاظ میں رد کیا ہے، وہیں شرک خفی کی گہرائیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ وہ شرک جو لفظوں میں نہیں، رویوں میں ہوتا ہے؛ جو عبادت میں نہیں، نیتوں میں پلتا ہے؛ جو سجدے میں نہیں، اعتماد کے رخ پر چھپا ہوتا ہے؛ جو بتوں کو نہیں، اپنے ہی وجود کو معبود بناتا ہے۔
سورۂ کہف کے رکوع نمبر 17 میں ایک ایسا ہی منظرنامہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک شخص ہے، زمیندار، دولت مند، باغات کا مالک، جسے جدید اصطلاح میں ہم زرعی ماہر، انجینئر، سرمایہ کار کہہ سکتے ہیں۔ اس کے پاس دو شاداب باغ ہیں، جن کے بیچ میں سے نہریں گزرتی ہیں، پھلوں سے لدے درخت، موسمی نظم و نسق کا بہترین انتظام، اور زرخیز کھیتی، سب کچھ بظاہر کامیابی کی انتہا ہے۔ مگر وہ شخص جس چیز میں مبتلا ہے، وہ شرک جلی نہیں، نہ وہ بت پرست ہے، نہ وہ خدا کا منکر بلکہ اس کا شرک زیادہ مہلک ہے، کیونکہ وہ خدا کی نعمتوں کو اپنی تدبیر، سائنس، عقل، اور منصوبہ بندی کا ثمرہ سمجھ رہا ہے۔
وہ کہتا ہے:
"میرے باغ کبھی بھی فنا نہیں ہوں گے۔ اور اگر کبھی بگڑ بھی گئے، تو میں ان سے بہتر پیدا کرلوں گا۔”
یہ صرف ایک جملہ نہیں، یہ انسانی خودفریبی کا نچوڑ ہے۔ یہ وہ غرور ہے جو عقل کو معبود، سائنس کو خالق، اور تدبیر کو تقدیر سمجھ بیٹھا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں شرک خفی خاموشی سے ایمان میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔
اب اس کے مقابل ایک دوسرا کردار ہے، ایک مؤمن، جو بظاہر کمزور، سادہ، اور دولت و شہرت سے خالی ہے، مگر ایمان اور توحید سے لبریز۔ وہ اس خود پسند شخص کو کہتا ہے: "کیا تو اس رب کو بھول گیا جس نے تجھے ایک حقیر نطفہ سے پیدا کیا؟ کیا تیری عقل، تیرا علم، تیرے وسائل بھی تجھے اس حقیقت سے غافل کر چکے ہیں کہ یہ سب اللہ کا فضل ہے؟”
یہ فقرہ محض نصیحت نہیں، توحید کی زندہ تصویر ہے۔ ایک ایسا باطن جو دیکھتا ہے کہ اسباب کے پیچھے مسبّب ہے، تدبیر کے پیچھے تقدیر ہے، اور عقل کی حدود کے بعد ایک خدائی قدرت کی حکمت جاری و ساری ہے۔
پھر وہ دن بھی آتا ہے جب فخر کے وہ دو باغ، جو ہمیشہ ہرے بھرے تھے، ویران ہو جاتے ہیں۔ نہر سوکھ جاتی ہے، درخت بے برگ ہو جاتے ہیں، اور وہی شخص جو کل تک عقل و علم پر ناز کر رہا تھا، آج ہاتھ ملتا ہوا پکار اٹھتا ہے: "کاش! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا۔” یہ "شریک” کون تھا؟ کوئی بت، کوئی مورت، کوئی دیوی؟ نہیں! یہ وہی "انا” تھی جس نے خدا کی جگہ لی تھی۔ یہ وہی "اعتماد بالذات” تھا جو "توکل علی اللہ” کو نگل گیا تھا۔ یہ وہی "علم و سائنس” پر اندھا بھروسا تھا جس نے "رب کی قدرت” کو ثانوی بنا دیا تھا۔
آج بھی یہی شرک خفی ہماری دنیا میں ہر طرف بکھرا ہوا ہے۔ جب ہم رزق کے ذرائع کو اپنا کرم سمجھنے لگتے ہیں، جب ہم عقل کو حتمی فیصلہ ساز ماننے لگتے ہیں، جب ہم سائنس کو معبود کا متبادل بنانے لگتے ہیں، جب ہم اسباب کو مسبّب سے بڑا ماننے لگتے ہیں تب ہم انجانے میں اسی شرک خفی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ شرک جلی کا انکار آسان ہے، مگر شرک خفی کی شناخت ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے۔
