زیر نظر مضمون کا مقصد صرف سنہری تاریخ کو دہرانا نہیں ہے بلکہ اس تاریخ کے آئینے میں اپنی موجودہ حالت کا جائزہ لینا ہے کہ کیا اب بھی ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہمیں اہل دنیا تخلیق کار اور موجد کے طور پر دیکھیں؟
مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور روزنامہ انقلاب کے ڈیلی کالم نگار ہیں۔
ہر زمانے کے لوگوں نے کسی بھی چیز میں کمال، پختگی اور حسن کو سراہا ہے؛ کیونکہ فطرت کا یہی تقاضا ہے۔ یہ نکتہ ہمیں قرآن مجید کی اس آیت سے سمجھ میں آتا ہے جس میں اللہ رب العزت نے تخلیق انسان کے تعلق سے فرمایا ہے: ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔‘‘ (التین:۴) بلاشبہ جب کوئی محقق انسانی تخلیق میں سر تا پا کمالات کو دیکھتا ہے تو وہ استعجاب کی ایک محیر العقول دنیا میں داخل ہوجا تا ہے۔ یہیں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب اللہ رب العزت نے انسان کو اس درجہ کامل بنایا تو اس انسان کو بھی بطور شکرمندی اپنے کاموں کو درجہ کمال تک پہنچا نا چاہئے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو سامنے رکھ کر ماضی میں ہمارے اسلاف نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے کاموں کو درجہ کمال تک پہنچایا اور اس طرح انہوں نے تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش چھوڑے۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جب دنیا جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی اور آداب زندگی سے بھی ناواقف تھی، اس وقت مسلم دانشوران قرآن کے ذریعے غور و فکر کیلئے دی جانے والی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنی سوچ کو پروان چڑھا رہے تھے اور علوم و معلومات اور تحقیق و ایجادات میں اپنے کمال کا جو ہر دکھا رہے تھے۔ مثال کے طور پر جدید عہد کے متعدد سرجیکل آلات کی بنیاد دسویں صدی کے مسلم سرجن الظواہری نے رکھی، ان کے نشتراور دیگر آلات کی اہمیت کو آج کے سرجن بھی مانتے ہیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے زخموں کو ٹانکے لگانے والا ایسا دھاگا بھی تیار کیا جو قدرتی طور پر جسم سے الگ ہو جاتا تھا جبکہ انہوں نے کیپسول بھی ایجاد کیا، اسی طرح تیرہویں صدی میں ایک اور مسلم طبی ماہر ابن نفیس نے دوران خون کی وضاحت کی جبکہ مسلمان ڈاکٹروں نے افیون اور الکحل کے امتزاج سے ایسی سوئیاں تیار کیں جس سے کسی کو بھی بے ہوش کیا جاسکتا تھا اور یہ تکنک اب بھی استعمال ہو رہی ہے۔
زیر نظر مضمون کا مقصد صرف سنہری تاریخ کو دہرانا نہیں ہے بلکہ اس تاریخ کے آئینے میں اپنی موجودہ حالت کا جائزہ لینا ہے کہ کیا اب بھی ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہمیں اہل دنیا تخلیق کار اور موجد کے طور پر دیکھیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا مثبت جواب بمشکل ہی مل سکتا ہے؛ کیونکہ اسوقت ہماری جو شبیہ دنیا کو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان میکینک ہو سکتے ہیں ، موجد نہیں اور پنکچر بناسکتے ہیں ، موٹر کار نہیں ! اس صورت حال تک ہم کیسے پہنچے؟ اس کا جواب نہ ہی پیچیدہ ہےاور نہ ہی مشکل؛ کیونکہ جس میدان (علم) میں کمال حاصل کرکے ہم نے عروج حاصل کیا تھا، ظاہر ہے کہ اسی میں کوتاہی اور کمی کی وجہ سے زوال نے ہمارا استقبال کیا ہے۔ زوال کی اس قدر واضح وجہ سامنے آنے کے باوجود ہم اب بھی پتہ نہیں کس مسیحا کے انتظار میں ہیں ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ مسلمانوں میں تعلیمی زوال کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مسلمان اب اپنے بچوں کو تعلیم گاہ نہیں بھیج رہے ہیں۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر مسلمان اپنے بچوں کو تعلیم گاہ صرف اس لئے بھیج رہے ہیں کہ وہ بس پڑھ لکھ لیں۔ ان میں وہ الوالعزمی نہیں دکھائی دیتی جس سے تعلیم کے ذریعے بلند مقاصد حاصل ہوں اور بچوں میں آسمان پر کمند ڈالنے کا جذبہ پروان چڑھے۔
چونکہ راقم الحروف تعلیم و تعلم کے کام سے بھی وابستہ ہے اس وجہ سے یہ تلخ تجربہ ہے کہ جس توجہ سے سرپرست حضرات کو بچوں کو تعلیم گاہ بھیجنا چاہئے اور ان میں انہیں جو جذبہ ابھارنا چاہئے، اس میں مایوس کن حد تک کمی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے بھی بس یونہی روٹین کے مطابق تعلیم گاہ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ ان کی اس حرکت کی برکت مستقبل میں نظر نہیں آتی ہے؛ چاہے وہ مقابلہ جاتی امتحانات ہوں یا تحقیق و ایجاد کا میدان، یا مسابقتی دُنیا۔
افسوس کہ مذکورہ صورتحال کے باوجود مسلمان اپنی زبوں حالی اور ناکامی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑتے ہیں ۔ حالانکہ ایک سینئر مسلم آئی آر ایس نے جو کمشنر کے عہدے پر فائز ہیں ، راقم الحروف سے بتلایا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے مجھے کہیں بھی اور کبھی بھی دشواری نہیں ہوئی۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کوتاہی اپنی ہے دوسروں کی نہیں ۔ اس لئے، خدارا! منبع علم قرآن کو سامنے رکھیں اور معلم ؐ انسانیت کی ہدایات کو حرز جاں بنائیں اور ان دونوں کی روشنی میں علم و تحقیق کے سمندر میں غواصی کرکے کامیابی کے موتی چنیں