کالی پٹی والے احتجاج کا کیا ہوا؟
ازـــــ محمد برہان الدین قاسمی
ذمہ داران، بڑی تنظیموں اور سنجیدہ شخصیات کے لیے مشکل حالات میں بھی درست فیصلہ کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے جمعۃ الوداع پر کالی پٹی باندھنے کے اعلان پر مزید غور و خوض کی ضرورت تھی۔ اس احتجاجی اقدام کے کامیاب ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں تحریک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا گہرائی سے جائزہ لیا جانا چاہیے تھا۔ لگتا ہے کسی صاحب کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ دہلی کے امام بخاری صاحب نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایسا اعلان کیا تھا، چنانچہ ہم بھی ایک پریس ریلیز کے ذریعے ملک بھر میں اعلان کر دیں گے، اور 24 گھنٹوں میں تمام لوگ کالی پٹی باندھ کر جمعۃ الوداع میں شریک ہو جائیں گے۔
لوگوں کو اس اقدام کو سمجھنے کا مناسب موقع نہیں ملا، نیز ملک بھر میں اس احتجاج کی مؤثر طریقے سے تشہیر بھی نہیں کی جا سکی۔ کسی مخصوص لباس یا علامت (جیسے کالی پٹی) کو بدن پر لگانے کے لیے عوام کو خاص حالات اور مناسب تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ توقع کرنا کہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب میں کوئی شخص سوشل میڈیا والا اعلان پڑھےگا، کالی پٹی کا انتظام کرے گا، اور پھر جمعۃ الوداع پر اسے بازو پر باندھ لے گا اور عوامی مقام جیسے مسجد میں جائے گا، عوام سے بہت زیادہ توقعات رکھنے کے مترادف ہے۔
وقف ترمیمی بل 2024 کی مخالفت میں جنتر منتر اور پھر بہار میں کامیاب احتجاج کے بعد، اب اگر چھوٹے یا کم معیاری احتجاجی اقدامات کیے جائیں، جن میں بورڈ خود شامل ہو، تو یہ وقف بل مخالف تحریک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ کچھ حلقے ہماری تعداد اور تحریک میں جوش و جذبات نیز عوام کی شرکت کا نوٹس لے رہے ہیں اور اپنے اپنے اداروں میں رپورٹس بھی جمع کرا رہے ہیں جسے حکومتی فیصلے متاثر ہوتے ہیں۔ بورڈ کی طرف سے آفیشل اعلان کے باوجود اگر جمعۃ الوداع جیسے موقع پر بڑی تعداد میں لوگ احتجاج میں شریک نہیں ہوئے، تو یہ ہماری تنظیمی کمزوری ہے اور اس کا مطلب ہے کہ اعلان سے قبل مناسب مشورہ اور منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔
بل پاس ہو یا نہ ہو، ہماری تحریک کامیاب ہو یا نہ ہو، نتیجہ کا علم اللہ ہی کو ہے۔لیکن بورڈ کی طرف سے کیا جانے والا ہر احتجاج، بورڈ، علماء کرام اور مذہب اسلام کے شایانِ شان ہونا چاہیے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ بعض کاموں کو براہِ راست انجام دینے کے بجائے اپنے اراکین تنظیموں کے ذریعے بھی کروا سکتا ہے۔ ہر معاملے میں براہِ راست شامل ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ بورڈ کی جانب سے جب بھی کوئی اعلان کیا جائے، وہ مکمّل غور و فکر، وسیع پیمانے اور ملک بھر کے لیے ہونا چاہیے، کیونکہ بورڈ کے احتجاج کا دائرہ کار یا عام مسلمانوں کا ردعمل اگر محدود ہوگا تو اس کا تحریک پر منفی اثر پڑے گا۔