ووٹر لسٹ نظرثانی یا NRC:بہارکی جمہوری ہولی میں سیاسی گلال
از: ڈاکٹر عادل عفان
جمہوریت کا واقعی ایک اہم تہوار الیکشن ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ زمانہ الیکشن میں جمہوری ممالک اور ریاستوں کی خوب صورتی بڑھ جاتی ہے۔ سیا ست داں محبت کی ندیاں بہاتے ہیں اور ووٹرس ان کے اردگر دمنڈلا کرمحبت تقسیم کرتے ہیں مگر بہار میں اس اہم موقع پر جانب داری کا ایک ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے جس کی اجازت نہ سماج دیتا ہے اور نہ ہی جمہوری نظام۔ آج کل بہار میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جس پر لوگ مختلف طریقوں سے اظہار خیال کررہے ہیں۔ اور عام عوام میں خوف و بے یقینی کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ بہار میں ووٹر لسٹ کی حالیہ خصوصی نظرِثانی بظاہر ایک قانونی عمل ہے، لیکن اس پر اٹھنے والے سوالات، خدشات اور ردعمل اسے ایک پیچیدہ آئینی و سیاسی مسئلہ بنا رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق یہ نظرثانی آئین اور ”Representation of the People Act 1950” کے تحت کی جا رہی ہے،جو ووٹر لسٹ کی وقتاً فوقتاً جانچ کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی یہ کام مدتوں بعد اتنی تیز رفتاری سے وسیع پیمانے پر ضروری ہے؟ یا پھر یہ عمل محض سیاسی دباؤ یا انتخابی مفادات کے تحت کیا جا رہا ہے؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق، 2025 کے اسمبلی انتخابات اور 2024 میں حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے سیاسی جماعتوں کو نئی چالیں چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس بار شہریوں کو اپنے ووٹ کے حق کو برقرار رکھنے کے لیے شناختی دستاویزات اور ثبوت پیش کرنا لازمی ہے۔ ووٹر آئی ڈی کے ساتھ ساتھ برتھ سرٹیفکیٹ، رہائش کا ثبوت، اور شہریت کی تصدیق جیسے کاغذات کی مانگ کی جا رہی ہے، جو معاشی طور پر کمزور اور غیر رسمی علاقوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے ایک کٹھن عمل ہے۔ دیہی علاقوں میں تو ایسے کاغذات ناپید ہیں۔ اس سے یہ اندیشہ جنم لیتا ہے کہ ہزاروں ایسے ووٹرز لسٹ سے باہر ہو سکتے ہیں، جو برسوں سے رائے دہی کا استعمال کرتے آئے ہیں۔پھر ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں سیلاب کی کثرت ہوتی ہے۔ سیلاب نہ صرف خوابوں کو بہا لے جاتا ہے، بلکہ کاغذات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس میں ان علاقے کے افراد کے لیے یہ نظرثانی تشویشناک ہے، جہاں سیلاب کثرت سے آتے ہیں۔ خاص طور پر سیمانچل جیسے علاقوں کے لئے یہ مسئلہ مزید سنگین ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ وہاں سیلاب بھی آتا ہے اور تعلیم کی شرح بھی کم ہے۔
بہار کی اکثر سیاسی جماعتیں اس نظرثانی کو NRC کے متبادل کے طور پر قبول کیا ہے اور اس کے لیے نتیش حکومت پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ عمل غریب، دلت، مسلمان اور پسماندہ طبقات کو نشانہ بنانے کے لیے متعارف کیا گیا ہے، تاکہ انہیں ووٹ کے حق سے محروم کیا جا سکے۔ آر جے ڈی نے اسے ”غریبوں کے حق رائے دہی پر حملہ“ قرار دیا ہے، جبکہ کانگریس نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کو فی الفور روک دے اور پہلے اس کی آئینی و سماجی حیثیت پر وضاحت دے۔
