جنگ رکی، ضمیر نہیں جاگا؛ فلسطین معاملے میں اخوت اسلامی پر سوالیہ نشان!
ازـــــ مدثر احمد قاسمی
عقلی نقطۂ نظر سے جنگ بندی انسانی ضمیر کی اُس پکار کا جواب ہے جو امن، عدل اور بقاء کو جنگ، ظلم اور فنا پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ اس اعتراف کا اظہار ہے کہ انسانی جان، جو کائنات کی سب سے قیمتی حقیقت ہے، کسی سیاسی مفاد یا انتقامی جذبے کی بھینٹ نہیں چڑھائی جا سکتی۔مذہبی زاویے سے دیکھیں تو اسلام سمیت تمام آسمانی مذاہب میں انسانی جان کی حرمت کو بنیادی درجہ حاصل ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے ایک جان کو بغیر حق کے قتل کیا، گویا اس نے تمام انسانیت کو قتل کیا۔” (المائدہ: 32) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں بے گناہوں کا خون بہانا ایک سنگین جرم ہے اور جنگ بندی ایک مقدس ذمہ داری ہے تاکہ معصوموں کو امن نصیب ہو۔یوں جنگ بندی ایک اخلاقی، عقلی اور شرعی تقاضا ہے، جو ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہے کہ امن صرف ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایک انسانی اور الٰہی فریضہ ہے۔
اس تناظر میں حالیہ اسرائیل-ایران جنگ بندی، جس نے ممکنہ طور پر پورے خطے کو ایک وسیع تباہی سے بچایا، ایک قابلِ قدر اور قابلِ ستائش قدم ہے۔ یہ اقدام انسانی جانوں کے احترام، خطے کے استحکام اور عالمی امن کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس کے لیے جن ممالک، اداروں یا شخصیات نے بھی کوششیں کیں، وہ یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں، کیونکہ انہوں نے انسانیت کو ایک بڑی تباہی سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ جب دنیا سنجیدہ ہو جائے تو خون بہنے سے روکا جا سکتا ہے، اور امن کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
لیکن اسی کے ساتھ ایک تلخ، پُردرد اور سنگین سوال دنیا کے سامنے کھڑا ہے: وہی دنیا جو اسرائیل اور ایران کے درمیان صرف بارہ دن کی کشیدگی کو برداشت نہ کر سکی، وہ آخر فلسطین کے نہتے مسلمانوں کے بہتے ہوئے خون کا سمندر سالہا سال سے کیسے دیکھتی چلی آ رہی ہے؟ کیوں ان بچوں کی چیخیں، ان ماؤں کی آہیں، اور ان بوڑھوں کی لاشیں دنیا کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتیں؟ اگر امن انسانیت کے لیے ہے، تو کیا فلسطینی انسان نہیں؟ اگر جنگ بندی ایک نیکی ہے، تو فلسطین میں امن کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟ یہ خاموشی، یہ دوہرا معیار، اور یہ اندھا انصاف آج کے عالمی نظام کا سب سے بڑا المیہ ہےجس پر تاریخ خاموش نہیں رہے گی۔

مذکورہ جنگ بندی میں قطر کی سفارتی مہارت اور ایران کی حکمت عملی کی تعریف بجا ہے؛ لیکن چونکہ یہ دونوں اسلامی ممالک ہیں اور اسلامی اخوت اور مظلوم مسلمانوں کی حمایت کا دعویٰ رکھتے ہیں، اس لیے ایک منطقی سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے میں فلسطین میں مکمل جنگ بندی اور انسانی حقوق کی بحالی کو بطور شرط شامل کراتے؟ خاص طور پر اس وقت جب اسرائیل عالمی دباؤ اور عسکری دباؤ کی وجہ سے غیر معمولی کمزور پوزیشن میں تھا۔ یہ سفارتی لمحہ ایک نایاب موقع تھا، جب مسلم دنیا پہلی بار کسی جنگ میں اسرائیل کے مقابل تھوڑے بہت برتری والے موقف میں تھی۔ اگر قطر اور ایران نے فلسطین میں جنگ بندی کی شرط رکھ کر اپنی بات منوا لی ہوتی، تو یہ نہ صرف مظلوم فلسطینیوں کے حق میں ایک بڑی کامیابی ہوتی بلکہ مسلم دنیا کی عزت و وقار کی بحالی کی طرف بھی ایک تاریخی قدم ہوتا۔ مگرافسوس ایسا نہ ہوسکا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم درد اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔” (بخاری و مسلم) یہ حدیث محض ایک جذباتی تعبیر نہیں، بلکہ ایک جامع فلسفۂ ہے امت کی وحدت کے لیئے؛ جو مسلم دنیا کو باہمی ربط، ہمدردی اور اجتماعی احساسِ ذمہ داری کا عملی خاکہ دیتی ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں اگر آج کی مسلم دنیا اپنا محاسبہ کرے تو حقیقت نہایت افسوسناک نظر آتی ہے، کیونکہ جس وقت فلسطین کے معصوم مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوتے ہیں، تو باقی مسلم دنیا عملی طور پر خاموش نظر آتی ہے۔
منطقی طور پر دیکھا جائے تو جس جسم میں درد کا احساس نہ رہے، وہ یا تو بے ہوش ہوتا ہے یا مردہ۔ اگر مسلم دنیا فلسطینی مظلومین کے خون، آہوں، اور آنسوؤں پر بھی حرکت میں نہ آئے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امت اب احساس کی بے ہوشی کا شکار ہو چکی ہے؟ یا پھر وہ روحانی رشتہ، جو ہمیں ایک جسم بناتا تھا، کہیں کھو چکا ہے؟ یہ حدیث درحقیقت ایک معیار ہے، ایک کسوٹی ہے، جس پر امتِ مسلمہ کی حقیقی وحدت کو پرکھا جا سکتا ہے۔ آج اگر اس کسوٹی پر ہم پورے نہیں اتر رہے، تو ہمیں صرف مظلوموں سے نہیں، بلکہ اس حدیث کے پیغام اور اپنے پیارے نبی کے ارشاد سے بھی بے وفائی کا سامنا ہے — اور یہ بے وفائی صرف دنیاوی نہیں، بلکہ اخروی نقصان کا بھی پیش خیمہ ہے۔

ان تمام حقائق اور رویوں کا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد ایک منصف مزاج تجزیہ نگار اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ آج کے بیشتر مسلم ممالک ذاتی مفادات، اقتدار کی کشمکش اور وقتی سیاسی فائدوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جب تک یہ امت اپنی اصل روح — یعنی توحید، اخوتِ اسلامی، عدل اور مظلوموں کی حمایت — کی طرف صدقِ دل سے واپس نہیں آتی، تب تک نہ صرف وہ دوسروں کی مدد کے قابل ہو سکے گی، بلکہ خود اپنی عزت، سلامتی اور خودمختاری کی حفاظت بھی نہیں کر سکے گی۔ اسی لیئے قرآن مجید نےمسلمانوں کو ایک اجتماعی حکم یہ دیا ہے کہ: "سب مل کر مضبوطی کے ساتھ ﷲ کی ڈوری کو تھام لو اور پھوٹ کا شکار نہ ہو جاؤ.” (آل عمران:103)۔ یاد رکھیں! جب تک امت خواب غفلت سے بیدار نہ ہو گی اور اجتماعی شعور کے اطمینان بخش منزل پر نہیں پہونچے گی، دنیا اسے ایک آسان شکار، ایک "لقمہ تر” سمجھتی رہے گی، اور وہ قافلہ جو کبھی دنیا کی قیادت کرتا تھا، محض اپنی بقا کی جنگ لڑتا رہے گا۔
(مضمون گار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب کے ڈیلی کالم نگار اور الغزالی انٹر نیشنل اسکول، ارریہ کے ڈائریکٹر ہیں)
