مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔
احساس کی بیداری بنی نوع انسان کی ترقی اور کامیابی کے لیئے بہت ہی ضروری ہے۔ زندگی کا یہ وہ لطیف عنصر ہے جس سے انسان اپنے آپ، اہل خا نہ اور سماج کی کیفیت سے آگاہ رہتا ہے اور ردعمل کے طور پر بھلائی اور خیر وجود میں آتا ہے۔ چونکہ اسلام سراسر بھلائی اور خیر خواہی کا نام ہے،اس وجہ سے اس کی تعلیمات میں بکثرت ایسی باتوں کی تلقین کی گئی ہے جس سے انسان کا احساس بیدار رہے اور وہ خود اپنے آپ کی اور آس پاس کے لوگوں کی ضرورت سے بھی آگاہ رہے۔ اس تعلق سے اسلام کا کمال یہ ہے کہ اس نے جانوروں اور غیر جاندار چیزوں کے تعلق سے بھی انسان کے احساس کو بیدار کیا ہے اور ان کے حقوق کی بھر پور ترجمانی کی ہے۔
یہاں ہم چار مختلف احادیث کو پیش کر رہے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کا اپنے آپ، آس پاس کے لوگوں، جانوروں اور غیر جاندار کے تعلق سے بیداری ضروری ہے۔ پہلی حدیث یہ ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے۔“ (ترمذی) دوسری حدیث یہ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ کامل مومن نہیں ہوسکتا جو پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا ہو۔”(بیہقی) تیسری حدیث یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے، یا کھیتی کرتا ہے اوراس درخت یا کھیتی میں سے کوئی چڑیا، یا آدمی، یا جانور کھاتا ہے تواس لگانے والے یا بونے والے کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔” (بخاری) اور چوتھی حدیث یہ ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک بار گھر کے سامنے بیٹھ کر باتیں رہے تھے کہ رسول اللہ تشریف لائے فرمایا تم لوگ راستہ پر کیوں بیٹھ جاتے ہو، اس سے بچو، ہم نے عرض کیا کہ ہم ایسے کام کے لیے بیٹھے ہیں جس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہم تو آپس میں باتیں اور تبادلہٴ خیال کے لیے بیٹھے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کرنا ہی ہے تو اس کا حق اداکرو، وہ یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو، سلام کا جواب دو اور اچھی بات کرو۔(ابو داؤد)
مذکورہ حدیثوں کا مشترکہ پیغام یہ ہے کہ انسان ہمہ وقت مختلف سطحوں اور پہلو ؤں کے اعتبار سے بیدار رہے اور زندگی کا بھر پور ثبوت پیش کرے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جس اسلام نے ہمہ جہت احساس کو بیدار رکھنے کی تلقین کی ہے آج اسی کے ماننے والوں کی اکثریت بے حسی کی دبیز چادر تانے سوئی ہوئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس متاع گراں مایہ کے لٹ جانے کا انہیں کوئی غم نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے بہت پہلے اس درد کو یوں بیان کیا تھا:
وائے نادانی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
غور کیا جائے تو آج کے اس انقلابی دور میں مسلمانوں کے غیر انقلابی طرز عمل کی ایک اہم وجہ یہی بےحسی ہے۔ آج مسلمانوں کے احساس کا دھاگا اس قدر کمزور ہے کہ ہر مقام اور ہر سطح پر وہ الگ الگ کھڑے نظر آتے ہیں اور دشمن انہیں لقمہ تر سمجھ کر نشانہ بناتے ہیں۔
مزید تباہی سے بچنے کے لیئے مذکورہ مسئلہ کے حل کی کو شش بلا تاخیر ضروری ہے۔ اس کے لیئے رمضان المبارک سے بہتر کوئی اور وقت نہیں ہوسکتا ہے؛ کیونکہ رمضان کے روزے کے جہاں بہت سارے دینی اور دنیاوی فائدے ہیں وہیں ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کے اندر احساس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔قابلِ فکر بات یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ بیداری کے اس موقع کو بھی اِس طر ح گزارتے ہیں گویا کہ بیداری کا یہ موقع بھی اُن کی غفلت کی تسکین کے لئے وارد ہوئے ہیں۔ ایک ایسا موقع جب بھوک اور پیاس کو محسوس کرکے غریبوں اور حاجت مندوں کے لئے ہمیں بیدار ہوجانا چاہئے؛ ہم کوشش یہ کرتے ہیں کہ ہمارا رمضان اس طرح گزرے کہ ہمیں بھوک اور پیاس کا احساس ہی نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ہم سہل پسندی والے اپنے اِس طرزِ عمل سے رمضان المبارک کے مقاصد میں سے غمخواری کاا حساس بیدار کرنے والا مقصد گنوا دیتے ہیں اور اس طرح سال در سال آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہوتے جاتے ہیں۔
خدارا! آئیے ہم اس رمضان کو احساس کو بیدار کرنے والا رمضان بنا لیں اور ایک دوسرے سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مربوط ہو جائیں