کبھی کبھی انسان کا دل ایمان سے معمور ہوتا ہے، زبان پر توحید کی مٹھاس ہوتی ہے، اور وجود عبادت کی خوشبو سے لبریز ہوتا ہے، لیکن قلب کا ایک کونہ ایسا ہوتا ہے جو خاموشی سے، چپکے سے، اسباب کی حکمرانی کو تسلیم کر چکا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اللہ ہے—ضرور ہے، لیکن بس "تخلیق کرنے والا”۔ اس کا کردار اب محض آغاز تک محدود ہے، اسباب و وسائل کی سلطنت اب خودمختار ہے، اور عقل و سائنس ہی اب زندگی کے فیصلے لکھتی ہے۔ یہ ہے شرکِ خفی کا وہ دھواں جو ایمان کے چراغ کو بے رنگ کرتا ہے، اور الحاد کا وہ دروازہ جو توحید کی فصیل میں سوراخ پیدا کرتا ہے۔
سورۂ کہف میں مذکور وہ شخص، جسے ہم عام زبان میں "باغ والا” کہتے ہیں، بظاہر ایک مومن تھا۔ وہ اللہ کا منکر نہ تھا، بلکہ اس کی زبان سے کبھی انکار نہ ہوا۔ لیکن جب وہ اپنی دولت، زمین، باغات اور علم پر ناز کرتا ہے، اور یہ گمان رکھتا ہے کہ یہ سب کبھی فنا نہ ہوں گے، یا فنا ہو بھی جائیں تو وہ دوبارہ ان سے بہتر پیدا کر سکتا ہے، تو درحقیقت وہ "اسباب کی الوہیت” کو تسلیم کر رہا ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں خالق پر ایمان تو قائم رہتا ہے، لیکن رب پر یقین مٹنے لگتا ہے؛ جہاں وجودِ خدا مانا جاتا ہے، لیکن مشیئتِ خدا کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے؛ جہاں عقل، سائنس اور تدبیر، خدا کے بعد نہیں بلکہ خدا کے بغیر کام کرتی ہوئی تصور کی جاتی ہے۔
یہ شخص، جسے ہم الحادی منہج پر نہیں سمجھتے، درحقیقت الحد الخفی کا شکار تھا۔ وہ الحاد جو شعور میں نہیں، مزاج میں ہوتا ہے؛ جو لاالٰہ کا اعلان نہیں کرتا، لیکن الااللہ کو بےاثر بنا دیتا ہے۔
آج بھی دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو زبان سے خدا کو مانتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، لیکن دل میں اعتماد اسباب پر ہے، اور بھروسہ اپنی کوشش، اپنی منصوبہ بندی، اپنی ذہانت پر ہے۔ وہ نتائج کو اپنے قابو میں سمجھتے ہیں، اور اللہ کو محض برکت دینے والا ایک ضمنی قوت مانتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں توحید کا نور مدھم پڑنے لگتا ہے، اور شرک خفی کی شب گزری چھا جاتی ہے۔
یہی وہ نظریہ ہے جو الحاد کے فلسفے کی جڑ ہے۔
ملحدین بھی اکثر "خالق” کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کا خدا ایک غیر متحرک، بےدخل، اور غیر متعلق وجود ہے۔ جس نے کائنات کو بنایا، مگر اب وہ کائنات کے نظام سے لاتعلق ہے۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسباب و علل کے تابع ہے۔ انسان کی محنت، وسائل، معلومات، اور قوتِ ارادی یہی کائنات کی نئی معبودات ہیں۔
ایمانِ کامل کی علامت یہی ہے کہ انسان عمل کرتا ہے، منصوبہ بناتا ہے، تدبیر کرتا ہے، لیکن ہر لمحہ اس شعور کے ساتھ کہ: > "وما تشاؤون إلا أن یشاء اللہ”
"تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ نہ چاہے۔”