دوسری طرف بہار کی حکومت اور بی جے پی کے حامی حلقے اس عمل کو شفافیت کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق غیر قانونی تارکینِ وطن اور جعلی ووٹرز کے باعث انتخابی عمل کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے، اور نظر ثانی کا مقصد اسی شفافیت کو مستحکم کرنا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ عمل ہر ووٹر کے لیے یکساں ہے، اور کسی مخصوص طبقے یا مذہب کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ واضح رہے کہ اس معاملے کے لیے وقت محض تین ماہ مقرر کیا گیا ہے، جس کے دوران لاکھوں لوگوں کی شناخت، تصدیق اور اعتراضات کا حل نکالا جانا ہے۔ دیہی علاقوں، خاص طور پر سیلاب زدہ یا پہاڑی علاقوں میں، الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کی رسائی محدود ہے۔ اس قلیل وقت میں اس عمل کو مکمل کرنا ایک غیر حقیقی ہدف لگتا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں شہری غیر ارادی طور پر لسٹ سے باہر رہ سکتے ہیں۔
موجودہ نظر ثانی کے تحت کچھ مخصوص حالات میں رعایت دینے کی بات کی گئی ہے، جیسے عمر رسیدہ شہری، معذور افراد، یا خواتین جن کا شادی کے بعد پتہ تبدیل ہو گیا ہو۔ لیکن زمینی سطح پر ان رعایتوں کا نفاذ انتہائی غیر منظم اور امتیازی نظر آ رہا ہے۔ شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ بعض علاقوں میں مسلمانوں، دلتوں یا بنجارہ برادری کے افراد سے زیادہ کاغذات طلب کیے جا رہے ہیں۔
قانونی ماہرین اور سیاسی پنڈت سوال کررہے ہیں کہ کیا الیکشن کمیشن کو حق حاصل ہے کہ وہ ایک ریاست میں اتنی سخت نظر ثانی شروع کرے؟ کیا ووٹر لسٹ کی جانچ، اس حد تک کہ شہری کو خود کو بار بار ثابت کرنا پڑے، آئینی اصولوں سے میل کھاتی ہے؟
اگر بہار میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کا عجوبہ سلسلہ کامیاب (یا کم از کم مکمل) ہو جاتا ہے، تو امکان ہے کہ دیگر ریاستیں بھی اسی طرز پر ووٹر لسٹ کی نظرثانی شروع کریں۔ یہ عمل اگر بغیر پیچیدگی کے آگے بڑھایا گیا، تو پورے ملک میں انتخابی عمل کی ساخت تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس طرح یہ محض ایک علاقائی معاملہ نہیں رہے گا، بلکہ ایک قومی مسئلہ بن جائے گا، جو ملک کے وفاقی ڈھانچے اور جمہوری اصولوں پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
جب سے مرکزی حکومت نے این آرسی کی بات کی ہے تب ووٹر لسٹ پر سیاست دانوں کی نظریں گہری ہوگئیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں کبھی اتنی سخت اور مکمل جانچ کی ضرورت محسوس کیوں نہ کی گئی؟ اور کیوں یہ عمل ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے جب ریاست انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے؟ ان سوالات کے جواب تلاش کیے بغیرنظرثانی کے اس عمل پر عوامی اعتماد بحال نہیں کیا جا سکتا۔ دستاویزات کی پیچیدہ مانگ، کم وقت میں عمل درآمد، اور امتیازی رویے کے خدشات اسے ایک متنازعہ قدم بنا چکے ہیں۔ اپوزیشن اسے ایک سیاسی چال قرار دے رہی ہے، جس کا مقصد ووٹوں کا ”صفایا“ ہے، جبکہ حکومت اس سے شفافیت کی امید لگائے بیٹھی ہے۔
اس عمل کو جہاں حکومت ایک جمہوری قدم قرار دے رہی ہے، وہیں اپوزیشن اسے حق رائے دہی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ زمین پر موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ شہری، خاص طور پر غریب اور حاشیے پر موجود طبقات، ایک بار پھر شناخت کے بحران سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ کیا آنے والے انتخابات واقعی زیادہ شفاف ہوں گے، یا یہ عمل جمہوری حق سے محرومی کی ایک مثال بن جائے گا؟راقم یہ نہیں کہتا ہے کہ ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں ہوسکتی ہے، مگر آناً فاناًبہار حکومت جو کچھ کرنے جارہی ہے، اس پر سوالات اٹھتے ہیں۔ سیلابی علاقوں کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے حکومت بہار اور الیکشن کمیشن کے لیے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کا وقت ہے۔

(مضمون نگار ڈاکٹر عادل عفان ایک تجربہ کار معلم اور معروف تجزیہ نگار ہیں)