یہ آیت صرف ایک جملہ نہیں، توحید کا نظریاتی محور ہے۔ یہی وہ توازن ہے جو انسان کی کاوش اور رب کی مشیئت کے درمیان قائم رکھتا ہے۔
لیکن جب یہ توازن بگڑ جائے، جب انسان انجام پر اپنا اختیار ماننے لگے، جب "ان شاء اللہ” دل سے نکل جائے اور صرف رسم رہ جائے تو یہی کیفیت، شرکِ خفی کا پہلا زینہ اور الحاد کا پہلا دروازہ ہے۔
علم الکلام نے اس مسئلے پر نہایت باریک بحث کی ہے کہ عقل کی حدود کہاں ختم ہوتی ہیں، اور وحی کی روشنی کہاں سے آغاز لیتی ہے۔ عقل، اسباب کو جان سکتی ہے، مگر مسبب الاسباب کو مکمل نہیں پا سکتی؛ سائنس، ظواہر کو سمجھ سکتی ہے، مگر ماورائے ظاہر میں رہنمائی کی محتاج ہے؛ فلسفہ، سوالات کھڑے کر سکتا ہے، مگر حقیقتِ مطلقہ تک رسائی صرف وحی اور ایمان کے ذریعے ممکن ہے۔ اسی لیے اسلام میں "عمل کی آزادی” کے ساتھ "نتیجے کی توفیق” اللہ کی مشیئت سے مشروط ہے۔ یہی ایمان کی وہ نزاکت ہے جسے اگر نظر انداز کیا جائے تو انسان ایمان کے خول میں الحاد کا کیڑا پالنے لگتا ہے۔
آج کا سب سے بڑا خطرہ وہ نہیں جو باہر سے آتا ہے، بلکہ وہ ہے جو اندر سے ایمان کو چاٹتا ہے۔ جب کامیابی پر یقین اپنے منصوبے پر ہو جائے؛ جب دعا مانگی جائے، مگر دل میں یہ خیال ہو کہ "چلو، دعا بھی کر لیتے ہیں”؛ جب اسباب اتنے غالب ہو جائیں کہ ان کے پیچھے کسی حکمتِ غیبی کو تسلیم کرنے سے انکار ہو جائے تو سمجھ لیجئے کہ ایمان کی چولیں ہل چکی ہیں۔
وہ شخص جب اپنے باغ کی ویرانی دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے: > "یا لیتنی لم أشرک بربی أحداً”
"کاش! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہوتا!” لیکن اس وقت کفِ افسوس ملنے سے کیا حاصل؟ جب ایمان میں اعتماد کی جگہ، غرور اور خود اعتمادی لے چکی ہو، جب شکر کے بجائے فخر نے گھر کر لیا ہو، جب اللہ کی ولایت کو بھلا کر انسان اپنی سلطنت کا خواب دیکھنے لگے، تو پھر ایک دن وہ باغ ویران ہو ہی جاتے ہیں۔
آج کے انسان کو ضرورت ہے کہ وہ صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ کے خول سے نکل کر ایمان کے باطن میں جھانکے۔
وہ دیکھے کہ کہیں اس کا یقین اللہ کے بجائے اسباب پر تو نہیں ٹک گیا؟ کہیں وہ زبان سے "توحید” تو پڑھتا ہے، مگر دل میں مخلوق پر بھروسہ تو نہیں رکھتا؟
کہیں وہ "الحادِ ظاہری” سے محفوظ ہو کر "الحادِ باطنی” کا شکار تو نہیں ہو چکا؟ اگر ہم نے اس باریکی کو نہ سمجھا، تو ہم بھی کل کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے کہ: > "کاش! ہم نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا—خواہ وہ ہمارا نفس، ہمارا علم، یا ہمارے اسباب ہی کیوں نہ ہوں۔”
تو آئیے!
شرک کو محض بت پرستی کی حد تک نہ سمجھیں۔ اس کی باریکیوں کو جانیں۔ اپنے دل کی تہوں کو کھنگالیں۔ کہیں ہم بھی اپنے عمل، اپنی تدبیر، اپنی قابلیت، یا اپنے کسی تعلق کو "خدا کا قائم مقام” تو نہیں مان رہے؟ یہی وہ لمحہ ہے جب بندہ، توحید کی اصل روح تک پہونچتا ہے—جہاں لا الٰہ الا اللہ صرف زبان کا ورد نہیں بلکہ زندگی کا نصب العین بن جاتا ہے۔